سرکریک

پاکستان اور بھارت کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک سرکریک بھی ہے

برطانوی دور سے کَچھ اور بُھج کے حکام قبضے کے خواہاں

پاکستان اور بھارت کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک سرکریک بھی ہے لیکن اسے المیہ ہی کہیں گے کہ اس سے متعلق بہت کم لوگ تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔ ویسے تو یہ معاملہ دونوں ملکوں میں 65ء کے بعد سے چلا آرہا ہے لیکن تاریخی طور پر یہ ایک صدی پرانا مسئلہ ہے جب صوبہ سندھ اور راجھستان کی ریاست بھج کے درمیان برطانوی دور میں تصفیہ کی کوششیں کی گئی تھی۔

سرکریک کہاں واقع ہے؟ اس تنازعے کی نوعیت کیا ہے؟ اس پر بھارت کا موقف کتنا درست ہے؟ اور پاکستان اسے اپنا حصہ کیوں بتاتا ہے۔ یہ سوالات اور ان کے جوابات ہر پاکستانی کے لئے جاننا بہت ضروری ہیں کیونکہ سندھ کی ساحلی پٹی پر 17کریک یا کھاڑیاں ہیں جن میں سے ایک ''سر'' بھی ہے۔ کریک کسی کھاڑی، خلیج یا دریا کے معاون ندی، نالے اور شاخ کو بھی کہتے ہیں۔

سرکریک بھارت میں رن آف کچھ اور پاکستان میں صوبہ سندھ کے درمیان 60 میل طویل دھارا ہے جو 60ء کے عشرے میں متنازعہ علاقے کے طور پر سامنے آیا اور اس مسئلے کے حل کی کوششیں شروع ہوئیں، دونوں ملک اس دلدلی ساحلی پٹی کے معاملے پر اس لئے بھی حساس ہیں کہ یہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ایک حصّہ پاکستان کا ہے تو دوسرے پر بھارت قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور اس کی بحری تنصیبات ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ساحلی پٹی کے تمام یعنی 17کے 17 کریک اس کے ہیں جب کہ بھارت سرکریک کے نصف حصّے پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ آئے دن بھارت اور پاکستان کے ماہی گیر دونوں ملکوں کے سیکوریٹی اہل کار حراست میں لیتے ہیں تو وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سرکریک کی حدود ہی میں بتائی جاتی ہے یہاں موجود آبی حیات، معدنی ذخائر اور پھر علاقائی دفاعی اہمیت بھی سرکریک کو جغرافیائی طور پر خصوصی پوزیشن دلوا دیتی ہے۔

1964ء کے بعد سے اب تک دو طرفہ مذاکرات کے ڈھائی تین درجن دور ہوچکے ہیں لیکن ہنوز ملکیت کے تنازعے کا تصفیہ نہیں ہوسکا ہے۔ حالانکہ 1914ء میں اس وقت کی برٹش حکومت نے بمبئی صوبہ کے زیرِانتظام سندھ کمشنری اور کَچھ کے مہاراجا کے درمیان معاملہ طے کرا دیا تھا جسے 24 مئی 1914ء کو بمبئی صوبہ کی قرار داد کے ذریعے تسلیم بھی کیا گیا تھا۔ نیز مہاراجہ کَچھ اور کمشنر سندھ کے مابین حدود کے تعین کے ساتھ ساتھ دستاویزات کے تبادلے میں نقشوں کے ذریعے باہم اطمینان پایا گیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور کارگل کے بعد سرنامی کریک بھی حل طلب تنازعہ ہے بھارت جو ایک طرف کشمیر، جونا گڑھ، سیاچین ، ماناودر ، مانگرول ہتھیائے ہوئے ہے، سرکریک پر بھی اپنا حق جتلاتا ہے حالاںکہ برطانوی عہد سے یہ علاقہ سندھ کا حصّہ ہے جو اسے معاہدہ 1914ء کی رو سے تقویض ہوا تھا۔

