ملتان میں پینے کا صاف پانی 72 سال بعد بھی خواب شہری بیماریوں میں مبتلا   

شہر اولیاء کے باسی ہاتھوں میں پلاسٹک کین اٹھائے صاف پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں


انیلا اشرف October 23, 2019
شہر اولیاء کے باسی ہاتھوں میں پلاسٹک کین اٹھائے صاف پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں

پانی ایک اہم ترین بنیادی ضرورت ہے جس کے بناء جینے کا تصور ہی ممکن نہیں ہے لیکن اس بنیادی ضرورت کی شہریوں کے گھروں تک فراہمی آج تک ممکن نہیں بنائی جاسکی ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کبھی حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں رہی ہے۔

ملک بھر کی طرح شہر اولیاء کے باسی بھی ہاتھوں میں پلاسٹک کین اٹھائے صاف پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں جب کہ یہ پانی تلاش کرنے سے قاصر افراد کو ملتان میں واسا کی جانب سے پینےکے لئے گھروں پر فراہم کیا جانے والا پانی جراثیم سے آلودہ ہونے کے سبب شہری معدہ، انتڑیوں اور ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا بھی نظر آتے ہیں۔ سابق دورحکومت میں پنجاب کی صاف پانی اتھارٹی اور موجودہ دور کی جانب سے قائم آب پاک اتھارٹی کی ضلع ملتان کے حوالے سے کارکردگی ابھی تک کاغذات اور اجلاسوں تک محدود ہے جس کے باعث برسوں سے ملتان کے عوام صرف پینے کے صاف پانی کی گھروں تک فراہمی کیلئے انتظار کرتے مایوس ہو کر اب مقامی پرائیویٹ کمپنی کے فی سبیل اللہ لگائے گئے پلانٹ سے دستیاب صاف پانی سے مستفید ہو رہے ہیں۔

سرکاری سطح پر لگائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کے پانی کا معیار، صفائی اور نگرانی کا مستند نظام نہیں ہونے کی وجہ سے ضلع بھر کی 70 فیصد سے زائد آبادی زہر آلود، سنکھیا، آرسینک، ٹی ڈی ایس اور بیکٹریا کے جراثیم پر مبنی پانی پینے پر مجبور ہے۔ آج 21 ویں صدی میں بھی ضلع ملتان کی آبادی پینے کے صاف پانی کے حق سے محروم چلی آ رہی ہے، اس ضمن میں واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملتان میں دستیاب پانی میں سنکھیا کی مقدار 55 پی پی بی سے بھی زیادہ ہےجبکہ عالمی ادارہ صحت پانی میں 10 پی پی بی سے زیادہ سنکھیا کی مقدار کو زندگی کے لئےخطرہ قرار دیتی ہے۔ ملتان میں 6 بڑے ڈسپوزل سٹیشن سورج میانی، نوبہار نہر، چونگی نمبر 9، پرانا شجاع آباد روڈ، کڑی جمنداں اور وہاڑی روڈ پر قائم ہیں جن کے ذریعے 54 کے قریب سکینڈری سٹیشنوں سے آلودہ پانی گذار کر دریا میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح واسا کی واٹر سپلائی لائنیں ناقص ہونے کی وجہ سے بوسیدہ ہو کر جگہ جگہ سےٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے سیوریج کا پانی ان میں شامل ہو کر گھروں تک پہنچتا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ملتان کے پانی میں جراثیم سے آلودگی کا سب سے بڑا محرک ناقص سیوریج نظام ہے جس سے آدھی سے زائد آبادی زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہے۔ واسا زرائع کے مطابق ملتان میں روزانہ ساڑھے 11 کروڑ گیلن پانی جبکہ مہینے کے پانی کی طلب 15 کروڑ 95 لاکھ گیلن ہے تاہم فراہم کردہ پانی کی مقدار 9 کروڑ 22 لاکھ گیلن سے زائد نہیں ہے۔

ملتان میں پینے کے پانی کی اوسط کمی 2 کروڑ 30 لاکھ گیلن یومیہ سے زائد ہے اور عمومی طور پر ملتان شہرمیں 250 سے 300 فٹ گہرائی تک زیر زمین پانی زہر آلود ہے جبکہ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں سے زیر زمین پانی کے لئے نمونوں میں زہریلا مواد شامل ہونا ثابت ہوا ہے جن میں گلگشت، ایم ڈی اے، وہاڑی چوک، پرانا شجاعباد روڈ، بوسن روڈ، سورج میانی، شاہ رکن عالم، حسن آباد سمیت تحصیل شجاع آباد اور جلالپور پیروالا کے اکثر رہائشی علاقے شامل ہیں اور زیر زمین پانی لوگوں کے پینے کے قابل قرار نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہری آبادی کو پینے کےلئے صاف پانی کی فراہمی کے لئے لگائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹس میں سے 120 کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے جب کہ 80 پلانٹس بند پڑے ہیں۔ اس طرح محکمہ صحت نے گذشتہ 5 سالوں میں آلودہ پانی پینے سے معدہ کی یبیماریوں کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 7 لاکھ 22 ہزار 619 بتائی ہےجن میں سے 5 سال تک کی عمر کے 3 لاکھ 28 ہزار 688 بچے بھی شامل ہیں۔

کمشنر ملتان افتخار علی سہو کے مطابق حکومت پنجاب عوام کو پینے کا صاف پانی مہیاکرنے بارے پر عزم ہے۔ ڈویژن بھر میں تمام واٹر فلٹریشن پلانٹس کو فوری فعال کرنے اور ضلعی انتظامیہ کو نجی سیکٹر سے بھی معاونت حاصل کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ اس طرح ڈویژن بھر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کی جیو میپنگ کرائی جائے گی اور پلانٹس کے فلٹر باقاعدگی سے تبدیل کیے جائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک کے مطابق واٹرپلانٹس کے سلسلے میں سیکرٹری یونین کونسلز کو فعال کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ تمام سرکاری اداروں کو انہیں فعال کر نے کے لئے ذمہ داریوں کا تعین بھی کر دیا گیا ہے کیونکہ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضلع کے 371 پلانٹس میں 325 فعال ہیں اور جلد ہی تمام واٹر فلٹریشن پلانٹس فعال کر دیئے جائیں گے۔ ایکسیئن واساعبدالسلام نے بتایا کہ واسا نے حال ہی میں 102 نئےٹیوب ویل اور 63 واٹر فلٹریشن پلا نٹس بھی لگائے ہیں۔ واسا کا کوئی فلٹریشن پلانٹ بند نہیں ہے اور پانی کی چیکنگ کا بھی مکمل نظام رائج ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں