آزادی مارچ کے نتائج ابھی سے شروع
جے یو فکری طور پر مودی سرکار کی وفادار اور پاکستان اور کشمیریوں کی دشمن جمعیت العلمائے ہند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے
جے یو آئی ایف کے ڈنڈا بردار حفاظتی دستوں کا مولانا فضل الرحمن کو گارڈ آف آنر پیش کرنے کا جمہوریت افروز منظر دیکھ کر مولانا کے جملہ تمام کوتاہ اندیش و عاقبت نااندیش جمہوریت پسندی سے عاری جمہوریت دشمن حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی جب کہ عوام کالانعام حسد و رشک کا شکار ہوگئے۔
البتہ ملک کے ثقہ جمہوری سیاسی و میڈیائی حلقوں میں اس جمہوریت آفریں منظر سے جمہوری جوش و ولولہ ایک وبا کی مانند پھیل گیا۔ چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ اس جمہوریت انگیز ماحول سے تقویت پاکر مختلف جمہوری قوتیں محترم مولانا کی آزادی مارچ کے جمہوری عمل کا حصہ بننے کے لیے دل و جان سے آمادہ پیکار ہیں۔ ان چیدہ جمہوری طاقتوں میں ہمیں پاکستان کے کئی علاقوں کو برملا افغانستان کا حصہ قرار دینے والے اور ساتھ ہی پاکستان میں حکومتی عہدوں کی برکت سے فیض یاب ہونے والے اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کی سیاسی لسانی جماعتیں پیش پیش نظر آتی ہیں۔
ادھر مولانا فضل الرحمن سے حسد کے لاعلاج مرض میں مبتلا ان کے ناقدین بھی اب مولانا کی سیاسی و جنگی چالوں سے مرعوب نظر آتے ہیں اور یہ ماننے پہ مجبور ہیں کہ ایسے کڑے فوجی ڈسپلن میں گندھے ڈنڈا بردار دستوں کے ساتھ پورے ملک سے کروڑوں اربوں روپوں کے اخراجات کے ساتھ اسلام آباد پہ اس ولولہ انگیز یلغار کو محض ایک مارچ کا درجہ دینا حد درجے فکری زیادتی ہے یہ تو درحقیقت ایک منظم لشکر کشی ہے جو اسلام آباد تسخیرکیے بغیر نہیں رکے گی۔
آپ بہرحال اس عظیم مارچ کو جو چاہے نام دیجیے مگر آپ کو مولانا فضل الرحمن اور ان کے چنیدہ سرد و گرم حشیدہ ساتھیوں کے ناقابل بیان فہم و فراست کا قائل ہونا پڑے گا کہ کس طرح اس مجوزہ آزادی مارچ نے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی مثبت نتائج پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں۔
جی ہاں، آپ ذرا غورکیجیے کہ ابھی جہاں ٹی وی ٹاک شوز میں زبان کی بد ہضمی کا شکار کروڑ پتی، ارب پتی ٹی وی اینکر آزادی مارچ کے ہونے یا نہ ہونے پر ہی بے یقینی سے دوچار ہیں وہاں اس آزادی مارچ نے شروع ہونے سے قبل ہی مختلف کامیابیاں سمیٹنا شروع کردی ہیں۔ مثلاً آپ دیکھیے کہ 5 اگست سے پورے کا پورا پاکستانی میڈیا اپنا اہم ترین وقت اور زیادہ تر توانائیاں ہٹلر مودی کی ہندو انتہا پسند فاشسٹ بھارتی حکومت کی ریاست دہشت گردی کا سامنا کرنے والے محصورکشمیریوں کے لیے وقف کیا ہوا تھا اور اب کہاں کا کشمیر اورکہاں کے کشمیری؟ پاکستانی میڈیا سب چھوڑ چھاڑ کر بس پنجے جھاڑ کر آزادی مارچ پہ جتا ہوا ہے۔
