ہنزہ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے
برساتی نالوں کے پُل فائلوں میں تعمیر ہوتے اور اگلی برسات میں تباہ ہوتے رہتے ہیں
(قسط نمبر 5)
گلگت میں پہنچنے کے پہلے روز میں نے دیگر ضروری معلومات کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ قریب ترین مسجد کہاں ہے۔بتایا گیا کہ دفتر کے سامنے گلی میں تھوڑی دور واقع ہے۔ظہر کے وقت تو مجھے نماز پڑھ کر واپس دفتر آتے وقت کسی نے کچھ نہ کہا لیکن عصر کی نماز کے بعد جب میں باہر نکلا تونمازیوں میں شامل ایک جوان صاحب ریش شخص مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔میں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی روایت کے برعکس اُسے سلام کیا۔(خیبر پختونخوا میں کسی کو غور سے دیکھنے کا مطلب مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے) تو وہ لپک کر آگے بڑھے۔ مصافحہ کیا اوربتایا کہ اُ ن کا نام اسداللہ خان ہے اور وہ قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائینسز میں پڑھاتے ہیں۔
میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مصر ہوگئے کہ میرا گھر قریب ہے گھر چلیں۔آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔میں ہچکچاتے ہوئے اُن کے ساتھ ہو لیا۔کچھ آگے اُن کے معمر والد بھی گھر کی طرف جا رہے تھے۔چلتے چلتے انہوں نے میرا تعارف کرایا۔اتنے میں گھر آگیا ۔ پورچ میں چار گاڑیاں کھڑی تھیں۔(گلگت میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے کسی گھر میں چار گا ڑیاں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی) وسیع و عریض لان کے دو تین حصے تھے۔کئی پھل دار درخت لگے ہوئے تھے۔ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ۔ ابھی ڈھنگ سے گفتگو شروع نہ ہونے پائی تھی کہ اسداللہ خان کو گھر کے اندر بلا لیا گیا اور میرے ساتھ اُن کے والد اور دو چھوٹے بھائی رہ گئے۔
تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ یہ دونوں بھائی اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں اور اسداللہ یہاں گلگت میں والدین کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اُن کے والد بظاہر بہت سنجیدہ اور لیئے دیئے سے نظر آرہے تھے لیکن جب گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔میرے پوچھنے پر اپنی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کئے۔کہ وہ پریشنگ استور کے رہنے والے ہیں۔ 1960ء کے عشر ے کے اواخر میں اقتصادیات میںکراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ایکسپورٹ پروموشن بیورو کراچی میں ملازم ہوگئے۔
اُس وقت اُن کی تنخواہ چار ہزار روپے ماہانہ تھی۔(یہ اُن کا اپنا بیان ہے )دن کو دفتر کی مصروفیات سے نمٹنے کے بعد شام کے وقت کے بہتر استعمال کے لئے انہوں نے سندھ مسلم لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔دو برس مکمل ہوئے تو وہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے۔اتنے میں شمالی علاقہ جات(اُس وقت گلگت بلتستان کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا)کی ضلعی انتظامیہ میں کچھ اسامیاں خالی ہوئیں۔اور اخبار میں ان کا اشتہار آیا۔ضلع استور سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے کے لئے درخواست بھیج دی۔اُس وقت گلگت میں انتظامیہ کے سربراہ کمشنر نصرمن اللہ تھے۔
جو بعد میں صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری بھی رہے۔عطی اللہ خان نے تحریری امتحان اور بعد میں ہونے والے انٹرویو میں جو کارکردگی دکھائی۔اس پر انٹرویو لینے والی کمیٹی کے سربراہ نصر من اللہ نے انہیں کہا۔ کہ وہ کراچی چھوڑ کر یہاں آئیں اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کا عہدہ سنبھالیں۔عطی اللہ خان نے جواب میں اس عہدے کی تنخواہ پوچھی تو بتایا گیا کہ الاونسز ملا کر کوئی آٹھ سو روپے ملا کریں گے۔عطی اللہ خان نے جواب دیا کہ میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہے کہ چار ہزار روپے والی ملازمت چھوڑکر آٹھ سو روپلی پر آجاؤں۔اس پر نصرمن اللہ نے انہیں سمجھایا کہ وہ اس کم تنخواہ پر دل برداشتہ نہ ہوں۔انہیں بہت جلد ترقی کے مواقع ملیں گے اور وہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر جیسے عہدوں پر بھی کام کر سکیں گے۔
بہرحال نصر من اللہ کے سمجھانے پرعطی اللہ خان کراچی گئے وہاں ملازمت سے مستعفی ہوئے اپنا سامان اٹھایا اور گلگت کی راہ لی۔ بعد میں ترقی پانے پر انہوں نے شمالی علاقہ جات کے تمام اضلاع کے علاوہ جہلم اور اٹک میں بھی ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر کام کیا۔بچوں کو کوہاٹ اور حسن ابدال کے کیڈٹ کالجوں میں پڑھایا۔پھر گلگت بلتستان میں صوبائی سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
انہیں اپنے کیریئرکی ابتداء میں چار ہزار روپے ماہوار کی ملازمت چھوڑ کر آٹھ سو روپے ماہوار والی ملازمت پر آنے کے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہ تھی۔وہ بہت مطمئن اور آسودہ تھے۔دسمبر 2014ء میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی حکومت کی مدت ختم ہوئی۔اور گلگت بلتستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت تشکیل دی گئی تو عطی اللہ خان کو کابینہ میں پانی و بجلی کی وزارت دی گئی۔وزارت نے اُن کے معمولات پر کوئی اثر نہ ڈالا۔وہ پہلے کی طرح پانچوں نمازوں کے لئے آذان دیتے اور اقامت کہتے رہے۔یہ عطی اللہ خان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کے(جو ۷۲ اپریل۶۱۰۲ء کو راولپنڈی کے ایک نجی ہسپتال میں ۵۸ برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے اور جن کی میت کو۸۲ اپریل ۶۱۰۲ء کو گلگت لا کر سپرد خاک کیا گیا)چھوٹے بھائی ہیں۔
تیرہ فروری کی ہڑتال اور چودہ فروری کے احتجاج کے باوجود بجلی کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی۔اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پہلے کی طرح جاری رہی۔سولہ فروری کے اخبارات میں خبر چھپی کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں بجلی کی غیر معمولی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور خراب بجلی گھروں کی مرمت کے لئے چودہ کروڑ روپے جاری کئے ہیں۔یہ رقم بھی حسب معمول بیوروکریسی اور ٹھکیداروں کے درمیان تقسیم ہوجائے گی اور بجلی گھروں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکے گا۔(ہوا بھی ایسا ہی ہے۔یہ سطور لکھے جانے تک کارگاہ کے بجلی گھر اسی طرح سے خراب تھے جیسے وہ ایک برس پہلے تھے)گلگت بلتستان، چترال، سوات، تور غراورکوہستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے وفاقی حکومت ہر سال اربوں روپے مہیا کرتی ہے۔
اور متعلقہ صوبائی حکومتیں منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہار دیتی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ جون کے مہینے میں پیش ہوتے ہیں اوران کی منظوری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم مختص ہونے کاکام ستمبر اکتوبر تک پھیل جاتا ہے۔جب یہ رقم ان صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی کے حوالے ہوتی ہے۔تو اس کے بعداخبارات کے ذریعے ٹینڈرطلب کئے جاتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں مزید دو ماہ لگ جاتے ہیں۔یوں جب نومبر میں ٹھیکیداروں کو ٹینڈر ز کی منظوری ملتی ہے تو سرد موسم کی شدت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ کچھ علاقوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔
