ارباب کشف کی پیش گوئی
طالبان کے جو گروہ بن چکے ہیں ان کا الگ الگ تجزیہ ضروری ہے کیونکہ ان میں اصل طالبان پاکستان کے خلاف نہیں ہیں...
یہ چند برس پہلے کی بات ہے جب پاکستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے تھے اور بدامنی کی ابتدا تھی، ان دنوں دو بزرگوں سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی، ایک لاہور کے سید سرفراز شاہ صاحب تھے دوسرے مدینہ منورہ کے صوفی نذیر صاحب۔ میں نے پریشانی کی حالت میں دونوں بزرگوں سے ایک سوال کیا اور ان سے سوال اس لیے کیا کہ مجھے ان کی اندرونی اور قلبی دانش پر اعتماد تھا۔ دونوں صاحب کشف تھے اور میرے مہربان بھی۔ محترم سرفراز صاحب نے کہا کہ میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی داڑھی والے نوجوانوں کا ایک گروہ دیکھ رہا ہوں جو پاکستان میں اس کے قیام کے مقصد کی تکمیل کے لیے یہاں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہ بے لوث مخلص اور زندگی کا نیک مقصد رکھنے والے نوجوان ہیں۔ ان ہی دنوں مدینہ منورہ سے صوفی نذیر صاحب جو سابق ریاست بہاول پور سے تعلق رکھتے ہیں مگر زندگی بھر سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں لاہور تشریف لائے تو میں نے ان سے بھی یہی سوال پوچھا۔ انھوں نے ایک بات یہ کہی کہ میں جب کراچی اترتا ہوں تو مجھے اس شہر سے خون کی بو آتی ہے، ان دنوں کراچی میں امن تھا اور حالات معمول پر تھے۔ پھر میرے اصل سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ کچھ لوگ پاکستان کے شمالی علاقوں سے اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے پاکستان میں داخل ہوں گے۔
ان دونوں صاحب کشف صوفیوں کا جواب ایک جیسا تھا۔ ان دنوں ابھی شمالی علاقوں میں امن تھا ایسے لوگ سامنے نہیں آئے تھے اور میرے جیسے عام لوگوں کے وہم و گمان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں تھی لیکن اس پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شمالی علاقوں میں سے کچھ ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ شمالی علاقوں کے ان لوگوں کا اسلام کا مطالعہ بہت محدود اور ناقص تھا۔ انھوں نے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا وہاں جب اسلام کو نافذ کیا وہ اسلام کا نام تھا اسلام نہیں تھا۔ عورت اور مرد پر حصول علم کو فرض قرار دینے والے پیغمبرؐ کو ماننے والے یہ کیسے کر سکتے ہیں کہ عورتوں پر تعلیم کی ممانعت کر دیں۔ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند کر دیں اور ان پر علم کے راستے تنگ بلکہ بند کر دیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے سوات میں جہاں وہ قابض ہو گئے تھے وہاں جو اسلام نافذ کیا اس کی پاکستان کے علماء نے تائید نہیں کی بلکہ کئی ایک نے اسے اسلام کے لیے نقصان دہ قرار دیا لیکن پیش گوئی کے مطابق یہ لوگ اپنے مطابق اسلام نافذ کرنا چاہتے تھے۔
کون سا اور کیسا اسلام اس کا کسی پیش گوئی میں اشارہ نہیں تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانیوں کو کرنا ہے کہ وہ اس نوعیت کے اسلام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ ان لوگوں کو طالبان کا نام دیا گیا جو افغانستان میں سرگرم عمل تھے۔ آج ان طالبان کے متعدد گروہ ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کون کیا ہیں کیا چاہتے ہیں اور خود مختار ہیں یا کسی کے ایجنٹ ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے تحریک پاکستان اور مقاصد پاکستان کی اس قدر خلاف ورزیاں کی ہیں کہ ان کا ردعمل بڑا شدید ہوا۔ یہ ردعمل پورے ملک کے اسلام کا نام لینے والوں اور اسلامی نظام کا نفاذ چاہنے والوں کا تھا لیکن اس کے اظہار کا ہر ایک کا اپنا اپنا انداز تھا۔کسی نے تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا اظہار کیا اور کسی نے اسمبلیوں میں جا کر اس کے نفاذ کی کوشش کی۔ عام لوگوں نے اسلام کے نام لینے والی سیاسی جماعتوں کی تائید کی۔ بہر صورت کسی نہ کسی طرح اسلام کے نفاذ کا مشن جاری رہا اور جاری ہے۔
اصل خرابی قیام پاکستان کے بعد شروع ہوئی جب اس وقت کے مفاد پرست اور خود غرض سیاست کے حامیوں نے تحریک پاکستان کو عملاً مسترد کر دیا۔ ان کے لیے ایک ملک ہی کافی تھا جس کو وہ لوٹ سکیں اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ ہمارے سامنے اب تک جاری ہے۔ طالبان وغیرہ اس کا نتیجہ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے دینی مدرسوں میں اسلام کے فدائی تو تیار ہوتے ہیں لیکن اس نظام کے نفاذ کے لیے جس علم اور تربیت اور ذہنی وسعت کی ضرورت ہے وہ انھیں حاصل نہیں ہوتی۔ مثلاً افغانستان میں سرگرم طالبان امریکا کے خلاف تھے کیونکہ امریکا ان کے ملک پر روس کی طرح حملہ آور تھا چنانچہ جب پاکستان نے امریکی پالیسیوں کی اعانت کی اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کو قبول کر لیا تو مطالبہ ہوا کہ پاکستان امریکا سے قطع تعلق کر لے اور اس پر پاکستان کے خلاف مہم چلائی گئی جو بالآخر دہشت گردی بن گئی۔
افغانستان میں طالبان نے جو حکومت قائم کی تھی وہ مزاج اور حکومتی آداب میں خلافت راشدہ کی طرح کی تھی اور امیر المومنین ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرتے تھے اور عام آدمیوں کے ساتھ فرش پر بیٹھتے تھے لیکن انھیں نئے دور کے تقاضوں اور مطالبات کا علم نہیں تھا اور وہ انھیں قبول نہیں کرتے تھے اور اسی لیے وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ پاکستان کے خلاف طالبان کی ناراضگی کی وجہ خود ہم ہیں۔ بعد میں ہمارے دشمن بھی موقع پا کر اس مہم میں شامل ہو گئے اور اب کوئی شک نہیں کہ بھارت اس وسیع اور خونریز تباہ کاری میں شریک ہے۔ بعض طالبان کو ایک تو ان کے اپنے پہلے کے خیالات کی کمک حاصل تھی۔ دوسرے وہ پاکستان دشمنوں کے بھی آلہ کار بن گئے لیکن ایک بات واضح ہے کہ طالبان کے جو گروہ بن چکے ہیں ان کا الگ الگ تجزیہ ضروری ہے کیونکہ ان میں اصل طالبان پاکستان کے خلاف نہیں ہیں لیکن معاملہ اس قدر الجھ گیا ہے کہ اب ہماری موجودہ حکومت شاید ہی اسے حل کر سکے۔ کسی اچھے وقت کا انتظار۔ اگر یہ صوفی بزرگ مجھے مل گئے تو میں موجودہ حالات میں ان سے کچھ عرض کروں گا اور جواب سے آپ کو مطلع کروں گا۔ ان کا پہلا جواب درست ثابت ہوا۔