اب پاکستانی نیوز چینلز میں کشمیر کا ذکر چھٹے ساتویں نمبر پہ سرسری سا آتا ہے اور گزر جاتا ہے جب کہ ٹاک شوز کے اینکر اب شاذ ہی کشمیر کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ پاکستان کے ادارے اور پاکستانی شہری دنیا میں کشمیریوں کے بھائی، دوست اور ہمدرد تصور کیے جاتے ہیں۔ اب آپ ذرا بتائیے کہ جب پاکستانی میڈیا ہی کشمیریوں پہ بھارتی مظالم کے تذکرے کو آزادی مارچ کے چٹخاروں تلے دفن کردے گا تو دنیا کے میڈیا کوکیا پڑی ہے کہ وہ 132 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ بھارت کی ناراضگی مول لے کر کشمیریوں کے بارے میں بات کرے۔
اب بات آزادی مارچ کے مثبت نتائج کی ہو رہی ہے تو ذرا یاد کیجیے کہ کیسے ایک آدھ ہفتے قبل تک ہم منہ بھر بھر کر بھارتی وزیر اعظم کی سیاسی مادر علمی ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس پہ ایک دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام لگا رہے تھے کہ جو اپنے کارکنوں کو خاکی یونیفارم میں ڈنڈے تھما کر فوجی تربیت دیتی ہے، ان سے فوجی پریڈ کرواتی ہے اور آر ایس ایس کے یہ تربیت یافتہ کارکنان مذہبی بنیادوں پہ دوسرے لوگوں کے خلاف تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔
لیجیے بتائیے اب آپ کس منہ سے آر ایس ایس کے خلاف بات کریں گے جب کہ خود آپ کے ہاں ایک مذہبی مسلکی سیاسی تنظیم اپنے کارکنوں کو خاکی وردیاں پہنا کر، ہاتھوں میں ڈنڈے تھما کر فوجی پریڈ کروا رہی ہے اور یہ لوگ بھی مذہب کی بنیاد پہ اپنی مرضی سے کسی پہ بھی کوئی بھی فتویٰ لگا کر کسی بھی پرتشدد کارروائی کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ میں شان رسالتؐ بیان کرنے والے اور ناموس رسالتؐ کی عظمت بیان کرنے والے جدید دنیا کے پہلے مسلمان حکمران کو یہودی ایجنٹ قرار دے سکتے ہیں۔
پورا پاکستان ویسے بھی ڈنڈا بردار مذہبی دستوں کی کارروائیاں 21 ستمبر 2012ء کو بخوبی دیکھ چکا ہے کہ جب مغرب میں اسلام مخالف گستاخانہ فلم کے خلاف یوم عشق رسولؐ منایا گیا اور اس دن پورا ملک جیسے ڈنڈا بردار مذہبی کارکنوں کے کنٹرول میں آ گیا تھا، 23 افراد اس دن جاں بحق ہوئے اور 200 سے زائد زخمی۔ بینک، سینما گھر، پٹرول پمپ اورگاڑیاں لوٹے اور جلائے گئے۔
گاڑیوں میں سفر کرنے والی فیملیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پورے دن کی قتل وغارت گری کے اس موقع پہ مولانا فضل الرحمن نے قوم کو اسلام مخالف فلم کے خلاف ''کامیاب احتجاج'' پہ مبارکباد دی تھی۔ اس وقت ایک طرف پاکستان مختلف بین الاقوامی اداروں بشمول ایف اے ٹی ایف میں دنیا کو یقین دلا رہا ہے کہ ہم ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہیں کوئی لاقانونیت کا شکار ''بنانا ری پبلک'' نہیں، تو دوسری طرف خاکی وردیوں میں ملبوس نجی ملیشیا دستوں کے پریڈ کے مناظر پاکستان کے موقف کو جھٹلانے کے ساتھ ساتھ اس کی جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھارت میں اس امر پہ مایوسی اور تشویش کا اظہارکیا جا رہا تھا کہ پاکستان عالمی سیاحت میں انتہائی تیزی سے ابھرتا ہوا ملک بنتا جا رہا ہے اور دنیا بھر سے مشہور وی لاگرز اور عام سیاح پاکستان آکر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان عالمی سیاحت کے لیے ایک خوبصورت ، پر امن اور محفوظ ملک ہے چنانچہ سیاحت کے شعبے کی اس بڑھتی ترقی سے پاکستان کی کمزور معیشت کو ایک مضبوط سہارا حاصل ہونے جا رہا ہے۔