کوئی ٹھیکیدار ایسے موسم میں اپنے کام ڈھنگ سے شروع نہیں کر پاتا۔ موسم کی شدت کی وجہ سے کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ جب اگلے برس اپریل میں موسم بہتر ہوتا ہے تو اُس وقت تک بمشکل بیس فیصد کام ہوا ہو تا ہے۔یہی مالی سال کی آخری سہ ماہی ہو تی ہے۔جب بیوروکریسی کی طرف سے ٹھیکیداروں پر دباؤ پڑتا ہے کہ کام مکمل کیا جائے۔سال بھر کے کام دو ماہ میں جس انداز میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ کسی سے ـڈھکی چھپی بات نہیں۔ مالی سال ختم پیسہ ہضم ٹھیکیداراور بیوروکریسی دونوں کے وارے نیارے، بیچارے عوام کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی،گلیوں کی پختگی، بجلی کی فراہمی،ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت، سکولوں،کالجوں کی تعمیر مرمت،چشموں اور نالوں سے پانی لانے والے کوہلوں کی تعمیر اور بحالی جیسے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایک اور برس انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
بلوچستان میں صورت حال اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور پھر کوئٹہ جانے والی سڑک کہنے کو پختہ شاہراہ ہے۔لیکن جن لوگوں کو اس سڑک پر سفر کرنے کا موقعہ ملا ہو وہ بخوبی بتا سکیں گے کہ اس راستے کو سڑک یا شاہراہ کا نام دینا کتنی بڑی ستم ظریفی ہے۔ جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے روا رکھی ہوئی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کا درمیانی فاصلہ 230کلو میٹر ہے۔ جسے طے کرنے میں کار پر دس گھنٹے اور فلائنگ کوچ میں بارہ سے چودہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اس سڑک کی حالت بہت بہتر ہے۔
ندی نالوں پر پل بھی بنے ہوئے ہیں۔جونہی یہ سڑک کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے تنگ درے سے ہوتی ہوئی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ دونوں صوبوں کی حد فاصل ایک برساتی نالہ ہے۔جس پر ایک عارضی پل بنا ہو اہے۔اس سے آگے ژوب تک ڈیڑھ سو کلو میٹر کے علاقے میں کم و بیش دس برساتی نالے سڑک کی راہ میں آتے ہیں۔جن میں سے ایک آدھ پر پل بنا ہوا ہے باقی تمام کے تمام خشک برساتی نالے پل کے بغیر سنگلاخ پتھروں پر اچھلتے کودتے پار کرنا پڑتے ہیں۔ اگر بارش ہوجائے تو پھر مسافروں کو برساتی نالوں کے کنارے ٹھہر کر پانی کا زور ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کیونکہ کوئی بھی فلائنگ کوچ یا کار والا تیز برساتی ریلے میں اپنی گاڑی ڈال کر اس سے اور اپنی جان سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کرتا۔یہ انتظار ایک دو گھنٹوں سے لے کر پوری رات یا دن پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ ان تمام برساتی نالوں پر بیوروکریسی کے کاغذات کی رو سے درجنوں بار پل تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ یہ پل کاغذات ہی میں ہر سال برساتی پانی کی بھی نذر ہوجاتے ہیں۔اور حکومت ہر سال ان پلوں کی تعمیر کے لئے کروڑوں روپے مختص کر تی ہے۔یہ سارا پیسہ سڑک کے اردگرد آباد وڈیروں، ٹھیکیداروں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان ہو،کوہاٹ ہو یا چترال، ژوب ہویا کوئٹہ، لیہ ہو یا مظفر گڑھ۔ان علاقوں کا جغرافیہ تو خالق کائنات نے ترتیب دیا ہے لیکن یہاں کی پسماندگی ،غربت،مشکلات اور عوام کی بے بسی کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت، منتخب نمائندوں، مقامی بیوروکریسی اور ٹھیکیداروں پر عائد ہوتی ہے۔
جو ایک دوسرے کی ملی بھگت سے ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ ہڑپ کرکے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کو انتخابات میں کامیاب کراتے اور پھر اپنی بد عنوانیوں کے لئے انہیں ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔بدعنوانیوں کی یہ داستان بہت طویل ہے۔اس لئے ہم واپس گلگت کی طرف آتے ہیں۔جو اس علاقے کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔4208مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ضلع گلگت پورے علاقے میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔جلال آباد سے لے کر بسین تک بارہ کلو میٹر کی لمبائی اور دو سے تین کلو میٹر کی چوڑائی میں پھیلے ہوئے کم وبیش ایک لاکھ آبادی کے اس شہر کا محل و وقوع ایسا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع تور غر، کوہستان سے لے کرپورے گلگت بلتستان کے لوگوں کا رخ گلگت کی طرف ہے۔
سردیوں میں شدید سردی سے ٹھٹھرنے اور گرمیوں میں شدید گرمی سے جھلسنے کے باوجود چلاس، تانگیر، داریل، استور، منی مرگ، غذر، یاسین، پھنڈر، نگر، ہنزہ، گوجال،سکردو، شگر، کھرمنگ، گانچھے،کوہستان اور تورغر کے لوگ نقل مکانی کے لئے گلگت کو ترجیح دیتے ہیں۔2015-16ء کے دورانمیں دیامر۔بھاشا ڈیم کے متاثرین میں ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ تقسیم کیا گیاتھا۔وفاقی حکومت نے کم و بیش چالیس ارب روپے ضلع دیامیر کے باشندوں میں تقسیم کئے۔معاوضہ وصول کرنے والوں کی اکثریت نے کبھی دس بیس ہزار روپے سے زائد رقم اکٹھی نہیں دیکھی تھی۔چنانچہ کئی لطیفے بھی سرزد ہوئے۔
گلگت چھاؤنی میں جوٹیال کے علاقے میں ایف سی این اے چوک میں ایک بھارتی ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔(جو اُس وقت تک بغیر کسی جنگلے یا حفاظتی دیوار کے سیمنٹ کے بنے ہوئے ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا۔) ایک دن ایک بوڑھا شخص جس نے اپنی بنجر پہاڑی زمین کا معاوضہ لاکھوں روپے میں وصول کیا تھا۔اس چوک میں پیدل جاتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے قریب رکااور اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ایک گلگتی ستم ظریف نے اُس بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔بوڑھے نے جواب دیا کہ یہ جہاز دیکھ رہا ہوں۔گلگتی نے کہا کہ یہ میر ا جہاز ہے۔تم خریدنا چاہتے ہو۔بابے نے کہا کہ کیوں نہیں۔اُس شخص نے کہا کہ مجھے چھ لاکھ روپے دے دو اور یہ جہاز تمہارا ۔ بوڑھے شخص نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔
ڈب سے رقم نکالی اور گن کر چھ لاکھ روپے اُس نوسرباز کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔نوسرباز نے بابے سے کہا کہ آپ کل آکر اپنا جہاز لے جائیں۔بوڑھا خوش ہو کر وہاں سے چلاآیا۔دوسرے دن علی الصبح بابا اپنا جہاز وصول کر نے ایف سی این اے چوک پہنچا۔اور جہاز پر اپنا کپڑا مارنے لگا تاکہ اُس پر پڑی ہوئی گرد صاف کر لے۔اتنے میں چوک میں تعینات فوجی جوان بوڑھے کے پاس آئے اور پوچھا کہ بابا جی آپ کیا کر رہے ہیں۔بابے نے بتا یا کہ وہ یہ جہاز خرید چکا ہے۔اور اسے لینے آیا ہے۔فوجی جوانوںکو بابے کی دماغی صحت پر شک ہوا ۔لیکن بابا جس قدر یقین سے بات کررہا تھا۔وہ سمجھ گئے کہ کوئی بندہ بابے کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔
پھر انہوں نے بوڑھے شخص کو بتا یا کہ یہ جہاز بہت پرانا ہے۔یہ سٹارٹ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ قابل فروخت ہے۔تب جا کر اُس بوڑھے شخص کو سمجھ آئی کہ اُ س کے ساتھ کیا ہوا ہے۔اُس نے پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔نوسرباز صاحب نے اپنا صحیح نام پتہ نشان نہیں بتا یا تھا۔ لیکن ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ لینے والے سارے لوگ اس بوڑھے کی طرح نہیں تھے۔اکثریت نے جوٹیال، سکوار، گلگت چھاؤنی،غذر روڈ،شاہراہ قراقرم اور مضافات میں تجارتی اور رہائشی زمینیں خریدیں اوربڑی بڑی مارکیٹس اور پلازے تعمیر کرنا شروع کردیئے۔خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے گلگت میں زمینوں کی قیمتیں راتوں رات آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
گلگت بلتستان کی وادیوں میں ہنزہ کو اللہ رب العزت نے بہت دل کشی عطا کی ہے۔ضلع ہنزہ کا صدرمقام علی آباد ہے۔جو گلگت سے 112کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اگر کہیں رُکنا نہ ہو تو گلگت سے دو گھنٹوں میں علی آباد پہنچا جا سکتا ہے۔یہ سفر عمدہ سڑک ،دلفریب نظاروں اور پہاڑی ڈھلانوں پرخوبانی،چیری اور سیب کے درختوں سے گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات کی وجہ سے بہت پُر لطف رہا۔
راستے میں ضلع نگر میں چھلت ،چھپروٹ اور نلت وادیوں کے دامن میں سڑک کے کنارے ایک جگہ بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ یہاں زمین اور پہاڑوں کی مختلف تہیں آپس میں ملتی ہیں۔ چھلت کے بعد وادی ایک دم سے کُھل جاتی ہے۔دریا،سڑک اور دو پہاڑوں کے درمیان تنگ درہ ایک وسیع وعریض وادی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دریا ہنزہ میں شامل ہونے والے کوہستانی نالوں کے ساتھ اوپر کی طرف وادیاں اور وسیع چراہ گاہیں ہیں۔ جن کی طرف جانے والے راستے دریا پر رسوں سے بندھے ہوئے پُلوں کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے منسلک ہیں۔ سڑک غیر محسوس انداز میں دھیرے دھیرے اوپر کی جانب بڑھتی ہے۔پیچھے مڑ کر دیکھنے پر راکاپوشی ہر موڑ کے بعد اپنی نئی چھب دکھا تی اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے۔
اس آنکھ مچولی کے ساتھ آگے بڑھیں توسکندر آباد، جعفر آباد،تھول،غلمت سے گذرتے ہوئے حسن آباد کا گاؤں آجاتا ہے۔یہ ہنزہ کے صدر مقام علی آباد کے مضافات میں سے ہے۔علی آباد، حسن آباد ،کریم آباد اور سمائر ایک دوسرے کے سامنے آباد ہیں۔یہ وادی بلاشبہ گلگت بلتستان کی حسین ترین وادیوں میں سر فہرست ہے۔کریم آباد میر آف ہنزہ کے آبائی محل، التت قلعہ اور درجنوں ہوٹلوں کی وجہ سے معروف سیاحتی مقام ہے۔مارچ کے اس آخری ہفتے میں کریم آباد بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہو اتھا۔ میں نے علی آباد میں پاکستان ٹورزم ڈیلوپمنٹ کارپوریشن کے موٹل پرگاڑی رکوائی جو سڑک کے کنارے بہت ہی اچھی لوکیشن پر بنا ہوا ہے۔
موٹل کا دروازہ کھلا تھا لیکن اندر سب کچھ سردیوں کی وجہ سے بند تھا۔ ڈھلوان پر بہت ہی خوبصورتی سے تعمیر شدہ کمرے ،اُن کے آگے بنے ہوئے دریچے،دریچوں کی محرابیں یہ سب کچھ انسان کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میںپی ٹی ڈی سی کے جتنے بھی نئے موٹلز بنے ہیں۔
اُن سب کا نقشہ کسی بہت ہی اچھے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا ہے اور یہ ایک ہی ڈیزائن پر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں راما جنگل استور، خپلو، گوپس،پھنڈر،ہنزہ علی آباداورست پارہ کے موٹلز شامل ہیں۔ سکردو اور گلگت میں عرصہ دراز سے موجود پی ٹی ڈی سی کے موٹلز الگ الگ ڈیزائن میں ہیں۔ ۹۰۰۲ء میں صوبہ کا درجہ دیئے جانے کے بعد جن اضلاع کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا ابھی اُن کے انتظامی دفاتر کی عمارتیں مکمل نہیں ہو پائی تھیں کہ ۵۱۰۲ء میں وزیراعظم نوازشریف نے نگر،شگر اور کھرمنگ کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کردیا۔ ہنزہ کو ۹۰۰۲ء میں ضلع بنایا گیا۔ چھ برس گذرنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کے دفاتر نہیں بن پائے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہنزہ کا دفتر پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں کام کر رہا ہے۔ علی آباد سے آگے جائیں توکریم آباد کی طر ف جاتے ہوئے گینش گاؤں آتا ہے۔یہ قدیم آثار سے مالامال گاؤں ہے۔یہاں ہندو اور بدھ دور کے کئی آثار موجود ہیں جو کم و بیش ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار برس پرانے ہیں۔
یہاں شاہراہ قراقرم اس طرح سے بل کھاتی گذرتی ہے کہ علی آباد سے اس کا نظارہ آنکھوں میں بس جاتا ہے۔علی آباد سے آدھ پونے گھنٹے کی مسافت پر عطا آباد جھیل واقع ہے جوحادثاتی طور پر۴ جنوری ۰۱۰۲ء کو ایک پہاڑ کے یکایک دریائے ہنزہ میں گرنے سے وجود میں آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ اس پہاڑ کے گرنے سے پہلے عطا آباد گاؤں والوں کو حکومت کی طر ف سے مطلع کیا جا چکا تھا کہ پہاڑ کا ایک حصہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے کسی بھی وقت گر سکتا ہے ،اس لئے گاؤں کی زیادہ تر آبادی محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکی تھی۔لیکن کچھ افراد ایسے تھے جو اپنے گھروں میں موجود تھے۔
دن بارہ سوا بارہ بجے جب پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرا تو اس کا ملبہ دو کلومیٹر کے علاقے میں پھیل گیا۔ عطا آباد گاؤں کے تمام گھر،ڈھلوانوں پر بنے کھیت اور باغات سب دریا بُرد ہوگئے۔ ملبے کی زد میں عطا آباد کے علاوہ اس کے نیچے ڈھلان پر موجود آئین آباد گاؤں کی آبادی بھی آئی ۔ مرنے والوں کی کل تعداد انیس تھی۔ جن لوگوں کے گھر بار مال مویشی اورجائیداد تباہ ہوئی اُنہیں فی گھرانہ چھ لاکھ روپے حکومت کی طر ف سے معاوضہ دیا گیا۔دریا کی گذرگاہ بند ہوجانے کی وجہ سے دریائے ہنزہ جھیل کی صورت اختیار کرتا گیا۔اور چار ماہ میں عطا آباد جھیل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط ہو کر وجود میں آگئی۔عطا آباد سے ششکت تک کم و بیش اکیس کلو میٹر کا علاقہ جھیل بن گیا۔
اور اتنے ہی فاصلے پر نو تعمیر شدہ شاہراہ قراقرم بھی جھیل کی نذر ہو گئی۔ چین اور پاکستان کے مابین زمینی تجارت معطل ہو گئی۔سب ڈویژن گوجال کی پوری آبادی جو تقریباً پچیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اپنے ضلعی صدرمقام علی آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ گئی۔ عطا آباد سانحے کے پہلے ہی دن ریڈیو پاکستان گلگت نے اس حادثے کی خبر دنیا تک پہنچائی اور پھر متاثرین کی بحالی اور دریا کا پانی رک جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے عوام کو آگاہ رکھنے میں جو کردار اد اکیا وہ بلاشبہ انتہائی اہم تھا۔ شروع میں تو گلگت ہی سے پروگرام نشر کئے جاتے رہے۔
بعد میںصورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اُس وقت کے ڈائر یکٹر جنرل غلام مرتضیٰ سولنگی نے گلگت کا دورہ کیا اورکریم آباد کے التت قلعہ میں ایف ایم کا ایک ٹرانسمیٹر نصب کرکے خصوصی نشریات شروع کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ دریا کا راستہ بند ہوجانے کے بعد یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ رُکا ہو ا پانی کسی بھی وقت بند توڑ کر سیلاب کی صورت میں نیچے والی آبادیوں پر چڑھ دوڑے گا۔ التت قلعہ کا ہنگامی ریڈیو اسٹیشن چلانے کے لئے فنی عملے کے علاوہ محمد اسماعیل پروڈیوسر کو التت بھیجا گیا۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قواعد کے مطابق محمد اسماعیل اور دیگر عملہ نہ صرف گلگت سے التت تک کے سفر خرچ اور روزانہ الاؤنس کا حق دار تھا بلکہ اُنہیں یہاں قیام کے سارے عرصہ کا روزانہ الاؤنس دیا جانا تھا۔کیونکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے علی آباد کے ایک ہوٹل میں رہنے پر مجبور تھے۔اس حوالے سے صدر دفتر سے ٹیلی فون پر ہدایات دی گئی تھیں۔
چونکہ صورت حال ہنگامی نوعیت کی تھی اس لئے صدردفتر میںکسی نے یہ تردد نہ کیا کہ اس بارے میں تحریری احکامات بھی گلگت بھیجے جائیں۔ ساڑھے تین ماہ بعد جب التت قلعہ میں قائم ریڈیوسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور عملے کو واپس گلگت بلایا گیا تواب بن آئی ریڈیو پاکستان گلگت کے اُس وقت کے اکاؤنٹس آفیسر(جوتما م حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کی بھرپور بد دعائیں سمیٹ کر ریٹائر ہو چکے ہیں)اور اسٹیشن ڈائریکٹر کی ( وہ بھی اپنی تمام تر نالائقیوں اور احساس کمتری سمیت ریٹائر ہوچکے ہیں) جنہوںنے یہ قانونی موشگافی نکال کر کہ 'صدر دفتر سے ہمیں ٹیلی فون پر تو کہا گیا ہے لیکن جب تک تحریری احکامات نہیں آئیں گے آپ کو ٹی اے ڈی اے نہیں دیا جا سکتا' محمد اسماعیل اور دیگر عملے کواُن کے جائز حق سے محروم رکھا۔
جنوری ۰۱۰۲ء میں جب یہ سانحہ ہوا۔اور شاہراہ قراقرم کا خاصہ بڑا حصہ پانی کی زد میں آگیا۔ تو گوجال کے لوگ شروع شروع میںششکت سے عطا آباد جھیل کی دوسری طرف پیدل آتے جاتے رہے۔بعد میں تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم سے کشتیاں منگوائی گئیں۔اُنہیں چلانے کے لئے کشی ران بھی وہیں سے منگوائے گئے۔جن لوگوں کو معاوضہ ملا اُن کی اکثریت نے کشتیاں خرید لیں۔اور لوگوں کی آمد و رفت سے ایک نیا روزگار شروع ہوا۔چین سے سامان لے کر آنے والے ٹرک ششکت میں آکر مال اُتارتے جسے کشتیوں پر لاد کر پار لے جایا جاتا۔ جھیل پار کرنے کے بعد یہ سامان دوبارہ ٹرکوں میں لوڈ کرکے گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں کو بھیجا جاتا۔اس طرح اس سامان کی باربرداری کا خرچ بڑھ گیا، اور کچھ ہی عرصے میں چین کی زمینی تجارت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔پھر چین سے آنے والا سامان کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کے ذریعے آنے لگا۔ مسافروں اور سامان کو لانے لے جانے والے کشی رانوں کو بیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ،کھانا پینا اور رہائش کی سہولیات دے کر یہاں رکھا گیا۔ چین کے سرحدی شہر کاشغر سے گلگت تک خنجراب کے راستے مال منگوانے پر پندرہ دن لگتے تھے۔
جبکہ کراچی کے راستے آنے والی چینی مصنوعات کو گلگت پہنچنے میں ۵۷ دن صرف ہوتے۔سرد موسم میں عطا آباد جھیل کی رونقیں مانند پڑجاتی تھیں۔ مسافروں کی آمد و رفت بہت محدود ہوجاتی تھی۔عطا آباد جھیل کے سفر کے لئے حکومت کی طرف سے ستر روپے کرایہ مقرر کیاگیا تھا۔ جبکہ کشتیوں والے مسافروں سے فی کس ایک سو روپے وصول کرتے تھے۔ میں جب مارچ ۵۱۰۲ء کی ایک سرد دوپہر کو عطا آباد جھیل کے کنارے پہنچا تو آسمان ابرآلود تھا اورتیز ہوا چل رہی تھی۔ میرے ہمراہ محمد اسماعیل پروڈیوسر اور جان عالم ڈرائیور تھے۔ بادل جھیل کے کنارے کے پہاڑوں پر نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ ہوا اور پہاڑوں پر چھائے بادلوں کی آنکھ مچولی ایک خاصے کی چیز تھی جس کو دیکھنے کا موقعہ کم کم ہی ملتا ہے۔
2010ء میں ہونے والے اس سانحے کی زد میں آنے والی سڑک کی متبادل شاہراہ کی تعمیر پورے زور وشور سے جاری تھی۔ چینی تعمیراتی کمپنیاں عطا آباد جھیل کے علاقے میں پانچ سرنگیں تعمیر کر رہی تھیں تاکہ جھیل سے باہر محفوظ شاہراہ قراقرم کے دونوں حصوں کو ملایا جا سکے۔ ہم نے دفتر کی گاڑی جھیل کے کنارے کھڑی کی اور اپنی باری آنے پر کشتی میں جا بیٹھے۔ ایک کشتی میں عام طور پر بیس سے پچیس تک مسافر اور اُن کا سامان آتا ہے۔اگر کسی نے گاڑی بھی جھیل کے اُس پار لے جانی ہوتی تھی تو اُسے دو سے تین ہزار روپے کرایہ اد اکرنا پڑتا تھا۔گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں سے گوجال آنے والوں کو جھیل پار کرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یوں تو پاکستان میں درجنوں قدرتی جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی مثالی ہے۔ بے شمار جھیلیں ایسے دشوار گذار مقامات پر ہیں کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ صرف فضا سے ہی اُن جھیلوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
تربیلا، منگلا،ورسک،مالاکنڈ ڈیمز کی جھیلیں بھی دلکش ہیں لیکن حادثاتی طور پر بننے والی اس عطا آباد جھیل کا حسن ایسا ہے کہ انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔تاحد نظر پھیلا ہوا نیلگوں پانی جب ہلکورے لیتا ہے تو انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔سردیوں میں اس جھیل کی سطح جم جاتی ہے۔ جھیل کا ساکت پانی جو حقیقت میں ساکت نہیں ہوتا اپنے اندر ایک نامعلوم کشش رکھتا ہے۔یہ سفر بہت دل کش تھا۔یخ بستہ نیلگوں پانیوں پر آتی جاتی کشتیاں،کشتیوں میں بیٹھے ہوئے حسین لوگ، بعض کشتیوں پر بجائے جانے والے نغموں کی آوازیں، کشتیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی لہریں،ان لہروں پر ڈولتی ہوئی مرغابیاں، جھیل کے کناروں کے پہاڑوں کے ساتھ سر پٹکتا ہو اپانی ،یہ سفر ایک خواب جیسا تھا جس کے ٹوٹنے کا مجھے آج تک دکھ ہے۔ تقریباً پینتالیس منٹ کے اس دلفریب سفر کے بعد ہم ششکت پہنچے۔کشتی سے اُترنے کے بعد ہم نے گلمت تک جانا تھا جس کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر ہے۔ مسافروں کیلئے فلائنگ کوچیں اور سوزوکی پک اپ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ان میں تیس روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔اگر کسی کو عجلت ہو یا گاڑیاں موجود نہ ہوں تو انہیں ٹیکسی میں ایک سو روپے فی سواری کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہم ایک فلائنگ کوچ میں بیٹھے اور پندرہ بیس منٹ میں گلمت پہنچ گئے۔گلمت سیب، خوبانی،چیری اور ناشپاتی کے باغات،آلو گندم اور مکئی کے کھیتوں اور اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے۔
یوں تو پورے گلگت بلتستان اور چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اپر چترال اور اپر ہنزہ میںان اداروں کی موجودی بہت نمایاں ہے۔کیونکہ یہاں کی آبادی کا غالب حصہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ تعلیم، صحت ،زراعت ، باغبانی،گھریلو دستکاریوں،جنگلات اورجنگلی حیات کے شعبوں میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ادارے مصروف عمل ہیں۔اور ان کا نیٹ ورک ہر چھوٹی بڑی آبادی تک پھیلا ہوا ہے۔گلمت میں ہمیں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے مقامی دیہی تنظیم کے دفتر جانا ہوا۔جہاں بہت منظم انداز میں مرد اور عورتیں مل جُل کر اپنی تنظیم کے معاملات چلا رہے ہیں۔پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہمیں بتائے بغیر کھانا منگوا لیا گیا تھا ۔ میں نے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل کی ۔جس میں شرکاء نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح سے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت صحت، تعلیم،کھیتی باڑی، باغبانی،آبپاشی،پینے کے پانی کی فراہمی، پن بجلی کی پیداوار،گھریلو دستکاریوں،ادویات کی تیاری،روزگار کی فراہمی،سیاحت کے فروغ اور ماحول کے تحفظ کے لئے مربوط انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
