قربانی کی کھالوں پر تحقیق
آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیں تحقیق کا مرض بری طرح لاحق ہے اور اس کی وجہ سے ہم کئی بار بتا چکے ہیں لیکن نئے پڑھنے...
آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیں تحقیق کا مرض بری طرح لاحق ہے اور اس کی وجہ سے ہم کئی بار بتا چکے ہیں لیکن نئے پڑھنے والوں کو پھر سے بتانا پڑتا ہے، دراصل جب ہم شاعری، ڈرامہ نگاری، افسانہ نگاری حتیٰ کہ آزاد شاعری بلکہ تین پہیوں والے ہائیکو میں بھی ناکام ہو گئے تو ایک شبھ چنتک نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم محقق بن جائیں کیونکہ جس طرح ناکام گلوکار قوال بنتا ہے، ناکام سیاست دان سماجی کارکن بنتا ہے اور ناکام وکیل سٹمپ لگانے کا دھندہ کر لیتا ہے، ٹھیک اسی طرح ادب کے ہر صنف میں ناکام ہونے والے تنقید نگار یا محقق بن جاتے ہیں،
''ناکامیاں'' سمیٹ کے سارے جہاں کی
جب کچھ نہ بن سکا تو ''محقق'' بنا دیا
ہم نے اس ''کوچے'' سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کیا تو اس نے ''خضر راہ'' بن کر ہماری رہنمائی پشتو اکیڈمی کی طرف کر دی اور بتایا کہ جس طرح کوئی رباب سیکھنے کے لیے ''آدم خان'' کے مزار پر رات گزارتا ہے اور مزار کے سرہانے کھڑے پیڑ کا مضراب بناتا ہے، شاعر بننے کے لیے رحمٰن بابا کے مزار پر ایک رات چرسیوں کی صحبت میں گزارنا پڑتی ہے، ٹھیک اسی طرح محقق دانشور اسکالر اور مورخ بننے کے لیے پشتو اکیڈمی میں ایک دن گزارنا ضروری ہو جاتا ہے چنانچہ ہم بھی اس عزم کے ساتھ عازم اکیڈمی ہو گئے اور اس عمارت کے بابرکت سائے میں نہ صرف پورا دن بتایا بلکہ وہاں کے بڑے بڑے دانشوروں اسکالروں اور محققوں سے شرف ملاقات بھی حاصل کیا،
یارب اندر کنف سایہ آں سرو بلند
گرمن سوختہ بک دم نبشنیم چہ شود
وہاں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ انسان تو پھر بھی انسان ہے اگر کوئی پتھر بھی اس مبارک عمارت میں ایک دن گزار لے تو جاتے ہوئے وہ زمین کھود کر لڑھکتا ہے اور تو جن جن سے ملے وہ تو سارے ہی ڈاکٹر پروفیسر محقق اسکالر اور دانشور تھے، مثلاً ایک صاحب نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے خوشخال خان خٹک کے بارے میں تحقیق کر کے ثابت کیا ہے کہ خوشحال خان خٹک اصل خوشحال خان خٹک ہی تھے، دوسرے نے یہ تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی کہ رحمٰن بابا جس دن پیدا ہوئے، وہ دن کیا تھا اور ان کی پیدائش دن کے کس حصے میں ہوئی تھی اور پھر ان سب نے مل کر جو مجموعی تحقیق فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ پشتو اصل میں زبان ہے اور اس میں چار حروف ہوتے ہیں... خیر چھوڑے وہاں کے تقریباً سارے لوگ ہی پی ایچ ڈی یا کم از کم ایم فل تو ہوتے ہی ہیں، کنٹین سے جو لڑکا چائے لاتا ہے وہ ایم فل ہے لیکن چائے بنانے والا پی ایچ ڈی کر چکا ہے، وہ بھی چائے پر... مالی نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے کہ پودے کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اور پتے ہوا میں ہوتے ہیں۔
وہاں ایک پورا دن گزارنے کے بعد ہم جب نکلے تو خود میں ایک زبردست تبدیلی محسوس کی جس چیز پر بھی نظر ڈالتے اس کے بارے میں تحقیق کرنے کو جی چاہنے لگتا جس بس میں بیٹھے اس کے بارے میں تحقیق تو لازم تھی کیونکہ لمبا سفر تھا چنانچہ ہم نے معلوم کیا کہ اس بس کی پہلی ''رجسٹریشن'' بیربل کے نام ہوئی تھی، اب تک اس کا انجن آٹھ بار اور باڈی چودہ بار بدلی جا چکی ہے لیکن پھر بھی ماڈل اِسی سال یعنی 2010ء کا ہے، خیر تو وہ دن اور آج کا دن تحقیق کے جراثیم ہمیں ایسے چمٹے ہیں کہ کسی بھی تدبیر سے پیچھا نہیں چھوڑ رہے، ابھی کل کی بات ہے شہر میں اس سیزن کا بینر دکھائی دیا کہ قربانی کی کھالوں کا مستحق ادارہ فلاں ابن فلاں ہے لہٰذا اپنی کھالیں ادارہ ہذا کو دے کر ثواب دارین حاصل کریں، اچانک ہمیں کلِّک ہوا اور ہمارا تحقیق کا چرخہ چل پڑا، بڑا ہی نیا موضوع ہاتھ لگا تھا... قربانی کی کھالیں...؟ اس سلسلے میں علامہ بریانی عرف برڈ فلو سے رجوع کیا کہ ذرا قربانی کی کھالوں پر اپنے علم کا ٹارچ گھما دیجیے۔
علامہ ابھی جواب کو شاید دل ہی دل میں تصنیف کر رہے تھے کہ ناہنجار نابکار چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سابقہ ڈینگی بخار نے دخل درمعقولات کرتے ہوئے کہا، اس سے کیا پوچھ رہے ہو یہ تو خود قربانی کی کھالوں کا تاجر ہے اور کوئی لائق تاجر اپنے تجارتی راز کسی کو نہیں بتاتا، ناہنجار کی انگلی بلکہ ناخن شاید علامہ کے کسی مجروح مقام کو چھو گئی تھی، اس لیے اس نے سب سے پہلے تو ناہنجار سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کے رشتے بہت سارے جانوروں سے باندھ دیے، وہ تو اچھا ہوا کہ آس پاس کوئی جانور موجود نہ تھا ویسے اگر ہوتا بھی تو علامہ کی فصاحت و بلاغت کو کیا سمجھ پاتا، لیکن خود ہم نے ان جانوروں کی طرف سے ایک ہلکا سا احتجاج ریکارڈ کروایا کیونکہ بے زبانوں پر اتنے ناروا الزامات لگانا کسی طور بھی درست نہیں تھا، ناہنجار کی سات پشتوں کی تمام خواتین کے رشتوں ناطوں سے فارغ ہونے کے بعد علامہ نے ہمیں سمجھایا کہ قربانی کا سارا دارومدار کھالوں پر ہوتا ہے کیونکہ گوشت تو ہمیشہ غلط ہاتھوں سے غلط طریقے پر غلط مقامات پر پہنچ جاتا ہے لیکن اگر قربانی کی کھال بھی غلط ہاتھوں میں پڑ گئی تو قربانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
چنانچہ مسلمانوں اور خاص طور پر اپنے محلے کے مسلمانوں کو کھال کے ضیاع سے بچانے کے لیے خود ایسے انتظامات رکھے ہیں کہ قربانی کی کھالیں صحیح مقام پر پہنچ کر صحیح معنوں میں استعمال ہوں، ناہنجار جو گالیاں سن کر کافی بے مزہ ہو چکا تھا فوراً بولا کہ کھالوں پر سب سے پہلا حق بھی اسی کا بنتا ہے کیونکہ قربانی کی کھالوں کو صحیح مقام پر پہنچانے کے لیے اس کا خاندان تاریخی کردار رکھتا ہے، اس کی گزشتہ دو چار ہزار پشتیں قربانی کی کھالوں ہی کا کاروبار کرتی رہی ہیں، علامہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن ناہنجار نے موقع ہی نہیں دیا اور اپنا بیان بدستور جاری رکھتے ہوئے بولا... کہ جب صحرا میں قربانی ہونے لگی تو وہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک خیمہ لگا ہوا ہے اس پر جلی حروف میں لکھا ہے... قربانی کی کھالیں یہاں جمع کریں... اور خیمے سے جو آدمی جھانک رہا تھا وہ کوئی اور نہیں اس کا جد امجد تھا، علامہ نے کچھ بھی کہے سنے بغیر راست اقدام کیا اور اپنا نعلیں مبارک اٹھا کر ناہنجار کے منہ پر رسید کر دیا، ناہنجار نے وہ جوتا اپنے قبضے میں کیا او اس دوران میں جو دوسرا جوتا پرواز کرتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا اسے کیچ کر کے یہ جا وہ جا... ظاہر ہے کہ علامہ کو اس کے پیچھے جانا ہی تھا۔
چنانچہ ہماری تحقیق تشنۂ تکمیل رہ گئی... سوچا اب خود ہی اس تحقیقی پراجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے، ابتداء ہم نے اس سے کی کہ آخر پاکستان میں قربانی کی کھالوں کو اتنی مقبولیت کیوں حاصل ہے کہ ابھی کھال بے چارے جانوروں کے جسم پر ہی ہوتی ہے کہ یار لوگ ان کے سودے کرنے لگتے ہیں، کافی سوچ بچار کے بعد جو نتیجہ ہاتھ لگا وہ یہ تھا کہ دراصل ہم ہی کچھ زیادہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے ورنہ قربانی کی کھالوں کا کاروبار تو سارا سال چلتا رہتا ہے اور یہ دراصل سیاست کی پہلی سیڑھی ہے، قربانی کی کھالوں سے جو سلسلہ چل نکلتا ہے وہ بڑا بابرکت ہوتا ہے، آج محلے سے قربانی کی کھالیں جمع کی جاتی ہیں تو کل یہ دائرہ شہر تک بڑھ جاتا ہے اور پھر ہول سیل ڈیلر شپ کا وہ مرحلہ آ جاتا ہے جب مانگنے تانگے کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور حکومت کی چھری سے زبردستی کھالیں اتاری جانے لگتی ہیں...
دوسری طرف سلسلہ چار پیروں والے قربانی کے جانوروں سے آگے بڑھ کر دو پیروں والے کالانعام تک پہنچ جاتا ہے، عید قربان کی قربانی تو سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے لیکن دو پیروں والے کالانعام کی قربانیاں سال کے بارہ مہینے جاری رکھی جاتی ہے، تب ہماری سمجھ میں یہ بات بھی آ گئی کہ لیڈر لوگ ہر وقت قوم و ملک کے لیے ''ہر قسم'' کی قربانی دینے کے اعلان کیوں کرتے رہتے ہیں، آخر اتنی سی بات ہماری سمجھ میں آج تک کیوں نہیں آئی تھی کہ کوئی ''اپنی قربانی'' اپنے ہاتھ سے کیسے دے سکتا ہے، قربانی ہمیشہ کسی جانور کی دی جاتی ہے نہ ہی اپنی کھال اپنے ہاتھوں اتاری جا سکتی ہے، اس میں سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ چار پایوں کی قربانی بھی صرف ایک مرتبہ دی جا سکتی ہے اور ان کی کھال بھی صرف ایک مرتبہ اتاری جا سکتی ہے جب کہ دو پایوں کو جب چاہا پکڑ لیا لٹا دیا کھال اتاری اور چھوڑ دیا... دوسری کھال اگانے کے لیے۔