’’ایتھوپیا ‘‘بھی ہم سے آگے نکل گیا
نجکاری کا عمل تیز ہوتے ہی مزید بیرونی سرمایہ کاری ایتھوپیا کا رخ کرے گی
افریقی ملک ایتھوپیا کا نام سنتے ہی ایک ایسے ملک کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جو دو جنگ و جدل اور قحط سے تباہ حال چلا آ رہا تھا۔ اس کی آبادی کوئی دس کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں ایک تہائی مسلمان ہیں۔
پاکستان کے عام انتخابات سے 3ماہ قبل اپریل 2018میں ایتھوپیا میں بھی انتخابات ہوئے جس میں وزیر ِاعظم ابی احمد نے کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے اور میڈیا کو مکمل آزادی سے ہمکنار کیا۔
انھوں نے اُن لوگوں سے معافی مانگی جن پر رِیاست کئی عشروں سے ظلم ڈھاتی چلی آ رہی تھی۔ مختصر سی مدت میں سول سوسائٹی فعال ہو گئی ہے۔ اِس کے علاوہ انھوں نے اپنے ہمسایہ ملک اریٹیریا سے تعلقات بحال کیے جس کے ساتھ جنگ میں ایک لاکھ افراد موت کی گھاٹ اُتر چکے تھے۔ مسلمان باپ اور عیسائی ماں کے بیٹے ابی احمد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اِن عظیم کارناموں پر انھیں گزشتہ دنوں امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ اس نوبل انعام کی مالیت 90 لاکھ سویڈیشن کراؤن یا نو لاکھ امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ یہ انعام انھیں 10 دسمبر کوناروے کے دارالحکومت اوسلو میں دیا جائے گا۔
ایتھوپیا کی تاریخ بڑی ہنگامہ خیز اور درد ناک ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ایتھوپیا کی مزاحمتی تحریک نے انگریزوں کی مدد سے اٹلی کو باہر نکال کر ایک آزاد ملک بنایا۔ اس کے بعد کی تاریخ کے بیشتر دور میں اس ملک کو بد ترین قدرتی آفات، بد ترین قحط سالیوں، بد ترین آمریتوں، پڑوسیوں کے ساتھ طویل اور خونیں لڑائیوں، بھوک ننگ اور ذلت کا سامنا رہا۔ ان حالات و واقعات کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے فاقہ زدہ ممالک میں ہوتا تھا، مگر سن 2000کے بعد صورت حال تیزی سے بدلنے لگی۔ ایتھوپیا دنیا کا تیسرا غریب ترین ملک تھا۔ پھر یہاں پر جو تبدیلی آئی وہ حیرت انگیز تھی۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000 سے لے کر 2016 تک ایتھوپیا دنیا میں تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔ جہاں تک مستقبل میں ترقی کی رفتار کا تعلق ہے تو آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق 2022 تک ایتھوپیا کا جی ڈی پی چھ اعشاریہ دو کی شرح سے بڑھے گا۔ اور اگر یہ رفتار برقرار رہی تو مستقبل قریب میں ایتھوپیا ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔یہ باتیں جان کر شاید ہمیں تکلیف پہنچے کہ جس ملک کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ہماری زندگی میں کبھی وہ قحط سے بھی نکل سکے گا یا نہیں، آج اُس کی جی ڈی پی 6.5اور پاکستان کی جی ڈی پی 3.3ہے۔بقول شاعر
فضا نہیں ہے ابھی کھل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے
اور یہ کالم شاید قارئین پر ناگوار گزرے کہ ہم (پاکستانی )اتنے گئے گزرے نہیں کہ ایتھوپیا جیسے بھوکے ننگے ملکوں کے تجربات کے محتاج ہوں۔ لیکن پیشگی معذرت کے ساتھ ہم ایتھوپیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جن شعبوں میں ہم یہ استفادہ کر سکتے ہیں ان میں ایک تعلیم ہے۔ ایتھوپیا نے کئی برس قبل یہ اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا کہ ایتھوپیا اپنے کل بجٹ کا پچیس فیصد تعلیم پر خرچ کرے گا اور اس بجٹ کا نصف پرائمری تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ اس موضوع پر عالمی بینک نے ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار پانچ سے دو ہزار سترہ تک ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کی شرح میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔
ایتھوپیا نے جب تعلیم میں انقلاب کے عزم کا ارادہ کیا تھا تو اس وقت پورے ملک میں کل ملا کر آٹھ سرکاری اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔ 2017 تک ان کی تعداد چھتیس ہو چکی تھی۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کی جو پالیسی اپنائی وہ ستر تیس کے نام سے مشہور ہوئی۔ 7030 کا مطلب یہ تھا کہ ستر فیصد طلبا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جائے گی، اور باقی تیس فیصد کو سماجی سائنس اور فنون عامہ یا علم و ادب پڑھایا جائے گا۔ یہ پالیسی عالمی ضروریات کے تناظر میں بنائی گئی تھی، چنانچہ اس پالیسی نے حیرت انگیز اور فوری نتائج دیے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا بلکہ ٹھوس معاشی پالیسی ترتیب دے دی ہے۔ابی احمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نجکاری کا اعلان کیا۔ ایتھوپیا کے سب سے بڑے چار کاروبار ایتھوپیا ایئرلائن، ٹیلی کام، الیکٹرک پاور کارپوریشن، شپنگ اینڈ لاجسٹکس اور انڈسٹریل پارکس کی جزوی نجکاری کی گئی۔ ساٹھ ملین لینڈ لائن اور موبائل فون کنکشن والے ملک میں ٹیلی کام سیکٹر میں مزید دو نئے لائسنس دیے گئے۔
سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لیے ایتھوپیا میں چین کی طرز پر انڈسٹریل پارکس بنائے گئے ہیں۔ پانچ انڈسٹریل پارکس حکومتی ملکیت ہیں جب کہ دو نجی شعبے میں ہیں۔ وزیر اعظم ابی احمد 2025تک 30 انڈسٹریل پارکس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں اور ملکی پیداوار پانچ فیصد سے بڑھا کر بائیس فیصد تک لائی جائے۔ کئی بڑے کاروباری برانڈز پہلے ہی ایتھوپیا پہنچ چکے ہیں۔
ابی احمد علی کی پالیسیوں نے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ ورلڈ بینک نے ڈائریکٹ بجٹ سپورٹ کے لیے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر دیے ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات کا ایک تعمیراتی گروپ ایتھوپیا میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو ہے۔ یہ سرمایہ کاری چار ہزار گھروں کی تعمیر میں کی جائے گی۔ نجکاری کا عمل تیز ہوتے ہی مزید بیرونی سرمایہ کاری ایتھوپیا کا رخ کرے گی۔
یہ سارے کام ایک طرف مگر جو بات دل کو لگی وہ وہاں کے عوام کا طرز عمل ہے، وہاں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے 200سالوں سے موجود خانہ جنگی میں اپنے کسی پیارے کو نہ کھویا ہو، لیکن وہاں کے عوام نے ''تبدیلی'' میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا، وہاںلگ بھگ 19سال سے تبدیلی کا سفر جاری ہے، جس کا ثمر آج عوام کو ملنا شروع ہوگیا ہے۔
وہاں کے عوام نے حکومت کا ہر سطح پر ساتھ دیا، مثلاََ اگر حکومت نے پودے لگانے کی بات کی تو ایتھوپیا کے عوام نے 12 گھنٹوں میں 35کروڑ پودے لگا کر کئی ممالک کے ریکارڈ کو توڑ دیا۔درخت لگانے سے کیا کیا معجزے ہو سکتے ہیں؟ ہم سب یہ جانتے ہیں۔ ہم ہر سال دس بلین ٹن سے زائد کاربن ہوا میں پھینکتے ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق اگر دنیا میں پانچ سو ارب درخت لگائے جائیں تو فضا سے کل کاربن کا ایک چوتھائی کم ہو سکتا ہے۔
اس کے برعکس ہم عوام کچھ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، اگر کوئی قائد ہمیں یہ کہتا ہے کہ فلاں کاروبار کر لو اس سے ملک کو فائدہ ہوگا، ہم اُس کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ تبھی آج ہماری ترقی کی شرح شرمناک حدتک نیچے آچکی ہے جب کہ نائیجیریا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر کے آس پاس ہیں جب کہ بنگلہ دیش 40ارب ڈالر کو چھو رہا ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہے اور کپاس بڑی فصل تصور کی جاتی ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات کے میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اسی ہفتے ورلڈ اکنامک فورم نے عالمی مسابقتی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی معیشت جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں تنزلی کا شکار رہی ہے جب کہ عالمی سطح پر بھی پاکستان ایک سال کے دوران مزید تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔
لہٰذا آج عمران خان بھی ابی حمد کی جگہ لے سکتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، کس نے باندھے ہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر جس طرح وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرکے عالمی لیڈر کے طور پر اُبھرے ہیں وہ یقینا پاکستان میں بھی بولڈ اقدامات کرکے اگلے نوبل انعام کے حقدار قرار پا سکتے ہیں لیکن اُس کے ایتھوپین عوام کی طرح پاکستانی عوام کو بھی حکمرانوں کا ساتھ دینا ہوگا!