گلگت میں پہنچنے کے پہلے روز میں نے دیگر ضروری معلومات کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ قریب ترین مسجد کہاں ہے۔بتایا گیا کہ دفتر کے سامنے گلی میں تھوڑی دور واقع ہے۔ظہر کے وقت تو مجھے نماز پڑھ کر واپس دفتر آتے وقت کسی نے کچھ نہ کہا لیکن عصر کی نماز کے بعد جب میں باہر نکلا تونمازیوں میں شامل ایک جوان صاحب ریش شخص مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔میں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی روایت کے برعکس اُسے سلام کیا۔(خیبر پختونخوا میں کسی کو غور سے دیکھنے کا مطلب مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے) تو وہ لپک کر آگے بڑھے۔ مصافحہ کیا اوربتایا کہ اُ ن کا نام اسداللہ خان ہے اور وہ قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائینسز میں پڑھاتے ہیں۔
میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مصر ہوگئے کہ میرا گھر قریب ہے گھر چلیں۔آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔میں ہچکچاتے ہوئے اُن کے ساتھ ہو لیا۔کچھ آگے اُن کے معمر والد بھی گھر کی طرف جا رہے تھے۔چلتے چلتے انہوں نے میرا تعارف کرایا۔اتنے میں گھر آگیا ۔ پورچ میں چار گاڑیاں کھڑی تھیں۔(گلگت میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے کسی گھر میں چار گا ڑیاں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی) وسیع و عریض لان کے دو تین حصے تھے۔کئی پھل دار درخت لگے ہوئے تھے۔ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ۔ ابھی ڈھنگ سے گفتگو شروع نہ ہونے پائی تھی کہ اسداللہ خان کو گھر کے اندر بلا لیا گیا اور میرے ساتھ اُن کے والد اور دو چھوٹے بھائی رہ گئے۔
تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ یہ دونوں بھائی اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں اور اسداللہ یہاں گلگت میں والدین کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اُن کے والد بظاہر بہت سنجیدہ اور لیئے دیئے سے نظر آرہے تھے لیکن جب گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔میرے پوچھنے پر اپنی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کئے۔کہ وہ پریشنگ استور کے رہنے والے ہیں۔ 1960ء کے عشر ے کے اواخر میں اقتصادیات میںکراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ایکسپورٹ پروموشن بیورو کراچی میں ملازم ہوگئے۔
اُس وقت اُن کی تنخواہ چار ہزار روپے ماہانہ تھی۔(یہ اُن کا اپنا بیان ہے )دن کو دفتر کی مصروفیات سے نمٹنے کے بعد شام کے وقت کے بہتر استعمال کے لئے انہوں نے سندھ مسلم لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔دو برس مکمل ہوئے تو وہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے۔اتنے میں شمالی علاقہ جات(اُس وقت گلگت بلتستان کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا)کی ضلعی انتظامیہ میں کچھ اسامیاں خالی ہوئیں۔اور اخبار میں ان کا اشتہار آیا۔ضلع استور سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے کے لئے درخواست بھیج دی۔اُس وقت گلگت میں انتظامیہ کے سربراہ کمشنر نصرمن اللہ تھے۔
جو بعد میں صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری بھی رہے۔عطی اللہ خان نے تحریری امتحان اور بعد میں ہونے والے انٹرویو میں جو کارکردگی دکھائی۔اس پر انٹرویو لینے والی کمیٹی کے سربراہ نصر من اللہ نے انہیں کہا۔ کہ وہ کراچی چھوڑ کر یہاں آئیں اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کا عہدہ سنبھالیں۔عطی اللہ خان نے جواب میں اس عہدے کی تنخواہ پوچھی تو بتایا گیا کہ الاونسز ملا کر کوئی آٹھ سو روپے ملا کریں گے۔عطی اللہ خان نے جواب دیا کہ میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہے کہ چار ہزار روپے والی ملازمت چھوڑکر آٹھ سو روپلی پر آجاؤں۔اس پر نصرمن اللہ نے انہیں سمجھایا کہ وہ اس کم تنخواہ پر دل برداشتہ نہ ہوں۔انہیں بہت جلد ترقی کے مواقع ملیں گے اور وہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر جیسے عہدوں پر بھی کام کر سکیں گے۔
بہرحال نصر من اللہ کے سمجھانے پرعطی اللہ خان کراچی گئے وہاں ملازمت سے مستعفی ہوئے اپنا سامان اٹھایا اور گلگت کی راہ لی۔ بعد میں ترقی پانے پر انہوں نے شمالی علاقہ جات کے تمام اضلاع کے علاوہ جہلم اور اٹک میں بھی ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر کام کیا۔بچوں کو کوہاٹ اور حسن ابدال کے کیڈٹ کالجوں میں پڑھایا۔پھر گلگت بلتستان میں صوبائی سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
انہیں اپنے کیریئرکی ابتداء میں چار ہزار روپے ماہوار کی ملازمت چھوڑ کر آٹھ سو روپے ماہوار والی ملازمت پر آنے کے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہ تھی۔وہ بہت مطمئن اور آسودہ تھے۔دسمبر 2014ء میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی حکومت کی مدت ختم ہوئی۔اور گلگت بلتستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت تشکیل دی گئی تو عطی اللہ خان کو کابینہ میں پانی و بجلی کی وزارت دی گئی۔وزارت نے اُن کے معمولات پر کوئی اثر نہ ڈالا۔وہ پہلے کی طرح پانچوں نمازوں کے لئے آذان دیتے اور اقامت کہتے رہے۔یہ عطی اللہ خان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کے(جو ۷۲ اپریل۶۱۰۲ء کو راولپنڈی کے ایک نجی ہسپتال میں ۵۸ برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے اور جن کی میت کو۸۲ اپریل ۶۱۰۲ء کو گلگت لا کر سپرد خاک کیا گیا)چھوٹے بھائی ہیں۔
تیرہ فروری کی ہڑتال اور چودہ فروری کے احتجاج کے باوجود بجلی کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی۔اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پہلے کی طرح جاری رہی۔سولہ فروری کے اخبارات میں خبر چھپی کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں بجلی کی غیر معمولی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور خراب بجلی گھروں کی مرمت کے لئے چودہ کروڑ روپے جاری کئے ہیں۔یہ رقم بھی حسب معمول بیوروکریسی اور ٹھکیداروں کے درمیان تقسیم ہوجائے گی اور بجلی گھروں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکے گا۔(ہوا بھی ایسا ہی ہے۔یہ سطور لکھے جانے تک کارگاہ کے بجلی گھر اسی طرح سے خراب تھے جیسے وہ ایک برس پہلے تھے)گلگت بلتستان، چترال، سوات، تور غراورکوہستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے وفاقی حکومت ہر سال اربوں روپے مہیا کرتی ہے۔
اور متعلقہ صوبائی حکومتیں منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہار دیتی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ جون کے مہینے میں پیش ہوتے ہیں اوران کی منظوری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم مختص ہونے کاکام ستمبر اکتوبر تک پھیل جاتا ہے۔جب یہ رقم ان صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی کے حوالے ہوتی ہے۔تو اس کے بعداخبارات کے ذریعے ٹینڈرطلب کئے جاتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں مزید دو ماہ لگ جاتے ہیں۔یوں جب نومبر میں ٹھیکیداروں کو ٹینڈر ز کی منظوری ملتی ہے تو سرد موسم کی شدت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ کچھ علاقوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔
کوئی ٹھیکیدار ایسے موسم میں اپنے کام ڈھنگ سے شروع نہیں کر پاتا۔ موسم کی شدت کی وجہ سے کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ جب اگلے برس اپریل میں موسم بہتر ہوتا ہے تو اُس وقت تک بمشکل بیس فیصد کام ہوا ہو تا ہے۔یہی مالی سال کی آخری سہ ماہی ہو تی ہے۔جب بیوروکریسی کی طرف سے ٹھیکیداروں پر دباؤ پڑتا ہے کہ کام مکمل کیا جائے۔سال بھر کے کام دو ماہ میں جس انداز میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ کسی سے ـڈھکی چھپی بات نہیں۔ مالی سال ختم پیسہ ہضم ٹھیکیداراور بیوروکریسی دونوں کے وارے نیارے، بیچارے عوام کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی،گلیوں کی پختگی، بجلی کی فراہمی،ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت، سکولوں،کالجوں کی تعمیر مرمت،چشموں اور نالوں سے پانی لانے والے کوہلوں کی تعمیر اور بحالی جیسے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایک اور برس انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
بلوچستان میں صورت حال اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور پھر کوئٹہ جانے والی سڑک کہنے کو پختہ شاہراہ ہے۔لیکن جن لوگوں کو اس سڑک پر سفر کرنے کا موقعہ ملا ہو وہ بخوبی بتا سکیں گے کہ اس راستے کو سڑک یا شاہراہ کا نام دینا کتنی بڑی ستم ظریفی ہے۔ جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے روا رکھی ہوئی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کا درمیانی فاصلہ 230کلو میٹر ہے۔ جسے طے کرنے میں کار پر دس گھنٹے اور فلائنگ کوچ میں بارہ سے چودہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اس سڑک کی حالت بہت بہتر ہے۔
ندی نالوں پر پل بھی بنے ہوئے ہیں۔جونہی یہ سڑک کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے تنگ درے سے ہوتی ہوئی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ دونوں صوبوں کی حد فاصل ایک برساتی نالہ ہے۔جس پر ایک عارضی پل بنا ہو اہے۔اس سے آگے ژوب تک ڈیڑھ سو کلو میٹر کے علاقے میں کم و بیش دس برساتی نالے سڑک کی راہ میں آتے ہیں۔جن میں سے ایک آدھ پر پل بنا ہوا ہے باقی تمام کے تمام خشک برساتی نالے پل کے بغیر سنگلاخ پتھروں پر اچھلتے کودتے پار کرنا پڑتے ہیں۔ اگر بارش ہوجائے تو پھر مسافروں کو برساتی نالوں کے کنارے ٹھہر کر پانی کا زور ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کیونکہ کوئی بھی فلائنگ کوچ یا کار والا تیز برساتی ریلے میں اپنی گاڑی ڈال کر اس سے اور اپنی جان سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کرتا۔یہ انتظار ایک دو گھنٹوں سے لے کر پوری رات یا دن پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ ان تمام برساتی نالوں پر بیوروکریسی کے کاغذات کی رو سے درجنوں بار پل تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ یہ پل کاغذات ہی میں ہر سال برساتی پانی کی بھی نذر ہوجاتے ہیں۔اور حکومت ہر سال ان پلوں کی تعمیر کے لئے کروڑوں روپے مختص کر تی ہے۔یہ سارا پیسہ سڑک کے اردگرد آباد وڈیروں، ٹھیکیداروں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان ہو،کوہاٹ ہو یا چترال، ژوب ہویا کوئٹہ، لیہ ہو یا مظفر گڑھ۔ان علاقوں کا جغرافیہ تو خالق کائنات نے ترتیب دیا ہے لیکن یہاں کی پسماندگی ،غربت،مشکلات اور عوام کی بے بسی کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت، منتخب نمائندوں، مقامی بیوروکریسی اور ٹھیکیداروں پر عائد ہوتی ہے۔
جو ایک دوسرے کی ملی بھگت سے ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ ہڑپ کرکے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کو انتخابات میں کامیاب کراتے اور پھر اپنی بد عنوانیوں کے لئے انہیں ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔بدعنوانیوں کی یہ داستان بہت طویل ہے۔اس لئے ہم واپس گلگت کی طرف آتے ہیں۔جو اس علاقے کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔4208مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ضلع گلگت پورے علاقے میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔جلال آباد سے لے کر بسین تک بارہ کلو میٹر کی لمبائی اور دو سے تین کلو میٹر کی چوڑائی میں پھیلے ہوئے کم وبیش ایک لاکھ آبادی کے اس شہر کا محل و وقوع ایسا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع تور غر، کوہستان سے لے کرپورے گلگت بلتستان کے لوگوں کا رخ گلگت کی طرف ہے۔
سردیوں میں شدید سردی سے ٹھٹھرنے اور گرمیوں میں شدید گرمی سے جھلسنے کے باوجود چلاس، تانگیر، داریل، استور، منی مرگ، غذر، یاسین، پھنڈر، نگر، ہنزہ، گوجال،سکردو، شگر، کھرمنگ، گانچھے،کوہستان اور تورغر کے لوگ نقل مکانی کے لئے گلگت کو ترجیح دیتے ہیں۔2015-16ء کے دورانمیں دیامر۔بھاشا ڈیم کے متاثرین میں ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ تقسیم کیا گیاتھا۔وفاقی حکومت نے کم و بیش چالیس ارب روپے ضلع دیامیر کے باشندوں میں تقسیم کئے۔معاوضہ وصول کرنے والوں کی اکثریت نے کبھی دس بیس ہزار روپے سے زائد رقم اکٹھی نہیں دیکھی تھی۔چنانچہ کئی لطیفے بھی سرزد ہوئے۔
گلگت چھاؤنی میں جوٹیال کے علاقے میں ایف سی این اے چوک میں ایک بھارتی ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔(جو اُس وقت تک بغیر کسی جنگلے یا حفاظتی دیوار کے سیمنٹ کے بنے ہوئے ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا۔) ایک دن ایک بوڑھا شخص جس نے اپنی بنجر پہاڑی زمین کا معاوضہ لاکھوں روپے میں وصول کیا تھا۔اس چوک میں پیدل جاتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے قریب رکااور اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ایک گلگتی ستم ظریف نے اُس بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔بوڑھے نے جواب دیا کہ یہ جہاز دیکھ رہا ہوں۔گلگتی نے کہا کہ یہ میر ا جہاز ہے۔تم خریدنا چاہتے ہو۔بابے نے کہا کہ کیوں نہیں۔اُس شخص نے کہا کہ مجھے چھ لاکھ روپے دے دو اور یہ جہاز تمہارا ۔ بوڑھے شخص نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔
ڈب سے رقم نکالی اور گن کر چھ لاکھ روپے اُس نوسرباز کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔نوسرباز نے بابے سے کہا کہ آپ کل آکر اپنا جہاز لے جائیں۔بوڑھا خوش ہو کر وہاں سے چلاآیا۔دوسرے دن علی الصبح بابا اپنا جہاز وصول کر نے ایف سی این اے چوک پہنچا۔اور جہاز پر اپنا کپڑا مارنے لگا تاکہ اُس پر پڑی ہوئی گرد صاف کر لے۔اتنے میں چوک میں تعینات فوجی جوان بوڑھے کے پاس آئے اور پوچھا کہ بابا جی آپ کیا کر رہے ہیں۔بابے نے بتا یا کہ وہ یہ جہاز خرید چکا ہے۔اور اسے لینے آیا ہے۔فوجی جوانوںکو بابے کی دماغی صحت پر شک ہوا ۔لیکن بابا جس قدر یقین سے بات کررہا تھا۔وہ سمجھ گئے کہ کوئی بندہ بابے کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔
پھر انہوں نے بوڑھے شخص کو بتا یا کہ یہ جہاز بہت پرانا ہے۔یہ سٹارٹ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ قابل فروخت ہے۔تب جا کر اُس بوڑھے شخص کو سمجھ آئی کہ اُ س کے ساتھ کیا ہوا ہے۔اُس نے پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔نوسرباز صاحب نے اپنا صحیح نام پتہ نشان نہیں بتا یا تھا۔ لیکن ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ لینے والے سارے لوگ اس بوڑھے کی طرح نہیں تھے۔اکثریت نے جوٹیال، سکوار، گلگت چھاؤنی،غذر روڈ،شاہراہ قراقرم اور مضافات میں تجارتی اور رہائشی زمینیں خریدیں اوربڑی بڑی مارکیٹس اور پلازے تعمیر کرنا شروع کردیئے۔خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے گلگت میں زمینوں کی قیمتیں راتوں رات آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
گلگت بلتستان کی وادیوں میں ہنزہ کو اللہ رب العزت نے بہت دل کشی عطا کی ہے۔ضلع ہنزہ کا صدرمقام علی آباد ہے۔جو گلگت سے 112کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اگر کہیں رُکنا نہ ہو تو گلگت سے دو گھنٹوں میں علی آباد پہنچا جا سکتا ہے۔یہ سفر عمدہ سڑک ،دلفریب نظاروں اور پہاڑی ڈھلانوں پرخوبانی،چیری اور سیب کے درختوں سے گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات کی وجہ سے بہت پُر لطف رہا۔
راستے میں ضلع نگر میں چھلت ،چھپروٹ اور نلت وادیوں کے دامن میں سڑک کے کنارے ایک جگہ بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ یہاں زمین اور پہاڑوں کی مختلف تہیں آپس میں ملتی ہیں۔ چھلت کے بعد وادی ایک دم سے کُھل جاتی ہے۔دریا،سڑک اور دو پہاڑوں کے درمیان تنگ درہ ایک وسیع وعریض وادی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دریا ہنزہ میں شامل ہونے والے کوہستانی نالوں کے ساتھ اوپر کی طرف وادیاں اور وسیع چراہ گاہیں ہیں۔ جن کی طرف جانے والے راستے دریا پر رسوں سے بندھے ہوئے پُلوں کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے منسلک ہیں۔ سڑک غیر محسوس انداز میں دھیرے دھیرے اوپر کی جانب بڑھتی ہے۔پیچھے مڑ کر دیکھنے پر راکاپوشی ہر موڑ کے بعد اپنی نئی چھب دکھا تی اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے۔
اس آنکھ مچولی کے ساتھ آگے بڑھیں توسکندر آباد، جعفر آباد،تھول،غلمت سے گذرتے ہوئے حسن آباد کا گاؤں آجاتا ہے۔یہ ہنزہ کے صدر مقام علی آباد کے مضافات میں سے ہے۔علی آباد، حسن آباد ،کریم آباد اور سمائر ایک دوسرے کے سامنے آباد ہیں۔یہ وادی بلاشبہ گلگت بلتستان کی حسین ترین وادیوں میں سر فہرست ہے۔کریم آباد میر آف ہنزہ کے آبائی محل، التت قلعہ اور درجنوں ہوٹلوں کی وجہ سے معروف سیاحتی مقام ہے۔مارچ کے اس آخری ہفتے میں کریم آباد بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہو اتھا۔ میں نے علی آباد میں پاکستان ٹورزم ڈیلوپمنٹ کارپوریشن کے موٹل پرگاڑی رکوائی جو سڑک کے کنارے بہت ہی اچھی لوکیشن پر بنا ہوا ہے۔
موٹل کا دروازہ کھلا تھا لیکن اندر سب کچھ سردیوں کی وجہ سے بند تھا۔ ڈھلوان پر بہت ہی خوبصورتی سے تعمیر شدہ کمرے ،اُن کے آگے بنے ہوئے دریچے،دریچوں کی محرابیں یہ سب کچھ انسان کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میںپی ٹی ڈی سی کے جتنے بھی نئے موٹلز بنے ہیں۔
اُن سب کا نقشہ کسی بہت ہی اچھے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا ہے اور یہ ایک ہی ڈیزائن پر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں راما جنگل استور، خپلو، گوپس،پھنڈر،ہنزہ علی آباداورست پارہ کے موٹلز شامل ہیں۔ سکردو اور گلگت میں عرصہ دراز سے موجود پی ٹی ڈی سی کے موٹلز الگ الگ ڈیزائن میں ہیں۔ ۹۰۰۲ء میں صوبہ کا درجہ دیئے جانے کے بعد جن اضلاع کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا ابھی اُن کے انتظامی دفاتر کی عمارتیں مکمل نہیں ہو پائی تھیں کہ ۵۱۰۲ء میں وزیراعظم نوازشریف نے نگر،شگر اور کھرمنگ کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کردیا۔ ہنزہ کو ۹۰۰۲ء میں ضلع بنایا گیا۔ چھ برس گذرنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کے دفاتر نہیں بن پائے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہنزہ کا دفتر پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں کام کر رہا ہے۔ علی آباد سے آگے جائیں توکریم آباد کی طر ف جاتے ہوئے گینش گاؤں آتا ہے۔یہ قدیم آثار سے مالامال گاؤں ہے۔یہاں ہندو اور بدھ دور کے کئی آثار موجود ہیں جو کم و بیش ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار برس پرانے ہیں۔
یہاں شاہراہ قراقرم اس طرح سے بل کھاتی گذرتی ہے کہ علی آباد سے اس کا نظارہ آنکھوں میں بس جاتا ہے۔علی آباد سے آدھ پونے گھنٹے کی مسافت پر عطا آباد جھیل واقع ہے جوحادثاتی طور پر۴ جنوری ۰۱۰۲ء کو ایک پہاڑ کے یکایک دریائے ہنزہ میں گرنے سے وجود میں آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ اس پہاڑ کے گرنے سے پہلے عطا آباد گاؤں والوں کو حکومت کی طر ف سے مطلع کیا جا چکا تھا کہ پہاڑ کا ایک حصہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے کسی بھی وقت گر سکتا ہے ،اس لئے گاؤں کی زیادہ تر آبادی محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکی تھی۔لیکن کچھ افراد ایسے تھے جو اپنے گھروں میں موجود تھے۔
دن بارہ سوا بارہ بجے جب پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرا تو اس کا ملبہ دو کلومیٹر کے علاقے میں پھیل گیا۔ عطا آباد گاؤں کے تمام گھر،ڈھلوانوں پر بنے کھیت اور باغات سب دریا بُرد ہوگئے۔ ملبے کی زد میں عطا آباد کے علاوہ اس کے نیچے ڈھلان پر موجود آئین آباد گاؤں کی آبادی بھی آئی ۔ مرنے والوں کی کل تعداد انیس تھی۔ جن لوگوں کے گھر بار مال مویشی اورجائیداد تباہ ہوئی اُنہیں فی گھرانہ چھ لاکھ روپے حکومت کی طر ف سے معاوضہ دیا گیا۔دریا کی گذرگاہ بند ہوجانے کی وجہ سے دریائے ہنزہ جھیل کی صورت اختیار کرتا گیا۔اور چار ماہ میں عطا آباد جھیل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط ہو کر وجود میں آگئی۔عطا آباد سے ششکت تک کم و بیش اکیس کلو میٹر کا علاقہ جھیل بن گیا۔
اور اتنے ہی فاصلے پر نو تعمیر شدہ شاہراہ قراقرم بھی جھیل کی نذر ہو گئی۔ چین اور پاکستان کے مابین زمینی تجارت معطل ہو گئی۔سب ڈویژن گوجال کی پوری آبادی جو تقریباً پچیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اپنے ضلعی صدرمقام علی آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ گئی۔ عطا آباد سانحے کے پہلے ہی دن ریڈیو پاکستان گلگت نے اس حادثے کی خبر دنیا تک پہنچائی اور پھر متاثرین کی بحالی اور دریا کا پانی رک جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے عوام کو آگاہ رکھنے میں جو کردار اد اکیا وہ بلاشبہ انتہائی اہم تھا۔ شروع میں تو گلگت ہی سے پروگرام نشر کئے جاتے رہے۔
بعد میںصورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اُس وقت کے ڈائر یکٹر جنرل غلام مرتضیٰ سولنگی نے گلگت کا دورہ کیا اورکریم آباد کے التت قلعہ میں ایف ایم کا ایک ٹرانسمیٹر نصب کرکے خصوصی نشریات شروع کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ دریا کا راستہ بند ہوجانے کے بعد یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ رُکا ہو ا پانی کسی بھی وقت بند توڑ کر سیلاب کی صورت میں نیچے والی آبادیوں پر چڑھ دوڑے گا۔ التت قلعہ کا ہنگامی ریڈیو اسٹیشن چلانے کے لئے فنی عملے کے علاوہ محمد اسماعیل پروڈیوسر کو التت بھیجا گیا۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قواعد کے مطابق محمد اسماعیل اور دیگر عملہ نہ صرف گلگت سے التت تک کے سفر خرچ اور روزانہ الاؤنس کا حق دار تھا بلکہ اُنہیں یہاں قیام کے سارے عرصہ کا روزانہ الاؤنس دیا جانا تھا۔کیونکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے علی آباد کے ایک ہوٹل میں رہنے پر مجبور تھے۔اس حوالے سے صدر دفتر سے ٹیلی فون پر ہدایات دی گئی تھیں۔
