نوبیل انعامات 2019 کس کس کے سر پر سجا تاج
اپنے قیام کے ایک سو چار سالوں میں اب تک یہ انعامات ایک ہزار سے زائد شخصیات کو دیے جاچکے ہیں
اس سال کے نوبیل انعامات پانے والوں کے بارے میں دل چسپ حقائق
اس وقت دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے جات میں بہترین کارکردگی دکھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے بے شمار قسم کے انعامات متعارف کروائے جاچکے ہیں جو قابل ذکر کارکردگی کے حامل افراد کو باقاعدگی سے ہر سال دیے جاتے ہیں۔
لیکن نوبیل انعامات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ نہ صرف ان کے اعلان کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں بلکہ انہیں حاصل کرنے والی شخصیات کی ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی اور ان کی جدوجہد بارے میں بھی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ اپنے قیام کے ایک سو چار سالوں میں اب تک یہ انعامات ایک ہزار سے زائد شخصیات کو دیے جاچکے ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کو ان انعامات کے لیے سب سے زیادہ بار نامزد ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، جب کہ تین بار امن کا نوبیل انعام اس کمیٹی کے حصے میں آبھی چکا ہے۔ امریکا میں اس انعام کو حاصل کرنے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔
اس بات سے لوگوں کی اکثریت واقفیت رکھتی ہے کہ نوبیل انعامات زندگی کے وسیع شعبہ جات میں سے چھے اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں کیمیا، فزکس، ادب، امن، میڈیسن اور اکنامکس شامل ہیں۔ اس سال ان شعبوں کے جن مایہ ناز افراد کے سر پر یہ تاج سجا ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
آسٹریا کے ادیب پیٹر ہانڈ کے ( Peter Handle ) بنے ادب کے نوبیل انعام کے حق دار:
کسی بھی ملک کے لے یقیناً یہ ایک بہت بڑاعزاز ہے کہ نوبیل انعام وہاں کے کسی شہری کا مقدر بنے۔ آسٹریلیا سب سے زیادہ نوبیل انعامات حاصل کرنے والے ممالک میں سولہویںنمبر پر ہے۔ اب تک بارہ نوبیل انعامات اس سرزمین کا مقدر بن چکے ہیں۔ اس سال ادب کے شعبے کے لیے آسٹریا کے ادیب پیٹر ہانڈ کے کا انتخاب کیا گیا۔ دسمبر 1942کی ایک یخ بستہ شام میں جنم لینے والے پیٹر ہانڈ کے نے پادری بننے کا خواب آنکھوں میں سجا کر نوعمری کی منازل طر کیں، لیکن وقت کے تیز چکر اور اندر اٹھتی تخلیقی صلاحیتوں کی مشترکہ سازشوں نے انہیں ادیب بنا کے چھوڑا اور ادیب بھی ایسا جس کے ادبی کارناموں کا اعتراف ایک دنیا کرنے پہ مجبور ہوگئی۔ اسی کی دہائی میں پیٹر آسٹریلیا میں ایک مایہ ناز ادیب کے طور پر شہرت کے آسمان کا روشن ستارہ بن کر چمکے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس سال ادب کے شعبے میں دو انعامات کا اعلان کیا گیا، کیوں کہ گذشتہ سال اٹھنے والے سیکس اسکینڈل کی وجہ سے ادب کے نوبیل انعام کو روک لیا گیا تھا، لہٰذا اس سال 2018کے ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا ہے جو پولینڈ کی معروف ادیبہ اور شاعرہ اولگا توکار چسک( Olga Tokarczuk ) کے حصے میں آیاہے۔ ان کے نام کے انتخاب کو اگر ایک طرف پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آسٹرین ادیب پیٹر ہانڈکے کا 2019کے نوبیل انعام کے لیے انتخاب پوری دنیا میں وجہ تنازعہ بن چکا ہے۔ وجہ کیا ہے آئیے اس پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پیٹر ہانڈکے معروف آسٹرین ناول نگار اور ڈرامہ نگار ہیں۔ 1966میں ان کا پہلا ناول The Hornets منظر عام پر آیا اور اس کے اگلے سال The peddler شایع ہوا۔ 1968میں ان کا شایع ہونا والا ناول Kaspar یورپ میں بے انتہا سراہا گیا، جس پر پیٹر کو برلن میں انعام سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے بے شمار فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے اور بہت سے ڈراموں میں بطور معاون رائٹر کام بھی کیا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی میں شہرت کے آسمان پر ستارے کی طرح چمکنے لگے۔ پیٹر ہانڈکے کی ذات سے جُڑے اس تنازعے کی جڑیں 1996میں ان کے شایع ہونے والے ایک سفرنامے A Journey to the rivers : Justice for Serbia سے جاملتی ہیں۔
اس ناول میں سرب افواج کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا۔ اُس وقت بھی ان کے اس سفرنامے پر فوری ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے ناشروں نے اسے مزید چھاپنے اور اس کی پبلسٹی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے باوجود پیٹر نہ صرف اپنے موقف پہ قائم رہے بلکہ 2006 میں وفات پانے والے سرب صدر سلوبوڈون میلوسوک کے جنازے میں شرکت کر کے تعزیتی خطاب بھی کیا۔ یاد رہے کہ 1995میں سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل کشی کی گئی، جس میں سات ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ بین الاقوامی فوج داری عدالت نے سربوں کی طرف سے ہونے والے اس ظلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔
ماضی کے ان تمام واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسے ادیب کو نوبیل انعام سے نوازنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، جو سربوں کے اس ظلم پر ان کے ساتھ کھڑا ہو اور مسلمانوں کی نسل کشی کی مذمت کرنے کے بجائے سرے سے ایسے کسی سانحے سے ہی انکاری ہو۔ کیا اسی طرح ''ہولوکاسٹ'' سے انکار کرنے والے کسی شخص کو نوبیل انعام ملنا ممکن ہے؟
اس وقت پوری دنیا میں نوبیل انعام کے اس حق دار کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ امریکا میں کوسووو کے موجودہ سفیر نے اس فیصلے کو ایک بہت بڑا اسکینڈل قرار دیا ہے جب کہ نوبیل انعام کمیٹی کا کہنا ہے کہ پیٹر کو یہ انعام بہترین ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا ہے لیکن انسانی ہم دردی سے خالی دل کا مالک فرد ایک بہترین ادیب بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ البانیہ کے وزیرخاررجہ نے ایک ٹوئیٹ میں بھی اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شرم ناک قرار دیا ہے اور البانیہ کے وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا کہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کسی نوبیل انعام کو دیکھ کر ان کا دل متلائے گا۔ صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مصنفین اور ادبی تنظیموں کو بھی اس فیصلے پر تحفظات ہیںاور ان کے اندر سخت بے چینی پائی جارہی ہے۔
٭ کیمیا کا نوبیل انعام کروایا تین سائنس دانوں نے اپنے نام
کیمیا کا مضمون شاید طلبا کے لیے تو روکھا پھیکا ہو لیکن سائنس دانوں کے لیے ہمیشہ سے ایک دل چسپ موضوعِ تحقیق رہا ہے۔ لیتھیم آئن بیٹری کی دریافت ایک ایسا منفرد کارنامہ ہے جس کی بنا پر اس بار کا نوبیل انعام تین سائنس دانوں کا نصیب بنا ہے، جن میں امریکا کے جان بی گوڈاینوف (J.B Goodenough) ، برطانیہ کے ایم اسٹینلے ( Michel Stanley ) اور جاپانی کیمیا داں اکیر ایو شینو (Akira Yoshino ) شامل ہیں۔ اس بات سے بھلا کون واقف نہیں کہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال ہونے والی لیتھیم بیٹریاں کم وزن ، بے پناہ طاقت کی حامل اور دوبارہ چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان بیٹریوں کو روز ہم اپنے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں میں دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان کے خالق کیمیا دانوں کے نام سے واقف ہیں۔ نوبیل انعام کا حق دار بنا کر سویڈش کمیٹی نے ہمیں ان کیمیا دانوں کے نہ صرف نام اور چہروں سے روشناس کروایا ہے بلکہ ان کے کارناموں اور ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے اکسایا بھی ہے۔
کیمیا کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے کیمیا داں اٹھہتر سالہ برطانوی نژاد امریکی، مائیکل اسٹینلے ہیں۔ یہ بیک وقت برطانیہ کی Binghamton یونی ورسٹی اور امریکا کی نیویارک یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں، جس وقت ان کو نوبیل انعام دینے کا اعلان ہوا وہ جرمنی میں ایک کانفرنس میں موجود تھے، جو لیتھیم بیٹریوں کے ہی متعلق جاری تھی۔ اس اعلان کے بعد مائیکل اسٹینلے نے اس بڑی خوشی اور کام یابی کو وطن میں موجود اپنے دوستوں اور طلبا کے ساتھ ویڈیو چیٹ پر شیئر کیا۔ ٹھیک اسی وقت جرمنی کے کانفرنس روم میں بھی ان کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی ٹیبل کارڈز، پھولوں، پھلوں، ڈونٹس اور چاکلیٹس سے بھر دی گئی۔ جرمنی میں موجود ان کے طلبا اور ساتھیوں نے اس خوشی کو بڑے پیمانے پر سیلیبریٹ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہاں سے واپسی کی فلائٹ میں ایئرلائن نے بھی ان کو اسپیشل پروٹوکول دیا۔
1970 میں ایک تیل کی کمپنی میں کام کرنے کے دوران مائیکل اسٹیل نے جب اس وقت پڑنے والے تیل کے شدید بحران کا جائزہ لیا تو ان کے ذہن میں لیتھیم بیٹریوں کی تخلیق کا خیال آیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ایک بیٹری بنائی جس میں لیتھیم میٹل انوڈ اور ٹائٹینییم ڈسلفائڈ کیتھوڈ کا استعمال کیا۔ لیکن اس کی مینوفیکچرنگ پہ آنے والی بھاری لاگت اور سیکیوریٹی رسک کی وجہ سے یہ منصوبہ کمرشلائز نہ ہوسکا۔ اس منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1980 کی ابتدا میں امریکی سائنس داں گوڈ اینوف نے ری چارج ایبل بیٹری کو لیتھم ذخیرہ کرنے کے قابل تہہ دار آکسائڈز کی مدد سے تیار کرلیا۔
گوڈ اینوف نوبیل انعام حاصل کرنے والے اب تک کے سب سے معمر سائنس داں ہیں۔ ان کی عمر ستانوے برس ہے۔ 1922میں جرمنی میں جنم لینے والے گوڈ اینوف کو رواں سال مئی میں سائنس کی دنیا کے قدیم ترین ''کوپلے ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا جو انہیں لندن کی رائل سوسائٹی کی طرف سے دیا گیا تھا۔ 1952میں انہوں نے شکاگو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جس وقت انہوں نے یہ دریافت کی اس وقت وہ آکسفورڈ میں ان آرگینک کیمسٹری لیب کے سربراہ تھے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ'' یہ انعام ثابت کرتا ہے کہ انسان ستانوے برس کی عمر میں بھی جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ لیتھیم بیٹریاں ابلاغ کی پوری دنیا میں ایک بڑے معاون کے طور پر خدمت انجام دے رہی ہیں۔''