اسی لیے بے نظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد عبداﷲ شاہ مرحوم نے جو موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے والد تھے، کہا تھا کہ ہم بھارت سے جونا گڑھ اور سرکریک کا زیرقبضہ علاقہ واپس لیں گے۔ چوںکہ یہ کھاڑی ضلع سجاول میں تحصیل جاتی اور ضلع بدین میں تعلقہ گولارچی یا شہید فاضل راہو کے سنگم پر واقع ہے، چناں چہ پاکستانی حکام اسے دریائے سندھ کا معاون ہونے کے ناتے اپنا علاقہ ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔

بھارتی حکومت ممبئی گورنمنٹ کے کمشنر سندھ اور مہاراجا کَچھ کے مابین معاہدہ کے تحت طے شدہ سرحدی حدود کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ سرحد سرکریک کے مشرق میں واقع ہے۔ اس طرح بھی پاکستان وسیع علاقے کا حقدار قرار پاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھارت یہ تنازعہ کسی عالمی فورم پر بھی محض اس لیے لیجانا نہیں چاہتا کہ اسے اپنی کم زور پوزیشن کا احساس ہے۔ حکومت بمبئی اور مہاراجا کَچھ کے مابین تصفیے کی رو سے بھی بھارت کو زیرقبضہ 250 میل کا علاقہ خالی کرنا پڑے گا۔ کَچھ کے سابق حکم راں مہاراجا کنور ہمت سنگھ نے بھی دوبارہ سروے کی مخالفت کی تھی وہ کہتے ہیں کہ معاہدہ 1914ء کی رو سے سرحد کا تعین 1924ء میں ہوگیا تھا جسے ریاست بھج اور سندھ نے 1925ء میں تسلیم کرلیا تھا۔

65ء کی جنگ کے بعد سے بھارت مزید قبضے کا خواہاں ہے۔ 89ء میں بھی دونوں ملکوں میں اس تنازعے پر مذاکرات شروع کیے تھے۔ ٹھٹھہ، بدین اور بھارتی گجرات کے ماہی گیر کہتے ہیں کہ یہ تنازعہ حل ہوجائے تو ہم مشکل سے بچ جائیں گے جو آئے روز ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخلے کے نام پر پکڑے جاتے ہیں اور مہینوں کی بندش کے بعد پکڑے جاتے ہیں۔


اس وقت بھی ٹھٹھہ، بدین اور سجاول اضلاع کے درجنوں ماہی گیر بھارت کی جیلوں میں ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جنہیں انڈین نیوی نے غیرقانونی طور پر حراست میں لے لیا تھا۔ ممبئی اور کَچھ کی حکومتوں نے حد بندی کے لیے جو ستون تعمیر کیے تھے۔ ان میں سے متعدد اب وجود نہیں رکھتے۔ ویسے بھی سمندری حدود میں 90، 95 برس کیا بچے گا؟ جو ملے گا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ بھارت طے شدہ سرحد ماننے سے کیوں انکاری ہے؟ وہ ازسرنو سروے کا مدعی کیوں ہے اور اس کی آڑ میں کیا مفادات سمیٹنا چاہتا ہے۔ 30،35 برس قبل تک پاکستانی نقشے کے ساتھ جونا گڑھ، ماناودر اور مانگرول کو بھی اپنا حصّہ بتایا جاتا تھا لیکن اب یہ قصّہ پارینہ بن چکا ہے۔