چونکہ صورت حال ہنگامی نوعیت کی تھی اس لئے صدردفتر میںکسی نے یہ تردد نہ کیا کہ اس بارے میں تحریری احکامات بھی گلگت بھیجے جائیں۔ ساڑھے تین ماہ بعد جب التت قلعہ میں قائم ریڈیوسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور عملے کو واپس گلگت بلایا گیا تواب بن آئی ریڈیو پاکستان گلگت کے اُس وقت کے اکاؤنٹس آفیسر(جوتما م حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کی بھرپور بد دعائیں سمیٹ کر ریٹائر ہو چکے ہیں)اور اسٹیشن ڈائریکٹر کی ( وہ بھی اپنی تمام تر نالائقیوں اور احساس کمتری سمیت ریٹائر ہوچکے ہیں) جنہوںنے یہ قانونی موشگافی نکال کر کہ 'صدر دفتر سے ہمیں ٹیلی فون پر تو کہا گیا ہے لیکن جب تک تحریری احکامات نہیں آئیں گے آپ کو ٹی اے ڈی اے نہیں دیا جا سکتا' محمد اسماعیل اور دیگر عملے کواُن کے جائز حق سے محروم رکھا۔
جنوری ۰۱۰۲ء میں جب یہ سانحہ ہوا۔اور شاہراہ قراقرم کا خاصہ بڑا حصہ پانی کی زد میں آگیا۔ تو گوجال کے لوگ شروع شروع میںششکت سے عطا آباد جھیل کی دوسری طرف پیدل آتے جاتے رہے۔بعد میں تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم سے کشتیاں منگوائی گئیں۔اُنہیں چلانے کے لئے کشی ران بھی وہیں سے منگوائے گئے۔جن لوگوں کو معاوضہ ملا اُن کی اکثریت نے کشتیاں خرید لیں۔اور لوگوں کی آمد و رفت سے ایک نیا روزگار شروع ہوا۔چین سے سامان لے کر آنے والے ٹرک ششکت میں آکر مال اُتارتے جسے کشتیوں پر لاد کر پار لے جایا جاتا۔ جھیل پار کرنے کے بعد یہ سامان دوبارہ ٹرکوں میں لوڈ کرکے گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں کو بھیجا جاتا۔اس طرح اس سامان کی باربرداری کا خرچ بڑھ گیا، اور کچھ ہی عرصے میں چین کی زمینی تجارت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔پھر چین سے آنے والا سامان کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کے ذریعے آنے لگا۔ مسافروں اور سامان کو لانے لے جانے والے کشی رانوں کو بیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ،کھانا پینا اور رہائش کی سہولیات دے کر یہاں رکھا گیا۔ چین کے سرحدی شہر کاشغر سے گلگت تک خنجراب کے راستے مال منگوانے پر پندرہ دن لگتے تھے۔
جبکہ کراچی کے راستے آنے والی چینی مصنوعات کو گلگت پہنچنے میں ۵۷ دن صرف ہوتے۔سرد موسم میں عطا آباد جھیل کی رونقیں مانند پڑجاتی تھیں۔ مسافروں کی آمد و رفت بہت محدود ہوجاتی تھی۔عطا آباد جھیل کے سفر کے لئے حکومت کی طرف سے ستر روپے کرایہ مقرر کیاگیا تھا۔ جبکہ کشتیوں والے مسافروں سے فی کس ایک سو روپے وصول کرتے تھے۔ میں جب مارچ ۵۱۰۲ء کی ایک سرد دوپہر کو عطا آباد جھیل کے کنارے پہنچا تو آسمان ابرآلود تھا اورتیز ہوا چل رہی تھی۔ میرے ہمراہ محمد اسماعیل پروڈیوسر اور جان عالم ڈرائیور تھے۔ بادل جھیل کے کنارے کے پہاڑوں پر نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ ہوا اور پہاڑوں پر چھائے بادلوں کی آنکھ مچولی ایک خاصے کی چیز تھی جس کو دیکھنے کا موقعہ کم کم ہی ملتا ہے۔
2010ء میں ہونے والے اس سانحے کی زد میں آنے والی سڑک کی متبادل شاہراہ کی تعمیر پورے زور وشور سے جاری تھی۔ چینی تعمیراتی کمپنیاں عطا آباد جھیل کے علاقے میں پانچ سرنگیں تعمیر کر رہی تھیں تاکہ جھیل سے باہر محفوظ شاہراہ قراقرم کے دونوں حصوں کو ملایا جا سکے۔ ہم نے دفتر کی گاڑی جھیل کے کنارے کھڑی کی اور اپنی باری آنے پر کشتی میں جا بیٹھے۔ ایک کشتی میں عام طور پر بیس سے پچیس تک مسافر اور اُن کا سامان آتا ہے۔اگر کسی نے گاڑی بھی جھیل کے اُس پار لے جانی ہوتی تھی تو اُسے دو سے تین ہزار روپے کرایہ اد اکرنا پڑتا تھا۔گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں سے گوجال آنے والوں کو جھیل پار کرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یوں تو پاکستان میں درجنوں قدرتی جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی مثالی ہے۔ بے شمار جھیلیں ایسے دشوار گذار مقامات پر ہیں کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ صرف فضا سے ہی اُن جھیلوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
تربیلا، منگلا،ورسک،مالاکنڈ ڈیمز کی جھیلیں بھی دلکش ہیں لیکن حادثاتی طور پر بننے والی اس عطا آباد جھیل کا حسن ایسا ہے کہ انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔تاحد نظر پھیلا ہوا نیلگوں پانی جب ہلکورے لیتا ہے تو انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔سردیوں میں اس جھیل کی سطح جم جاتی ہے۔ جھیل کا ساکت پانی جو حقیقت میں ساکت نہیں ہوتا اپنے اندر ایک نامعلوم کشش رکھتا ہے۔یہ سفر بہت دل کش تھا۔یخ بستہ نیلگوں پانیوں پر آتی جاتی کشتیاں،کشتیوں میں بیٹھے ہوئے حسین لوگ، بعض کشتیوں پر بجائے جانے والے نغموں کی آوازیں، کشتیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی لہریں،ان لہروں پر ڈولتی ہوئی مرغابیاں، جھیل کے کناروں کے پہاڑوں کے ساتھ سر پٹکتا ہو اپانی ،یہ سفر ایک خواب جیسا تھا جس کے ٹوٹنے کا مجھے آج تک دکھ ہے۔ تقریباً پینتالیس منٹ کے اس دلفریب سفر کے بعد ہم ششکت پہنچے۔کشتی سے اُترنے کے بعد ہم نے گلمت تک جانا تھا جس کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر ہے۔ مسافروں کیلئے فلائنگ کوچیں اور سوزوکی پک اپ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ان میں تیس روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔اگر کسی کو عجلت ہو یا گاڑیاں موجود نہ ہوں تو انہیں ٹیکسی میں ایک سو روپے فی سواری کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہم ایک فلائنگ کوچ میں بیٹھے اور پندرہ بیس منٹ میں گلمت پہنچ گئے۔گلمت سیب، خوبانی،چیری اور ناشپاتی کے باغات،آلو گندم اور مکئی کے کھیتوں اور اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے۔
یوں تو پورے گلگت بلتستان اور چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اپر چترال اور اپر ہنزہ میںان اداروں کی موجودی بہت نمایاں ہے۔کیونکہ یہاں کی آبادی کا غالب حصہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ تعلیم، صحت ،زراعت ، باغبانی،گھریلو دستکاریوں،جنگلات اورجنگلی حیات کے شعبوں میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ادارے مصروف عمل ہیں۔اور ان کا نیٹ ورک ہر چھوٹی بڑی آبادی تک پھیلا ہوا ہے۔گلمت میں ہمیں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے مقامی دیہی تنظیم کے دفتر جانا ہوا۔جہاں بہت منظم انداز میں مرد اور عورتیں مل جُل کر اپنی تنظیم کے معاملات چلا رہے ہیں۔پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہمیں بتائے بغیر کھانا منگوا لیا گیا تھا ۔ میں نے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل کی ۔جس میں شرکاء نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح سے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت صحت، تعلیم،کھیتی باڑی، باغبانی،آبپاشی،پینے کے پانی کی فراہمی، پن بجلی کی پیداوار،گھریلو دستکاریوں،ادویات کی تیاری،روزگار کی فراہمی،سیاحت کے فروغ اور ماحول کے تحفظ کے لئے مربوط انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)