سیاست کے کھیل میں قومی کھیل شکار

ایسے وقت میں نیشنل گیمز کو ملتوی کیا جانا جبکہ تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے


احتشام بشیر October 23, 2019
آزادی مارچ کی وجہ سے نیشنل گیمز 9 نومبر تک کے لیے ملتوی کردیئے گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیشنل گیمز کی تیاریوں کے سلسلے میں قیوم اسپورٹس کمپلیکس میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ کھیلوں سے وابستہ شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ معمول کے مطابق ہاکی اسٹیڈیم پہنچے تو وہاں کچھ ساتھیوں سے ملاقات ہوئی اور اس دوران نیشنل گیمز کے ملتوی ہونے کی اڑتی اڑتی خبر ہے۔ اس خبر کی تصدیق کےلیے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی تصدیق کےلیے کچھ وقت مانگا اور تھوڑی دیر بعد انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نیشنل گیمز 9 نومبر تک کےلیے منسوخ کیے گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات کی تصدیق کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ کھیلوں سے وابستہ شخصیات اور کھلاڑیوں کےلیے یہ خبر ایک دھچکا تھا کیونکہ کھلاڑی اپنے کیمپ میں تیاریوں میں مصروف تھے اور آفیشلز گیمز کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

پاکستان میں نیشنل گیمز کا شمار قدیم ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے نیشنل گیمز کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے نیشنل گیمز کا قیام 1948 میں کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پہلے نیشنل گیمز کا افتتاح کیا تھا، جس کا انعقاد 23 سے 25 اپریل تک کراچی میں ہوا۔ جس کے بعد نیشنل گیمز کی ٹرافی کا نام قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب ہے اور جب بھی ملک میں نیشنل گیمز کا انعقاد ہوتا ہے تو جیتنے والی ٹیم کو قائداعظم ٹرافی دی جاتی ہے۔

نیشنل گیمز کا انعقاد پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا جاتا ہے اور جس شہر میں نیشنل گیمز کا انعقاد ہو وہاں کی صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن اس کی میزبانی کرتی ہے اور صوبائی حکومت مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست نے کھیلوں کو بھی جکڑ لیا ہے۔ سیاست سیاست کے کھیل میں کھیلوں پر توجہ نہ دے سکے۔ سہولیات کی کمی کھیلوں کو متاثر کرتی رہی۔ ہر آنے والی حکومت نے کھیلوں کے میدان آباد کرنے اور کھلاڑیوں کو کھیلنے کی سہولیات فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے تو کیے لیکن اس پر عمل نہ کرسکے۔

ملک میں آخری بار نیشنل گیمز کا انعقاد 2013 میں ہوا، جبکہ پشاور میں آخری بار 2010 میں نیشنل گیمز کا انعقاد ہوا۔ سات سال بعد نیشنل گیمز کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو پشاور کو ساتویں بار نیشنل گیمز کی میزبانی کا موقع ملا۔ پشاور میں پہلی بار نیشنل گیمز کا انعقاد 1958 میں ہوا تھا۔ خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کو نیشنل گیمز کی میزبانی ملی تو خیبرپختونخوا حکومت نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کو تعاون کا یقین دلایا۔ 26 اکتوبر سے 31 اکتوبر تک نیشنل گیمز کی تاریخ مقرر کی گئی اور تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ایک طویل عرصے بعد بڑے کھیلوں کے مقابلے صوبے میں ہوں گے۔

ملک میں سات سال اور صوبے میں دس سال بعد نیشنل گیمز کا انعقاد کیا جارہا ہے، لیکن اس بار بھی نیشنل گیمز تاخیر کا شکار ہونے لگے ہیں۔ نیشنل گیمز ستمبر میں کرائے جانے تھے لیکن محرم کے باعث گیمز اکتوبر میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا اور جب اکتوبر کا حتمی فیصلہ ہوا تو اب نیشنل گیمز سیاست کی نذر ہوگئے۔ ایک بار پھر کھلاڑیوں کے کھیل کو سیاست نے متاثر کردیا۔