تاہم آزادی مارچ کے رونما ہونے سے قبل ہی پیدا ہونے والے نتائج میں سے ایک یہ نتیجہ بھی نکل رہا ہے کہ پاکستان کا عالمی سیاحت کے لیے ایک مہذب ، پرامن اور محفوظ ملک کا تیزی سے بنتا امیج اب خطرے سے دوچار ہے اور پاکستان آنے کے منتظر سیاحوں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر یقینی ملک ہے جہاں کوئی بھی مذہبی و مسلکی رہنما جب چاہے اپنے مدرسوں کے طالب علموں کی طاقت سے پورے ملک کو بلاک کرسکتا ہے چنانچہ خیریت اسی میں ہے کہ ایسے کمزور غیر یقینی غیر محفوظ ملک سے دور رہا جائے۔ اب اس امر میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آزادی مارچ کے یہ تمام نتائج بھارت کے حق میں جاتے ہیں۔
جے یو آئی ایف اگرچہ اپنے آپ کو جمعیت العلمائے ہند سے الگ پیش کرتی ہے مگر فکری طور پر یہ مودی سرکار کی وفادار اور پاکستان اور کشمیریوں کی دشمن جمعیت العلمائے ہند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اس کے قائد محترم سمیت دوسرے رہنما قائد اعظم زندہ باد کے نعرے سے اپنی زبانیں آلودہ کرنے سے شدت سے احتراز فرماتے ہیں۔
البتہ قائد اعظم کے پاکستان میں بابرکت حکومتی عہدوں سے غیر معمولی و غیر متزلزل رغبت رکھتے ہیں۔ بہرحال جے یو آئی ایف کو اور مسئلہ کشمیر پہ آزادی مارچ کو فوقیت دینے والے کروڑ پتی و ارب پتی ٹی وی ٹاک شوز کے اینکروں کو مبارک ہو کہ آزادی مارچ نے شروع ہونے سے قبل ہی موثر نتائج پیدا کرنے شروع کردیے۔ اس حرماں نصیب ملک کی قسمت سے کھیلنے کی آزادی ہم سب کو مبارک ہو۔
البتہ ملک کے ثقہ جمہوری سیاسی و میڈیائی حلقوں میں اس جمہوریت آفریں منظر سے جمہوری جوش و ولولہ ایک وبا کی مانند پھیل گیا۔ چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ اس جمہوریت انگیز ماحول سے تقویت پاکر مختلف جمہوری قوتیں محترم مولانا کی آزادی مارچ کے جمہوری عمل کا حصہ بننے کے لیے دل و جان سے آمادہ پیکار ہیں۔ ان چیدہ جمہوری طاقتوں میں ہمیں پاکستان کے کئی علاقوں کو برملا افغانستان کا حصہ قرار دینے والے اور ساتھ ہی پاکستان میں حکومتی عہدوں کی برکت سے فیض یاب ہونے والے اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کی سیاسی لسانی جماعتیں پیش پیش نظر آتی ہیں۔
ادھر مولانا فضل الرحمن سے حسد کے لاعلاج مرض میں مبتلا ان کے ناقدین بھی اب مولانا کی سیاسی و جنگی چالوں سے مرعوب نظر آتے ہیں اور یہ ماننے پہ مجبور ہیں کہ ایسے کڑے فوجی ڈسپلن میں گندھے ڈنڈا بردار دستوں کے ساتھ پورے ملک سے کروڑوں اربوں روپوں کے اخراجات کے ساتھ اسلام آباد پہ اس ولولہ انگیز یلغار کو محض ایک مارچ کا درجہ دینا حد درجے فکری زیادتی ہے یہ تو درحقیقت ایک منظم لشکر کشی ہے جو اسلام آباد تسخیرکیے بغیر نہیں رکے گی۔
