کیاہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں
بدقسمتی سے پاکستان میں ترقی کے بیانیہ کو تقویت دینے کے بجائے سیاسی محاذ آرائی پر مبنی سیاست کو زیادہ طاقت ملی ہے
یہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ کیا واقعی ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ سب کا مجموعی جواب یقینی طور پر ہاں میں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ کیونکہ محض ترقی کی خواہش کرکے ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
ترقی کی بنیاد خواہش کے ساتھ ساتھ اس کے عملی اقدامات، سوچ، فکر اور منصوبہ بندی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ ہم خواہشات کی بنیاد پر جو سیاسی بت بناتے ہیں وہ عمومی طور پر ہماری ناقص سیاسی حکمت عملیوں، ذاتی مفادات اور سیاسی عدم ترجیحات کے باعث ہم کامیابی کے مقابلے میں ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں ۔ہمارا مسئلہ یہ بھی کہ مجموعی طور پر ہمیں اس بات کا کس حد تک احساس ہے کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں یا غلط سمت میں ہیں۔
ترقی کے عمل کو ہم پانچ حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی اور اخلاقی ترقی۔ ترقی کا عمل کبھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا۔ ترقی کا بڑا دارومدار اس سے جڑے تمام فریقین کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ہم معاملات کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ترقی کے تناظر میں ہونے والے مختلف ممالک میں ہونے والے مختلف طرز کے تجربات سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ حالانکہ آج کل کی حکمرانی کے نظام میں ہم دنیا میں ہونے والے مختلف تجربات سے سیکھ کر اپنی حکمت کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں اور ماضی کی غلطیاں دہرا رہے ہیں تو پھر تبدیلی کا عمل کیسے آگے بڑھے گا۔ترقی کے عمل کو ہم پانچ حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اول، ترقی کی بنیادی کنجی کسی بھی معاشرے میں ادارہ سازی کی تشکیل ہوتی ہے۔ کیونکہ فرد اور ادارے میں اداروں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے ترقی کا جو بیانیہ اختیار کیا ہوا ہے اس میں اداروں کے مقابلے میں افراد کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہ سوچ اور فکر فرد کی حکمرانی کے تناظر میں اقربا پروری اور آمرانہ مزاج پر مبنی نظام کو تقویت دینے کا سبب بنتی ہے۔
دوئم ،ہم قومی مسائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی ترجیحات کا درست انداز میں تعین بھی کرتے ہیں اور ان ترجیحات میں عام آدمی یا کمزور طبقات کی سیاست کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ سوئم، ہم وسائل کی تقسیم کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بناتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ترقی کے عمل میں کوئی بھی فریق پیچھے نہ رہے۔ چہارم، نگرانی، جوابدہی اور احتساب کے نظام کو موثر اور شفاف بناکر اپنی حکمرانی کے نظام کے معیارات کو بہتر بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔پنجم، انتظامی ڈھانچوں کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کو بنیاد بنا کر پالیسی سازی اور قانون سازی کو یقینی بناتے ہیں۔
اسی طرح مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو مضبوط بنا کر مقامی نظام حکومت کو زیادہ موثر اور فعال کرتے ہیں۔ ششم، ترقی کے عمل کو طبقاتی بنیادوں کے بجائے اس میں سب طبقات کی موثر شمولیت کو یقینی بنا کر ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو کم کرنا اور انصاف کے نظام کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ترقی کے بیانیہ کو تقویت دینے کے بجائے یہاں سیاسی محاذ آرائی پر مبنی سیاست کو زیادہ طاقت ملی ہے اور اس کا عملی طور پر نتیجہ ایک بڑے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس ترقی کے ماڈل نے امیری اور غربت میں جو بڑی خلیج پیدا کی ہے وہ واقعی ریاستی نظام کی شفافیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ جب اہل سیاست سیاسی فریقین کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو وہ مشترکہ طور پر کیسے ترقی کا بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
حالانکہ دنیا میں حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست وہ نہیں جو ہمیں اپنے ملک میں دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ جو کچھ ہم سیاست کے نام پر یہاں کر رہے ہیں وہ ترقی کی بنیاد نہیں بن سکتا بلکہ اس سے ترقی کا عمل بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ہمیں اپنے ترقی کے تناظر میں کسی بڑی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے جو ریاستی سماجی ، سیاسی اور معاشی اعداد و شمار ہیں اس کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم ترقی کے عمل میں کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کس انداز سے ہماری ترقی کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔
آج دنیا کی سیاست میں ترقی کے عمل کو ایک کڑی نگرانی کے نظام سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی بنیاد پر کارکردگی کو جانچ کر ہمارے جیسے ملکوں کی ترقی پر مبنی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ہم تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، ماحول، نکاسی آب، صاف پانی، انصاف جیسے بنیادی نوعیت کے حقوق سے جڑے عمل میں بہت زیادہ خلیج رکھتے ہیں۔ صنفی بنیادوں پر عورتوں اور بچیوں کی ترقی کی شرح بھی خوفناک حد تک کم ہے۔
ہم نے پالیسیاں، قانون سازی اور بہت کچھ تو کر لیا ہے مگر جو ریاستی نظام میں ایک مضبوط سماجی اور سیاسی کمٹمنٹ درکار ہے اس کا واضح طور پر ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام میں فقدان نظر آتا ہے۔ یہ جو معاشرے میں اقربا پروری، مفاد پرستی، ذاتی مفاد، کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور سیاسی، سماجی ، معاشی و اخلاقی قدروں کی گراوٹ ہے اس نے عملاً معاشرے کے ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم معاشرے کی تشکیل کے تناظر میں ایک بڑے کینسر جیسے مرض کا شکار ہو گئے ہیں اور اس کا علاج ڈسپرین کی گولی سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہماری سنجیدگی کے عمل کو نمایاں کرتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس معاشرے میں سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ اس معاشرے میں بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے اور ہمیں اپنی انسانی ترقی کے عمل میں افراد کو بھی اہمیت دینی ہو گی جو واقعی سماج میں بڑی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اچھے لوگ ہر جگہ اور اداروں میں موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کو ریاستی اور حکومتی نظام میں زیادہ پزیرائی نہیں دی جاتی اور یہ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو تمام شعبوں میں موجود اچھے لوگوں کے درمیان ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اب وقت آ گیا ہے جہاں ہمیں ریاستی، حکومتی نظام میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا ہے۔
کیونکہ ریاستی نظام کی شفافیت بھی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب اس ریاست میں لوگ بھی ایک ذمے دارانہ کردار کے ساتھ اپنی ذمے داری کا حق ادا کرتے ہیں۔بظاہر اس سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا ہوگا کہ ہم خود ہی اپنی ترقی کے دشمن ہیں۔ ہم دوسروں پر یا سازشی تھیوریوں کو بنیاد بنا کر غیر ملکیوں کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں، مگر اس کے برعکس جو کچھ ملک کے اندر ہے اور وہ اندرونی کردار جو خود ملک دشمنی کر رہے ہیں وہی ہی یہاں منصفانہ اور شفاف ترقی کے حقیقی دشمن ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے موجودہ طرز عمل اور اطوار کا جائزہ لینا ہو گا اور خود احتسابی کی مدد سے اپنی اصلاح کے ساتھ پہل کا آغاز کرنا چاہیے، وگرنہ ترقی کا عمل نہ تو پائدار ہو گا اور نہ ہی یہ ممکن ہو گا۔