ورنہ تو بھارتی قیادت خود جانتی ہے کہ 1925ء میں پاکستانی سندھ سے بھارتی گجرات تک پھیلی سرکریک کا فیصلہ ہوچکا ہے جس میں سندھ کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور اگر کوئی عالمی ثالثی کمیٹی بنتی ہے تو پاکستانی موقف تسلیم کیا جائے گا کیوںکہ جس سرحد کو مہاراجا کَچھ نے تسلیم کیا تھا۔ اس کی رو سے بھارت کو ڈھائی سو مربع میل رقبہ سے دست کش ہونا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری قوانین نے تمام ممالک کو بحری تنازعات 2007ء تک حل کرنے کے لیے کہا تھا تاکہ 2009ء تک۔ تمام دعوے نمٹائے جاسکیں اس تنازعے کا تصفیہ اسی طرح ممکن ہے کہ بھارت اپنے موقف میں لچک لائے اور سرکریک کی آبنائے کے مرکز کو سرحد بنانے پر اصرار نہ کرے اور مشرقی ساحل والی پاکستانی تجویز کے قریب آئے ورنہ جھگڑا بدستور موجود رہے گا۔ بھارتی قیادت ہٹ دھرمی سے باز آکر برطانوی ریکارڈ میں محفوظ بمبئی و کَچھ کے ریکارڈ سے استفادہ کرے اور سابقہ معاہدے کی نقول دریافت کرکے حقائق کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے موقف سے رجوع کرے اس حوالے سے چند برس قبل بی بی سی کی ایک رپورٹ تھی کہ پاکستان اور بھارت کے حکام سرکریک میں برجیاں تعمیر کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ 1964ء سے جاری جھگڑا ختم ہوسکے۔

تقریباً بارہ برس قبل یعنی 2007ء میں بھی راولپنڈی میں مذاکراتی دور کے دوران پاکستانی وفد نے جس کی سربراہی وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکریٹری ایئرایڈمرل تنویر فیض کررہے تھے بھارتی وفد کے سربراہ سرویئر جنرل ایم گوپال راؤ سے سفارشات کا تبادلہ کیا تھا۔ حد بندی سے متعلق بھارتی موقف یہ ہے کہ باؤنڈری یعنی سرحد کھاڑی کے وسط میں ہے جب کہ پاکستان کھاڑی کے جنوب مشرقی کنارے کو سرحدی مقام بتاتا ہے۔ فریقین کو اب زمین پر اس پوائنٹ کا تعین کرنا ہے جہاں سے سمندری حدود کا تعین ہونا ہے اگر سرکریک کا تنازعہ طے ہوجائے تو سیاچین و دیگر جھگڑے بھی ختم کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے بشرطے کہ بھارتی قیادت صلح، امن اور پیار کے ساتھ رہنے کی خواہاں ہو۔

دہلی کے اخبار ملاپ نے 10جنوری 2005ء کے شمارے میں سرکریک پر دوسرے سروے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ اس کے خیال میں کَچھ کے سیاسی راہ نماؤں کا موقف ہے کہ بھارت کی دوبارہ سروے پر رضامندی ایک غلطی ہے اس وقت کے بھاجپا لیڈر پشپ وان گدھوی نے کہا تھا کہ کَچھ کے رجواڑہ اور برطانوی سندھ کے حکام 1914ء میں سروے کرکے جو 67 ستون نصب کیے تھے ان میں سے 56 ابھی موجود ہیں۔ سابق ممبر پارلیمنٹ ہمت سنگھ گڈیجہ جو کَچھ کی راج فیملی کے رکن ہیں کہا کہ سمندری علاقہ سمندری مدوجزر اور برساتی پانی کے دباؤ سے شکل بدلتا رہتا ہے۔ ممبئی ریاست کی قرار داد 1192 منظور شدہ 24 فروری 1914ء کی رو سے سمجھوتہ کے بعد اصلی نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا اور کریک میں 133 ستون نصب کیے گئے تھے جن میں سے 66خشکی اور باقی کریک کے اندر تھے۔ خشکی والے 46 ستون ہنوز موجود ہیں البتہ پانی والے موجود نہیں۔ سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جدید ترین گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی ٹیکنالوجی کے تحت سروے میں گم شدہ ستونوں کی صحیح پوزیشن معلوم ہوجائے گی۔

جنرل حمید گل نے ایک بار اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ اکثر معاہدوں اور مذاکرات میں ہم سے دھوکا ہوتا رہا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن کَچھ ، کارگل اور کشمیر ہمارے پاس بطور مثال موجود ہیں جہاں بھارت نے وعدہ خلافی کی اور اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے بھی اپنا مثبت کردار ادا نہ کرسکے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کَچھ کا رن آٹھ ہزار چار سو مربع کلو میٹر پر محیط ہے جو پاکستانی دعوے کے مطابق اس کا حصّہ تھا جب کہ بھارت 5 اپریل 1965ء میں اس علاقے پر جنگ چھیڑ دی تھی کیونکہ 62ء کی ہند چین جنگ میں شکست کے بعد جواہر لعل نہرو اپنے عوام کو مطمئن کرنا چاہ رہے تھے۔ کہتے ہیں 56ء میں بھارت نے چھاؤبیٹ پر بھی قبضہ کیا تھا۔ 65ء کی سرحدی خلاف ورزی اور لڑائی برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ ولسن کی 29 اپریل کی اپیل کے بعد یکم مئی کو بند ہوگئی۔ بعد میں ایک ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے ہندوستان کو تین ہزار پانچ سو مربع میل اور پاکستان کو صرف تین سو پچاس میل کا رقبہ دیا۔

جغرافیائی اعتبار سے سرکریک پاکستانی سندھ کا حصّہ ہے۔ بھارت دراصل اس دلدلی علاقے میں موجود تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ چاہتا ہے۔ کہتے ہیں یہ علاقہ پہلے جان گنگا کہلاتا تھا پھر ایک انگریز افسرکریک کے نام پر اسے یہ شناخت ملی۔ 1965ء میں اس علاقے پر سے بھارتی قبضے کو پاک فوج نے خالی کرالیا تھا۔ ارباب نیک محمد راوی ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں افرادی قوت اور مالی تعاون کے عوض کمشنر کراچی نے خلیج سندھ کا پانچ سو میل علاقہ عنایت کردیا تھا حالاںکہ یہ حق صرف برطانوی پارلیمنٹ کو تھا۔ بھارتی حکام نقشے میں موجود سبز لکیر کو سرحد ماننے پر تیار نہیں وہ اسے حد بندی لائن نہیں علامتی نشان تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرحد کا تعین سرکریک کے درمیان سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان عالمی اصول سامنے لاتا ہے کہ درمیانی چینل کا اصول یا قانون جہاز رانی یا کشتی رانی کے قابل آبی راستوں پر ہوتا ہے جبکہ یہ علاقہ گزرگاہ نہیں۔

1914ء کے تصفیہ، 1924ء میں سرحدوں کے تعین اور 1925ء میں اس پر مفاہمت سے یہ علاقہ پاکستانی ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں سمندری حدود پر تنازعات تھے اور سامنے آئے لیکن ان کا حل تلاش کیا گیا۔ بھارت کو چلی اور پیرو کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو بحرالکاہل کے ایک حصّے پر دعویٰ رکھتے تھے۔ پیرو کے زیر قبضہ علاقے کو چلی اپنا اٹوٹ انگ بتاتا تھا پھر یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں گیا۔ حکومت پاکستان کشمیر کی طرح جونا گڑھ اور کارگل و سرکریک پر بھی اپنا کیس موثر طریقے سے عالمی فورمز پر پیش کرے اور اس تنازعے پر بھارت کی بدعہدی اور توسیع پسندانہ پالیسی سے عالمی اداروں کو آگاہ کیا جائے۔ پاک، بھارت سرحدی حدود کا تعین ہوجائے تو سرکریک کے معدنی وسائل اور آبی حیات کی صورت میں پاکستان کو ایسا خزانہ میسر آجائے گا جو اس کی مالی مشکلات میں کمی کا سبب بھی بنے گا۔

بھارت سرکریک کو ہتھیانے کی کوشش میں ہے۔ ماضی کی بھارتی حکومتوں کے مقابلے میں مودی حکومت زیادہ جارحانہ عزائم اور توسیع پسندانہ حکمت عملی رکھتی ہے۔ خطے میں اس کی تھانے داری کی خواہش کا توڑ بہت ضروری ہے حالات کے عالمی رخ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو پوری یک سوئی کے ساتھ اتحادی ممالک اور اقوام متحدہ کی مدد سے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ تنازعات طے پا جائیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کو معدنی وسائل سے مالامال جغرافیائی اہمیت کا حامل ایسا خطۂ ارضی ملے گا جو گوادر کی طرح مستقبل میں پاکستان کے لیے مالا مال ثابت ہوگا (انشاء اﷲ)
Load Next Story