آپ بہرحال اس عظیم مارچ کو جو چاہے نام دیجیے مگر آپ کو مولانا فضل الرحمن اور ان کے چنیدہ سرد و گرم حشیدہ ساتھیوں کے ناقابل بیان فہم و فراست کا قائل ہونا پڑے گا کہ کس طرح اس مجوزہ آزادی مارچ نے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی مثبت نتائج پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں۔
جی ہاں، آپ ذرا غورکیجیے کہ ابھی جہاں ٹی وی ٹاک شوز میں زبان کی بد ہضمی کا شکار کروڑ پتی، ارب پتی ٹی وی اینکر آزادی مارچ کے ہونے یا نہ ہونے پر ہی بے یقینی سے دوچار ہیں وہاں اس آزادی مارچ نے شروع ہونے سے قبل ہی مختلف کامیابیاں سمیٹنا شروع کردی ہیں۔ مثلاً آپ دیکھیے کہ 5 اگست سے پورے کا پورا پاکستانی میڈیا اپنا اہم ترین وقت اور زیادہ تر توانائیاں ہٹلر مودی کی ہندو انتہا پسند فاشسٹ بھارتی حکومت کی ریاست دہشت گردی کا سامنا کرنے والے محصورکشمیریوں کے لیے وقف کیا ہوا تھا اور اب کہاں کا کشمیر اورکہاں کے کشمیری؟ پاکستانی میڈیا سب چھوڑ چھاڑ کر بس پنجے جھاڑ کر آزادی مارچ پہ جتا ہوا ہے۔
اب پاکستانی نیوز چینلز میں کشمیر کا ذکر چھٹے ساتویں نمبر پہ سرسری سا آتا ہے اور گزر جاتا ہے جب کہ ٹاک شوز کے اینکر اب شاذ ہی کشمیر کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ پاکستان کے ادارے اور پاکستانی شہری دنیا میں کشمیریوں کے بھائی، دوست اور ہمدرد تصور کیے جاتے ہیں۔ اب آپ ذرا بتائیے کہ جب پاکستانی میڈیا ہی کشمیریوں پہ بھارتی مظالم کے تذکرے کو آزادی مارچ کے چٹخاروں تلے دفن کردے گا تو دنیا کے میڈیا کوکیا پڑی ہے کہ وہ 132 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ بھارت کی ناراضگی مول لے کر کشمیریوں کے بارے میں بات کرے۔
اب بات آزادی مارچ کے مثبت نتائج کی ہو رہی ہے تو ذرا یاد کیجیے کہ کیسے ایک آدھ ہفتے قبل تک ہم منہ بھر بھر کر بھارتی وزیر اعظم کی سیاسی مادر علمی ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس پہ ایک دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام لگا رہے تھے کہ جو اپنے کارکنوں کو خاکی یونیفارم میں ڈنڈے تھما کر فوجی تربیت دیتی ہے، ان سے فوجی پریڈ کرواتی ہے اور آر ایس ایس کے یہ تربیت یافتہ کارکنان مذہبی بنیادوں پہ دوسرے لوگوں کے خلاف تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔
لیجیے بتائیے اب آپ کس منہ سے آر ایس ایس کے خلاف بات کریں گے جب کہ خود آپ کے ہاں ایک مذہبی مسلکی سیاسی تنظیم اپنے کارکنوں کو خاکی وردیاں پہنا کر، ہاتھوں میں ڈنڈے تھما کر فوجی پریڈ کروا رہی ہے اور یہ لوگ بھی مذہب کی بنیاد پہ اپنی مرضی سے کسی پہ بھی کوئی بھی فتویٰ لگا کر کسی بھی پرتشدد کارروائی کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ میں شان رسالتؐ بیان کرنے والے اور ناموس رسالتؐ کی عظمت بیان کرنے والے جدید دنیا کے پہلے مسلمان حکمران کو یہودی ایجنٹ قرار دے سکتے ہیں۔
پورا پاکستان ویسے بھی ڈنڈا بردار مذہبی دستوں کی کارروائیاں 21 ستمبر 2012ء کو بخوبی دیکھ چکا ہے کہ جب مغرب میں اسلام مخالف گستاخانہ فلم کے خلاف یوم عشق رسولؐ منایا گیا اور اس دن پورا ملک جیسے ڈنڈا بردار مذہبی کارکنوں کے کنٹرول میں آ گیا تھا، 23 افراد اس دن جاں بحق ہوئے اور 200 سے زائد زخمی۔ بینک، سینما گھر، پٹرول پمپ اورگاڑیاں لوٹے اور جلائے گئے۔
گاڑیوں میں سفر کرنے والی فیملیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پورے دن کی قتل وغارت گری کے اس موقع پہ مولانا فضل الرحمن نے قوم کو اسلام مخالف فلم کے خلاف ''کامیاب احتجاج'' پہ مبارکباد دی تھی۔ اس وقت ایک طرف پاکستان مختلف بین الاقوامی اداروں بشمول ایف اے ٹی ایف میں دنیا کو یقین دلا رہا ہے کہ ہم ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہیں کوئی لاقانونیت کا شکار ''بنانا ری پبلک'' نہیں، تو دوسری طرف خاکی وردیوں میں ملبوس نجی ملیشیا دستوں کے پریڈ کے مناظر پاکستان کے موقف کو جھٹلانے کے ساتھ ساتھ اس کی جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھارت میں اس امر پہ مایوسی اور تشویش کا اظہارکیا جا رہا تھا کہ پاکستان عالمی سیاحت میں انتہائی تیزی سے ابھرتا ہوا ملک بنتا جا رہا ہے اور دنیا بھر سے مشہور وی لاگرز اور عام سیاح پاکستان آکر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان عالمی سیاحت کے لیے ایک خوبصورت ، پر امن اور محفوظ ملک ہے چنانچہ سیاحت کے شعبے کی اس بڑھتی ترقی سے پاکستان کی کمزور معیشت کو ایک مضبوط سہارا حاصل ہونے جا رہا ہے۔
تاہم آزادی مارچ کے رونما ہونے سے قبل ہی پیدا ہونے والے نتائج میں سے ایک یہ نتیجہ بھی نکل رہا ہے کہ پاکستان کا عالمی سیاحت کے لیے ایک مہذب ، پرامن اور محفوظ ملک کا تیزی سے بنتا امیج اب خطرے سے دوچار ہے اور پاکستان آنے کے منتظر سیاحوں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر یقینی ملک ہے جہاں کوئی بھی مذہبی و مسلکی رہنما جب چاہے اپنے مدرسوں کے طالب علموں کی طاقت سے پورے ملک کو بلاک کرسکتا ہے چنانچہ خیریت اسی میں ہے کہ ایسے کمزور غیر یقینی غیر محفوظ ملک سے دور رہا جائے۔ اب اس امر میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آزادی مارچ کے یہ تمام نتائج بھارت کے حق میں جاتے ہیں۔
جے یو آئی ایف اگرچہ اپنے آپ کو جمعیت العلمائے ہند سے الگ پیش کرتی ہے مگر فکری طور پر یہ مودی سرکار کی وفادار اور پاکستان اور کشمیریوں کی دشمن جمعیت العلمائے ہند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اس کے قائد محترم سمیت دوسرے رہنما قائد اعظم زندہ باد کے نعرے سے اپنی زبانیں آلودہ کرنے سے شدت سے احتراز فرماتے ہیں۔
البتہ قائد اعظم کے پاکستان میں بابرکت حکومتی عہدوں سے غیر معمولی و غیر متزلزل رغبت رکھتے ہیں۔ بہرحال جے یو آئی ایف کو اور مسئلہ کشمیر پہ آزادی مارچ کو فوقیت دینے والے کروڑ پتی و ارب پتی ٹی وی ٹاک شوز کے اینکروں کو مبارک ہو کہ آزادی مارچ نے شروع ہونے سے قبل ہی موثر نتائج پیدا کرنے شروع کردیے۔ اس حرماں نصیب ملک کی قسمت سے کھیلنے کی آزادی ہم سب کو مبارک ہو۔