جاپانی کیمیا داں اکیرا یوشینو نے ان دونوں کیمیا دانوں کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے پانچ سال بعد پہلی کمرشل لیتھیم بیٹری تیار کرلی جس میں انہوں نے کاربن میٹیریل استعمال کیا۔ یہ بیٹری 1991میں پہلی بار مارکیٹ میں متعارف ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسانی زندگی میں ایک بڑا انقلاب رونما ہوگیا۔ بغیر تاروں اور فوسل فیول کے چلنے والی یہ بیٹریاں بے شک انسانیت کی ایک بڑی خدمت کے مترادف ہیں۔ یوشینو کا کہنا ہے کہ اس انعام کے اعلان سے صرف تیس منٹ پہلے ان کے موبائل پر کال آئی اور انہیں مبارک باد دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انعام ان کے اور پوری قوم کے لیے بے شک ایک بڑا اعزاز تو ہے لیکن وہ اپنے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری بھی محسوس کررہے ہیں۔
صرف نوبیل انعام کو ہی نہیں بلکہ اکیرا یوشینو نے بتایا کہ پوری جاپانی قوم کے لیے ایک اور خوشی کی خبر بھی ہے اور وہ یہ کہ جاپان اس بار تاریخ میں پہلی بار'' رگبی ورلڈ کپ'' کے کواٹر فائنل تک آپہنچا ہے۔ اکیرا کو یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب جاپان ایک ایسا ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا جس کی کامیابی کی کہانیاں ہر شعبے میں پرواز کریں گی۔ اکیرا یوشینو کا کہنا ہے کہ لیتھیم بیٹریوں کے ضمن میں اب بھی بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ہم حاصل نہیں کرسکے، لہٰذا میری کی خواہش ہے کہ مستقبل میں اس پر مزید کام کروں۔
یہ سچ ہے کہ تینوں کیمیا دانوں نے انسانی زندگی کی ایک بڑی خدمت سر انجام دی ہے اور ہماری دنیا کو Rechargeable World میں بدل ڈالا ہے اور تحقیق کا وہ دروازہ کھولا ہے جو کبھی بند ہونے والا نہیں۔
٭ فزکس کا نوبیل انعام کائنات کی ساخت اور اس کی نئی تفہیم کے نام
نئی دنیاؤں، کہکشاوں اور سیاروں کی دریافت صرف سائنس دانوں کا ہی نہیں بلکہ ایک عام فرد کی دل چسپی کا موضوع بھی ہے ۔ کائنات کی ساخت اور نئے سیاروں کی تلاش کا عمل نہ کبھی ختم ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ اس بار ایک اور سیارہ دریافت کرنے کا سہرا سوئزرلینڈ کے دو سائنس دانوں مائیکل مئیر( Michal Mayor )اوردیدئیر کوئلو ( Didier Queloz ) کے سر بندھا ہے۔ 1995میں ان دونوں سائنس دانوں نے ہمارے سولر سسٹم کے باہر پہلا سیارہ دریافت کیا تھا، جس کو exoplanet کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت سے آج تک چار ہزار سے زائد ایکسو پلانٹ دریافت ہو چکے ہیں۔ جدید فلکیات میں اس دریافت کو ایک بہت بڑی کام یابی سے موسوم کیا جاتا ہے۔
یہ نہ صرف ایک انقلابی دریافت تھی بلکہ اس نے کائنات کی طرف سے انسانی نظریے میں بھی انقلاب پیدا کیا۔ ہزاروں سال پہلے زمین اور سولر سسٹم کسی دنیا کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ ہزاروں سال سے انسانی ذہنوں میں کلبلانے والے اس سوال کا جواب صرف چوبیس برس پہلے ملا۔ سوئزرلینڈ کے ان دو سائنس دانوں نے 1995میں ایک ایسے سیارے کا سراغ لگایا جو کسی ستارے کی مانند سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ اس کو51 peg b کا نام دیا گیا۔ یہ دراصل گیسوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو ہماری زمین سے پچاس نوری سال کی دوری پر ہے۔ جو وزن میں جوپیٹر کے برابر تھا۔ اس دریافت نے کائنات کے متعلق بہت سی سائنسی تھیوریز کو بھی تبدیل کردیا۔ یہ کائنات کے اس مقام پہ پہلی دریافت ہے جہاں ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بناتے ہیں۔
اس سال فزکس کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے تیسرے سائنس داں جیمز پیبل (Jmaes Peebles ) ہیں، جنہیں انعام کی نصف رقم کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی سے منسلک جیمز پیبلز نے کائنات کے ارتقا سے متعلق علم میں اضافہ کیا اور اور نظامِ کائنات میں ہماری زمین کے مقام کے حوالے سے انقلابی تحقیقات کیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ بگ بینگ کے وقت کائنات میں مائیکروویو تابکاری موجود تھی۔ اس کے علاوہ کائنات میں مادہ سیاہ اور اس سے منسلک توانائی کے بارے میں بھی تحقیق کی جس سے کائنات کے متعلق سائنسی نظریات آگے بڑھانے میں بے حد مدد ملی۔
1901میں نوبیل انعامات کے اجرا کے بعد سے اب تک ایک سو تیرہ فزکس کے انعامات دیے جاچکے ہیں، جن میں سے انفرادی طور پر اسے حاصل کرنے والے سائنس دانوں کی تعداد سینتالیس ہے ، جب کہ تین بار یہ انعام خواتین سائنس دانوں کے نام بھی ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رواں سال انعام حاصل کرنے والے تینوں سائنس دانوں نے کائنات کی بنیادی ساخت اور دوردراز نئی دنیائیں دریافت کرنے کے حوالے سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور علمِ کائنات کے شعبے میں مزید تحقیق کے دروازے وا کردیے ہیں۔ فزکس کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قبل از وقت نہیں کہ اس کائنات میں جو معمے ہزاروں سالوں سے حل نہ ہوئے تھے اب ان گتھیوں کے سلجھنے کا وقت بہت قریب آپہنبچا ہے۔
٭کیلن، ریٹکلف اور سیمنزا بنے میڈیسن کے نوبیل انعام کے حق دار
خلیے آکسیجن کی دست یابی کو کیسے محسوس کرتے ہیں اور کیسے اسے اپنے موافق بناتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب حاصل کرکے انسانیت کی ایک بڑی خدمت کرنے والے ان تین سائنس دانوں میں سے دو کا تعلق امریکا اور ایک کا برطانیہ سے ہے۔ ان تینوں سائنس دانوں کو 2016 میں میڈیکل سائنس کے بہت بڑے ''لاسکر ایوارڈ''سے بھی نوازا گیا۔
2018 میں انہیں بایومیڈیکل سائنس کی قابل قدر خدمت انجام دینے پر '' میسری پرائز'' کا بھی حق دار بنایا گیا۔
یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ ڈاکٹر پیٹر ریٹکلف(Dr Peter Ratcliffe )نے اپنی اس تحقیق کو جسے اس سال نوبیل انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے، آج سے ستائیس سال قبل ایک سائنس جنرل Nature میں شایع ہونے کے لیے ارسال کیا تھا جسے چھاپنے سے انکار کردیا گیا۔ 5 اگست 1992کو اس سائنس جرنل کے ایڈیٹر Dr Rory Howlett نے ان کے ریسرچ پیپر کو مسترد کرنے کی اطلاع انہیں بذریعہ خط دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت ان کی ریسرچ اور پرپوزل کو ایک عام ذہن تو کیا دیگر سائنس داں بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ اسی وجہ سے ان کی ریسرچ کو دیوانے کی بَڑ قرار دے کر قابلِ اشاعت نہیں سمجھا گیا۔
کسی بھی نوبیل انعام یافتہ سائنٹفک ریسرچ کو ابتدا میں مسترد کردینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ 2013کے نوبیل انعام یافتہ سائنس داں پیٹر ہگس جنہوں نے Higgs Modelپیش کیا تھا، اس ریسرچ کو 1964میں ایک فزکس جنرل میں اشاعت کے لیے ارسال کیا گیا، جسے مسترد کردیا گیا اور بعدِازاں یہی تحقیق نوبیل انعام کی مستحق قرار پائی۔ اسی طرح 1977میں میڈیسن کا نوبیل انعام پانے والے Rosalyn Yallow کی ریسرچ کو جرنل آف کلینکل انویسٹیگیشن نے مسترد کردیا تھا۔ یہی اس بار کے فاتح پیٹر ریٹکلف کے ساتھ ہوا۔
میڈیسن کے شعبے میں دوسرے نوبیل انعام یافتہ سائنس داں ولیم جی کیلن ( William G Kaelin )ہارورڈ یونی ورسٹی میں میڈیسن کے پروفیسر ہیں۔Dana -Farber لیبارٹری میں ان کی تحقیق کا موضوع کینسر کی وجہ بننے والے ٹیومر تھے۔ ان کو نوبیل انعام سے نوازنے کی خبر اسٹاک ہوم میں صبح پانچ بجے ٹیلی فون کال کے ذریعے دی گئی تو وہ حیران رہ گئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خواب جیسا تھا۔
اسی شعبے میں تیسرے انعام یافتہ سائنس داں جی لیونارڈ سیمنزا ( Gregg Leonard Seminza ) کا تعلق بھی امریکا سے ہے۔ اس عظیم ریسرچ کی ابتدا انہی کے ہاتھوں نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ تینوں سائنس داں اپنے اپنے طور پر اس تحقیق میں مصروف رہتے اور وقتاً فوقتاً اس بارے میں تبادلۂ خیال کرتے اور مختلف مواقع پر ملاقات کرکے اپنا ڈیٹا شیئر کرتے۔ سیمنزا کا کہنا ہے کہ ان کی اس تحقیق کو کئی مایہ ناز ریسرچ جرنلز نے مسترد کردیا تھا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلاک بسٹر اور حیران کن دریافتیں سائنس دانوں کی سمجھ سے بھی اکثر باہر ہوتی ہیں، لیکن سائنس خود آگے بڑھتی ہے اور اپنا راستہ بناتی ہے۔ واضح رہے کہ ان تینوں سائنس دانوں کی یہ تحقیق خون کی کمی، سرطان اور خون کی دیگر خطرناک اور جان لیوا بیماریوں جیسے ہارٹ فیل اور پھیپھڑوں کی خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے راستے ہم وار کرے گی۔ میڈیسن پر ہونے والی تحقیقات سے انسانی زندگی کو تکالیف سے بچایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کے انعام کا اعلان ہر سال سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔
٭ اقتصادیات کے شعبے کا نوبیل انعام بھی تین ماہرینِ اقتصادیات کے نام
تمام شعبوں کے نوبیل انعامات کے مقابلے میں اقتصادیات کے نوبیل انعام کا اجرا 1968میں کیا گیا۔ اب تک اکیاون بار اس انعام کا اعلان ہوا اور چوراسی افراد میں اسے تقسیم کیا گیا۔لہذا اس انعام کا اعلان بھی سب سے آخر میں ہی کیا جاتا ہے۔ اس شعبے کے لیے بھی تین کی گنتی کی تکرار ہوئی اور عالمی غربت کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کرنے والے تین چہرے دنیا کے سامنے آئے جنہوں نے اپنی تجرباتی سوچ کے تحت غربت جیسی بھیانک عالمی وبا کو دورکرنے کے لیے نئے اور عملی ماڈل پیش کیے ۔ ان تین میں سے دو نوبیل انعامات ایک ہی گھر کے نام ہوئے یعنی ابھیجیت بینرجی ( Abhijt Banerjee )اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو ( Esther Duflo ) ۔ ابھیجیت بھارتی نژاد امریکی ہیں جب کہ ان کی اہلیہ فرانسسی نژاد امریکی ہیں اورور میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں ۔ اس انعام کے تیسرے حق دار مائیکل کریمر ( Michael Kremer )امریکی ماہرِ اقتصادیات ہیں۔
مائیکل کریمر کو جس خدمت کی بنا پر اس انعام کا مستحق قرار دیا گیا وہ ان کا ایک فیلڈ ورک تھا ۔انہوں نے نوے کی دہائی کے درمیانی عرصے میں ایک تجربے کے ذریعے یہ دکھایا کہ اسکول جانے کے نتائج کا مغربی کینیا پہ کیا فرق پڑا۔ اس تحقیق کے براہِ راست نتیجے کے طور پر بھارت میں پانچ ملین بچوں کو اسکولوں میں remedial tutions فراہم کی گئیں۔ جب کہ بہت سے ممالک میں صحت کے شعبے میں بھاری سبسڈیز لاگو کی گئیں۔ساتھ ہی مائیکل کریمر نے ترقی پذیر ممالک میںگلوبلائزیشن ، تعلیم ، ہیلتھ کئیر اور زراعت اور انکے معاشرے پر پڑنے والے اثرات پر بہت زیادہ تحقیقات کیں۔
انہوں نے World Teachکی بھی بنیاد رکھی ، جس کے طفیل سالانہ چھے لاکھ بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ مائیکل کریمر Deworm The World پروگرام کے ،کو فاؤنڈر بھی ہیں۔اس پروگرام کے تحت، کینیا ، ویت نام ، انڈیااور ایتھوپیا میں بہت کامیابی کے ساتھ ستائیس ملین لوگوں کو سالانہ طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پروگرام کے تحت مشرقی افریقا کے ایک ملین لوگوں کے لیے ، صاف پانی کی فراہمی کا کام بھی جاری ہے ۔اس کے علاوہ ان ممالک کے گیارہ ملین باشندوں کو نمونیے کی ویکسین بھی دی جا چکی ہے۔
اقتصادیات کے شعبے میں دوسری نوبیل انعام یافتہ خاتون پروفیسر ڈفلو نے پیرس سے تاریخ اور اقتصادیات کی ڈگری حاصل کی۔پھر 1999میں ایم آئی ٹی سے ہی اکنامکس میں پی ایچ ڈی کیا۔ڈفلو نے بے پناہ اعزازات اور ایوارڈز حاصل کیے ۔2015میں دی پرنسس آف آسٹریاز ایوارڈ فار سوشل سائنس اور دی اے ایس کے سوشل سائنس ایوارڈ حاصل کیا۔2011میں ڈیوڈ اینڈ کرشو ایوارڈ حاصل کیا۔ ڈفلونے اپنے شوہر ابھیجیت بینرجی کے ساتھ مل کر Poor Economics کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کو 2011میں بزنس بک آف دا ائیر کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی اور اسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ سترہ زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ چھیالیس سالہ ڈفلو یہ نوبل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین اور دوسری خاتون ہیں۔ انعام ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان کی اس کامیابی کے بعد اقتصادیات کے شعبے سے وابستہ دیگر خواتین کا بھی حوصلہ بڑھے گا اور ان کے ساتھی مرد ان کو برابر کی عزت دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان سے قبل اقتصادیات کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی خاتون ایلینور کا تعلق امریکا سے ہے۔
اٹھاون سالہ ابھیجیت بینرجی اس نوبیل انعام کے تیسرے حق دار ہیں ۔ کلکتہ کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کر کے یہ امریکا چلے گئے جہاں1988میں ہارورڈ یونی ورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت یہ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔ 2003میں انہوں نے عبداللطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی۔ ساتھ ہی یہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جن میں What the economy need now?( 2019)، Poor Economics ( 2011 ) اور Making Aid Work ( 2007) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور کتابیں اور کئی ڈاکیومینٹری فلمز بھی ان کے پروفائل کا حصہ ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھیجیت کے والد دیپک بینرجی پریزیڈنسی کالج میں اکنامک کے استاد اور والدہ نرملا بینرجی ماہرِاقتصادیات ہیں۔