پاکستان۔۔۔۔۔۔ایک چراگاہ۔۔۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان جاگیرداری اور جاگیرداروں کے تحفظ کا امین تھا۔ اسی لیے آج تک یہ نظام قائم ہے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان جاگیرداری اور جاگیرداروں کے تحفظ کا امین تھا۔ اسی لیے آج تک یہ نظام قائم ہے۔ زمین داروں کی زمینوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمینداروں اور جاگیرداروں نے اب لینڈ مافیا کا روپ دھار لیا ہے۔ کچھ نے سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کر کے سیاست کی ٹوپی اوڑھ لی ہے۔ پاکستان میں یہ ٹوپی ''طلسماتی ٹوپی'' کہلاتی ہے۔ اس کی موجودگی ناممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح جاگیرداروں اور زمینداروں نے اپنا روپ بہروپ بدلا ہے اور وہ اب صنعتکار، سرمایہ دار اور یونیفارم میں نظر آنے لگے ہیں۔ اسی طرح اب پاکستان صرف اور صرف حکمرانوں، سیاسی قائدین اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے رہنماؤں اور ان کی اولاد کے لیے ایک سرسبز و شاداب چراگاہ میں تبدیل ہو گیا ہے ۔
مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور فاقہ کشی کی تمام کڑوی گولیاں صرف عوام کے مقدر کا رزق ٹھہریں، تمام عیاشیاں صرف حکمرانوں اور ان کی آل اولاد کے لیے مخصوص کر دی گئیں۔ اپنی اپنی باری پہ ہر حکمراں عوام کے لیے ہمیشہ کڑوی گولیاں ہی لے کر آتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے میں تمام عذابوں کا ذمے دار سابقہ حکومت کو ٹھہرایا تھا۔ وہ جو اپوزیشن میں تھے اور وہ جو اقتدار میں ہیں۔ ان کے علاوہ وہ بھی جو نگراں حکومتوں میں شامل رہے۔ سب کی اولاد عیش کر رہی ہیں اور ایک قابل پڑھے لکھے نوجوان کو فرسٹ کلاس کی ڈگری کی موجودگی کے باوجود کلرک کی نوکری بھی نصیب میں نہیں۔ کہیں سفارش درکار ہوتی ہے، کہیں رشوت، اور کہیں صوبائی و لسانی تعصب ان کی راہیں کھوٹی کرتا ہے۔ جو مذہبی جماعتیں قیام پاکستان کی شدت سے مخالف تھیں آج سب سے زیادہ پاکستانیت کا درد ان ہی کے پیٹ میں اٹھتا ہے۔ آج جو جماعتیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے امریکا مردہ باد کے نعرے لگاتی ہیں۔ ذرا ان کا حساب کتاب چیک کیجیے تو چشم کشا انکشافات نظر آئیں گے۔ ان ہی مذہبی جماعتوں کے اراکین، طلبہ ونگ کے لیڈر اور نعرہ باز خواتین و حضرات کے لامحدود ناموں سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔ جو امریکی ویزے پر وہاں براجمان ہیں اور آج بھی اندرون خانہ ان کی یہی کوشش ہے کہ اپنی جماعت اور یوتھ ونگ کے ممبروں کو کسی نہ کسی طرح امریکا میں داخل کر دیا جائے۔
کیا میں نے غلط کہا کہ پاکستان گزشتہ 30 برسوں سے حکمرانوں، بلڈر مافیا اور اراکین اسمبلی کے اہل خانہ اور اولاد کے لیے ایک ایسی سرسبز و شاداب چراگاہ میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں زمینیں سونا اگلتی ہیں، درختوں پہ جواہرات لگتے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں گویا یہ شداد اور حسن بن صباح کی جنت ہے جو ورثے میں انھیں ملی ہے۔۔۔!!۔۔۔ تبھی تو جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو گراف کچھ اور کہتا ہے اور جب ان کی ''باری'' ختم ہو جاتی ہے یا جبراً ان کے قدموں کے نیچے سے ریڈ کارپٹ گھسیٹ لیا جاتا ہے تو ان کی دولت کا گراف ''نقطہ انتہا'' پر پہنچ جاتا ہے۔ اسی لیے یہ تخت پہ سے اترتے ہی مہنگے ترین، محلوں اور فارم ہاؤسز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ بادشاہوں کے دوست بن جاتے ہیں اور جو ان کے پیروں سے ریڈکارپٹ کھینچتے ہیں وہ بھی مال بنانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بینک ہوں، شوگر ملیں ہوں، سی این جی اسٹیشن ہوں یا کوئی اور منافع بخش کاروبار۔۔۔ہر جگہ ان کے کارندے اور رشتے دار بھی ان چراگاہوں میں چرنے کے لیے آزاد گھومتے پھرتے کہ پاکستان کا مستقبل ان ہی چراگاہوں میں مزے لوٹنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔
چراگاہوں کا کوئی قانون نہیں ہوتا، وہاں صرف طاقت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہمارا ملک بھی وہ بدنصیب ملک ہے جہاں ہر طرف کرپشن، طاقت اور لاقانونیت کی حکمرانی ہے، جس نے تمام اداروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے مختلف تعلیمی اداروں کو صرف اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے نیشنلائز کیا تھا جو ایک بہت بڑی غلطی تھی، تعلیمی اداروں کی تباہی پہ ہم کسی دوسرے کالم میں بات کریں گے۔ فی الحال ذرا پی آئی اے اسٹیل مل اور ریلوے کی تباہی کا ذکر ہو گا۔ مختصراً یہ کہ سیاسی وابستگیوں اور سفارش کلچر نے جس طرح ان اداروں کو سفید ہاتھیوں میں بدلا ہے، اس کا صرف یہی علاج باقی رہ گیا ہے کہ انھیں فوری طور پر فروخت کر دیا جائے۔ نجکاری کے اس عمل سے نہ صرف یہ کہ حکومتی خزانے کو فائدہ ہو گا بلکہ پرائیویٹ ادارے ان نیم مردہ سفید ہاتھیوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں گے۔
دنیا بھر کے ریلوے کی مثال دینے کے بجائے اگر صرف پڑوسی ملک بھارت کی بات کی جائے تو حیرتوں کا ایک جہاں وہاں آپ کا منتظر ہے جہاں روزانہ چودہ ہزار ٹرینیں حرکت میں رہتی ہیں اور کوئی ٹرین پانچ منٹ بھی لیٹ نہیں ہوتی۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ہو جائے تو بہت پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ انڈیا میں ریلوے کا سفر انتہائی سستا ہے معمر افراد کے لیے کرایوں میں 30 تا 50 فیصد رعایت ہے۔ خواہ مقامی ہو یا غیر ملکی۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آئے ہو۔ بس سینئر سٹیزن ہو یہی کافی ہے۔ وہی لالو پرشاد جس نے ریلوے کو حکومت کے لیے ایک منافع بخش ادارہ اور عام شہریوں کے لیے بہترین اور سستی سہولت بنا دیا۔
اسے بھی چارہ اسکینڈل میں پانچ سال کی سزا سنا دی گئی۔۔۔!!۔۔۔اسے کہتے ہیں جمہوریت کی طاقت۔۔۔۔اور ادھر ہم ہیں جس کا وزیر اعظم کسی ادارے کا سربراہ مقرر کرنے کا مجاز نہیں جب تک کہ مقتدر خفیہ قوتوں کی آشیر واد شامل نہ ہو۔ رہ گئے قومی ادارے ان میں جی بھر کے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ قومی ایئرلائن میں سفارشی بنیادوں پر جو بھرتیاں ہوئیں۔ اس کی تباہی ساری دنیا پر عیاں ہیں۔ انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں۔ جنرلوں کے نااہل سپوت پائلٹ بنے زندگیوں کو جام میں ڈبو کر پی رہے ہیں۔ جہازوں کو ٹکرا رہے ہیں کریش لینڈنگ کرنی نہیں آتی اور جہاز اڑا رہے ہیں۔ جہازوں کو پرواز کی فٹنس دینے والے انجینئروں کے پاس ڈگری جعلی ہے یا اصلی۔ اس سے کسی کو سروکار نہیں۔ ریلوے کی پٹڑیاں تک بیچ کے کھا گئے۔ انگریزوں کے زمانے کی پٹڑیاں اور لائنیں وہی ہیں۔ ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ٹرانسپورٹ مافیا کی سرپرستی سے متعلقہ وزیر نے کئی پشتوں کے لیے کما لیا۔ اسٹیل مل میں جعلی، سیاسی اور سفارشی بھرتیوں نے لٹیا ڈبو دی، لیکن اعلیٰ افسران کی جیبیں کبھی خالی نہ رہیں۔ ہر طرف سے اور ہر طرح سے عام آدمی کو نوچا گیا، لوٹا گیا۔
میں سوچتی ہوں کہ نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کر کے کسی حد تک حکومت مسائل پہ قابو پا تو سکتی ہے، لیکن یہاں تو پورا ملک ہی خسارے میں چل رہا ہے۔ تو اس کا کیا علاج ہے۔۔۔؟۔۔۔کیا اسے بھی کسی کو ٹھیکے پہ دینا چاہیے۔۔۔؟۔۔۔شاید میں نے غلط کہا۔۔۔ٹھیکے پہ تو یہ ملک آج تک چل رہا ہے۔ کبھی فوجی حکمران اسے ٹھیکے پہ حاصل کر لیتے ہیں تو کبھی جمہوریت کی میٹھی گولی چوسنے والوں کو ٹھیکے پر دے دیا جاتا ہے۔ دونوں کے ٹھیکوں میں کوئی بھی فرق نہیں۔۔۔البتہ یاد رکھنے کی صرف یہ بات ہے کہ ٹھیکیدار (خواہ ٹھیکہ کسی بھی چیز کا ہو) ہمیشہ صرف اپنے منافعے پہ نظر رکھتا ہے۔ اسی لیے اس ملک میں پل بننے سے پہلے گر جاتے ہیں۔ بلڈنگیں ایک بارش کے بعد گر پڑتی ہیں۔ سڑکیں بیٹھ جاتی ہیں۔ سرکاری عمارتیں ڈھے جاتی ہیں۔ لیکن ٹھیکیدار کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقتدار کی پنج سالہ، دس سالہ اور کبھی تین سالہ ٹھیکیداری کی بدولت آج ہم اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایٹم بم کو قبلہ و کعبہ بنا کے پوجا پاٹ جاری ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن اندھیرے ہمارا مقدر ہیں۔ کیونکہ ٹھیکیداری نظام اس سرزمین پہ مونگ دل رہا ہے اور زمین رو رہی ہے۔