جے یو آئی نے حکومت مخالف تحریک 27 اکتوبر سے شروع کرنے اور اسلام آباد میں دھرنا 30 اکتوبر کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سیکیورٹی ادارے اور سیکیورٹی اہلکار مولانا کے دھرنے سے نمٹنے کےلیے مصروف ہوں گے۔ اس لیے نیشنل گیمز نومبر تک کےلیے منسوخ کردیے جائیں اور اب یہ گیمز 9 نومبر سے پشاور میں ہی شروع ہوں گے۔

نیشنل گیمز ایسے وقت میں ملتوی کیے گئے ہیں جب کہ اس گیمز کےلیے تیاریاں مکمل ہیں۔ گیمز میں دس ہزار کے قریب کھلاڑی اور آفیشلز حصہ لیں گے۔ ان کےلیے رہائش سمیت تمام انتطامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ کھلاڑیوں کی آمد کا سلسلہ 24 اکتوبر سے شروع ہوگا۔ 26 اکتوبر کو افتتاحی تقریب جبکہ 25 اکتوبر کو فل ڈریس ریہرسل ہونی تھی۔ لیکن نیشنل گیمز عین وقت پر منسوخ کرکے تاریخ تبدیل کردی گئی۔

2010 میں نیشنل گیمز کا انعقاد پشاور میں ایسے وقت میں کرائے گئے جب دہشت گردی عروج پر تھی۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے دہشت گردی کی وارداتیں کی جارہی تھیں اور اس وقت اے این پی کی حکومت نے ایک چیلنج سمجھ کر نیشنل گیمز کی میزبانی کو قبول کیا۔ ایسے حالات میں نہ صرف نیشنل گیمز بلکہ بین الصوبائی گیمز بھی پشاور میں کرائے گئے۔ حکومت نے اس وقت کھیلوں کے ذریعے امن کا پیغام دیا اور ایسے حالات میں کامیاب کھیلوں کا انعقاد کیا جب دہشت گرد کوئی وار خالی جانے نہیں دیتے تھے۔ اس وقت بھی کھیلوں کے بڑے مقابلوں کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن اس وقت کی حکومت نے کھیلوں کے میدان ویران نہیں ہونے دیے۔

مولانا فضل الرحمان نے جب حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا تو اس وقت سے ہی نیشنل گیمز کے ملتوی ہونے کی باتیں گردش کرنے لگی تھیں۔ حکومت کی جانب سے نیشنل گیمز مقررہ تاریخ پر ہی کرانے کا موقف سامنے آیا لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا۔ سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں نیشنل گیمز کو اکتوبر میں منسوخ کرکے نومبر میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نیشنل گیمز نومبر تک منسوخ کرنے کے فیصلے پر کھیلوں کے حلقوں میں حیرانگی کا اظہار کیا گیا اور اس فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی۔ کھیلوں کی نتظیموں سے وابستہ شخصیات کا موقف ہے کہ یہ حکومت کی کمزوری ہے کہ نیشنل گیمز کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکی۔ سیاسی حلقوں میں حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور حکومت کے اس فیصلے نے اپوزیشن کو بھی تنقید کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ مولانا کے دھرنے سے حکومت خوف کا شکار ہوگئی ہے، اس لیے نیشنل گیمز کو ملتوی کردیا گیا۔

اس رائے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حکومت کو نیشنل گیمز کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے تھا اور ایسے وقت میں گیمز کو ملتوی کیا گیا جب تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے۔ اس اقدام سے حکومت نے اپنی کمزوری کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ نیشنل گیمز پرامن ماحول میں کرانے کی خواہش ہے، تاکہ کھلاڑیوں کو کسی بھی مشکلات کا سامنا نہ ہو اور ایک بہتر ماحول میں گیمز کا انعقاد ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں