گلوکارہ فردوسی بنگال میں پیدا ہوئیں والد معروف موسیقار تھے

گلوکارہ فردوسی بیگم کا پہلا نغمہ 1955ء میں ریڈیو ڈھاکہ سے نشر ہوا۔


Cultural Reporter October 13, 2013
فردوسی نے گلوکار نذیر بیگ کی سفارش کی جو ندیم کے نام سے سپراسٹار بن گئے۔ فوٹو: فائل

گلوکارہ فردوسی بیگم کوچ بہار(بنگال) میں 1941ء کے دوران پیدا ہوئیں، ان کے والد عباس الدین ایک معروف موسیقار تھے۔

فردوسی کو بچپن ہی میں استاد منیر حسین خان، محمد حسین خان اور مستان گاما کی شاگردی میں دیدیا گیا۔ استاد قادر ضمیری نے جو مشہور استاد ضمیر الدین خان کے بھانجے تھے ۔ فردوسی کو اردو غزل اور ٹھمری کی تربیت دی۔ بچپن تو فردوسی کا کلکتہ ہی میں گذرا لیکن تقسیم ہند کے بعد اس کے والدین ڈھاکہ منتقل ہو گئے۔ کم عمری ہی میں ریڈیو ڈھاکہ سے وابستگی اختیار کر لی تھی اور بچوں کے خصوصی موسیقی کے پروگرام پیش کرتی رہیں۔ نجی محفلوں اور خصوصی تقریبات میں بھی شائقین کو اپنی عمدہ گائیکی سے محظوظ کرتیں۔ جولائی 1955ء میں ریڈیو پاکستان ڈھاکہ سے پہلا نغمہ نشر ہوا، دیگر ارباب فن کے علاوہ بنگالی شاعر قاضی نذر الاسلام بھی وہاں موجود تھے، انھوں نے فردوسی کو بیحد سراہا اور داد تحسین سے نوازا۔

ہدایتکار کیپٹن احتشام نے موسیقی کا شعبہ نوجوان موسیقار روبن گھوش کے حوالے کیا اور انھوں نے فردوسی کی آواز میں پہلا گیت ریکارڈ کیا۔ بعدازاں فردوسی بیگم نے متعدد فلموں میں گیت گائے جن میں ''تلاش''، '' سات رنگ''، '' کاجل''، '' پریت نہ جانے ریت'' اور کچھ فلمیں شامل ہیں۔سہرا نام کی ایک فلم کے لیے وہ کراچی آئی اور یہاں اپنے نغمے کی ریکارڈنگ کیساتھ کراچی کے نئے نوجوان گلوکار نذیر بیگ کو دیکھا جس کی آواز سے وہ بیحد متاثر ہوئی اور کیپٹن احتشام سے سفارش کی کہ وہ بہترین گلوکار ثابت ہو گا اور فردوسی بیگم ہی کی سفارش پر کیپٹن احتشام نے نذیر بیگ کو ڈھاکہ بلوایا۔



قسمت کی دیوی نذیر بیگ پر مہربان ہو چکی تھی وہ گلوکار کی بجائے فلم کے لیے ہیرو منتخب کر لیے گئے، حالانکہ اداکار عظیم کا اس رول کے لیے انتخاب کیا جا چکا تھا۔ احتشام نے عظیم ہی کے وزن پر نئے ہیرو کا نام ندیم تجویز کیا اور وہ ''چکوری'' کے ذریعے فلم انڈسٹری کا درخشاں ستارہ بن گئے۔ فردوسی بیگم کی آواز میں بنگال کا مخصوص میٹھا پن اور وہاں کی لوک دھنوں کا منفرد سا ترنم تھی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ پاکستان نہ آئیں۔فردوسی بیگم نے بنگلہ دیش کے معروف انجنیئر اور بزنس مین رضی الرحمان سے شادی کر کے فردوسی رحمان ہو گئیں ان کے دو بیٹے اور چار پوتے ہیں ۔

وہ بنگلہ دیش ٹی وی سے بچوں کو میوزک کی تربیت دے رہی ہیں ۔اداکار وہدایتکار رحمان کی فلم ''ملن'' میں فردوسی بیگم کا یہ نغمہ '' کوئی دل میں آکے مسکرا گیا '' بیحد عمدہ اور دلکش تھا ۔ فلم ''نواب سراج الدولہ'' میں ''یہ عالم تجھے بھلانے سے''، ''چکوری'' میں ''کہاں ہو تجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں'' ، '' وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں'' ، فلم ''تلاش'' میں''موسم رنگیلا نشیلا ہوا'' جیسے گانے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ فردوسی بیگم کو 1965ء میں صدارتی ایوارڈ برائے تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں