’’ زہر پروف‘‘ انسان

45 سالہ امریکی شہری پر انتہائی زیریلے سانپ بلیک ممباسا کا زہر بھی بے اثر ثابت ہوا۔

امریکی شہری نے انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر جاری کی ہیں جن میں وہ ’’ واٹر کوبرا‘‘ سے اپنے آپ کو ڈسواتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ فوٹو: فائل

سانپ جیسی خوف ناک مخلوق کو سامنے دیکھ کر جسم میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

اس کی کئی اقسام ایسی ہیں جو اگر ڈس لیں تو انسان چند ہی منٹوں میں موت کی وادی میں اتر جاتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ''بلیک ممباسا ''ہے۔ اس خطرناک سانپ کا زہر جسم میں سرایت کرجائے تو انسان اوسطاً 20منٹ میں ہلاک ہوجاتا ہے، مگر ان صاحب کا دعویٰ ہے کہ سانپ کا زہر ان پر اثر نہیں کرتا۔ 45 سالہ ٹِم فرائیڈے امریکی باشندہ ہے۔

ٹم نے انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر جاری کی ہیں جن میں وہ '' واٹر کوبرا'' سے اپنے آپ کو ڈسواتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ ایک تصویر میں اس کی کلائی سے خون نکلتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے، مگر اس کے چہرے پر اذیت کا کوئی تاثر نہیں۔ ٹم کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک '' بلیک ممباسا'' سے بھی خود کو ڈسوا چکا ہے۔

ٹم کا کہنا ہے کہ وہ متعدد بار لوگوں کے سامنے یہ مظاہرہ کرچکا ہے۔ سانپ کے ڈستے ہی لوگ متوقع نظروں سے میری طرف دکھاتے ہیں کہ بس اب کسی بھی لمحے میری موت واقع ہوجائے گی، مگر وہ مجھے صحیح سلامت دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔




ٹم کے مطابق وہ کئی برس تک اپنے جسم میں ہلکے زہر کے انجکشن لگاتا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے بہ تدریج اس کے جسم میں زہر کے خلاف مدافعت پیدا ہوگئی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے جسم میں وہ اینٹی باڈیز طاقت ور ہوجاتی ہیں جو زہر کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔ گھوڑوں میں زہر کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

اگرچہ ٹم کا مناعتی نظام ( امیون سسٹم) طاقت ور زہر کے اثر کو زائل کرنے کے قابل ہوچکا ہے، اس کے باوجود وہ ہلکے زہر کے ٹیکے لگانے کے سائیڈ ایفیکٹس جیسے anaphylaxis کی زد میں بھی آجاتا ہے۔anaphylaxis دراصل ایک الرجک ری ایکشن ہے جس میں جسم کے بعض حصوں میں سوجن پیدا ہوجاتی ہے اور سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انسان ہلاک بھی ہوسکتا ہے۔ سائیڈ ایفیکٹس سے محفوظ رہنے کے لیے ٹم باقاعدگی سے اپنا طبی معائنہ کرواتا ہے۔

دنیا بھر میں بلیک ممباسا کے ڈسنے سے ہونے والی اموات کی شرح 100 فی صد ہے۔ یعنی حقیقتاً اس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ ٹم کو یقین ہے کہ اس کے جسم میں زہر کے خلاف پائی جانے والی مزاحمت کی بنیاد پر زہر کی نئی ویکسین تیار کی جاسکتی ہے۔
Load Next Story