عشقِ ڈارلنگِ مجازی میں مُنی ناحق بدنام
کیا ریاست اور اس کی مقتدر اشرافیہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کا سچ اور انصاف کے ترازو سے کچھ لینا دینا نہیں
AYODHYA, INDIA:
مولانا فضل الرحمٰن کی زیرقیادت اپوزیشن کو آزادی مارچ کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق گومگو کی کیفیت ختم کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے 23 اکتوبر کو جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر یہ مارچ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشریح کے مطابق، آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا تو اس کی اجازت ہوگی۔
حکومت عدلیہ کے کن فیصلوں کا حوالہ دے رہی ہے؟ یہ فیصلے کن جج صاحبان نے دیئے؟
یہ دونوں تشریحات یا فیصلے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق ہیں۔ جب یہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت آیا تو جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے اپنے ریمارکس میں متعدد آئینی نکات پر گفتگو کی۔ جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے دھرنے کے قائد علامہ خادم رضوی کا نام لیے بغیر کہا کہ 'موصوف نے فیض آباد دھرنے میں بیٹھ کر جو حرکت کی وہ قابل مذمت ہے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر جو نازیبا زبان استعمال کی، اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے'۔
دھرنے کے شرکاء نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا مگر حکومت نے ان سے معاہدہ کرکے دھرنا ختم کروا دیا اور اہلکاروں پر تشدد کرنے والوں سے راضی نامہ کرلیا۔ جس پر جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ اگر زخمی میں ہوا ہوں تو پھر ریاست کو کیا حق ہے کہ وہ میری جگہ راضی نامہ کرلے؟ جس پولیس کو مارا گیا، کیا وہ ریاست کا حصہ نہیں؟ اسلام آباد پولیس کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہ دی جانی چاہئے۔ پولیس کا ازالہ نہ کیا گیا تو کیس ختم نہیں ہونے دوں گا۔ ریاست نے دھرنے والوں کے آگے سرنڈر کردیا۔ معاہدے کی کاپی پارلیمنٹ میں بھیجی جائے اور وفاقی حکومت معاہدے پر ثالثوں کے ساتھ گفتگو کرے۔ مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوے بند کروائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس لے لیا تھا، چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو یہ کیس بغیر فیصلہ دیئے خارج کرنا پڑا۔
بعد ازاں شوکت صدیقی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں 'اداروں' کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے برطرف کردیا تھا۔
تاہم آج جب حکومت کی رِٹ خطرے میں نظر آرہی ہے اور دارالحکومت میں ایک بار پھر ایک مذہبی جماعت طویل مدتی دھرنا دینے کا منصوبہ بنارہی ہے تو ریاست کو وہی شوکت صدیقی یاد آرہا ہے، جس کی حق گوئی کو وہ ماضی میں اپنے لیے خطرہ سمجھا کرتی تھی۔
اسی کیس سے متعلق دوسرا عہد ساز فیصلہ سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا، جنہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین بطور خاص احتجاج کے حق کو بیان نہیں کرتا تاہم جمہوریت اس حق کو تسلیم کرتی ہے، مگر احتجاج کو کسی قانونی حکومت کو معزول کرنے کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اکٹھا ہونے کا حق کسی جمہوری سیاسی نظام کی حفاظت کےلیے نہایت اہم حق ہے لیکن کوئی بھی ریاست ایسی کوئی بات یا عمل برداشت نہیں کرسکتی جو کسی قانونی یا آئینی طور پر وجود میں آنے والی حکومت کو گرانے کی نیت رکھتا ہو۔
تینتالیس صفحات پر مشتمل اس جامع فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ تحریک لبیک پاکستان اور اس کے حامی شہری زندگی کو مفلوج بنانے کےلیے مکمل طور پر پُرعزم تھے مگر ان حالات سے نبردآزما ہونے کےلیے حکومت نے ناکافی انتظامات کیے، کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی بھی نہ کی گئی، بصیرت اور واضح سوچ مفقود، اور شش و پنج کا عنصر حاوی دکھائی دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر قانون توڑنے والوں کو معلوم ہو کہ کوئی سزا نہیں ملے گی تو اس سے دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے۔ پاکستان کے شہری اپنے بنیادی حقوق سے متعلق ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں، چنانچہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے، ان کی املاک کی حفاظت کی جانی چاہیے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے، تاہم ریاست نے انہیں مایوس کیا۔
اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اور شیخ رشید دونوں نے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیلیں دائر کیں اور بعد ازاں ان فاضل جج صاحب کے خلاف صدر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات/ بیرونِ ملک اثاثے رکھنے کے الزام میں ریفرنس بھی بھیج دیا، جو ہنوز زیرسماعت ہے۔
اب سوال بہت سادہ ہے۔ کیا ریاست اور اس کی مقتدر اشرافیہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کا سچ اور انصاف کے ترازو سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ معاملات کو صرف اور صرف اپنے اور اپنے حواریوں کے مفاد کی عینک سے ہی دیکھا کرے گی؟
یعنی کل تک جو جج صاحبان اور ان کے جو فیصلے آپ کو ناپسند تھے، کیونکہ آپ حق پر نہیں تھے اور جج صاحبان کا اپنے ضمیر کی آوز پر لبیک کہنا آپ کےلیے نقصان دہ تھا، آج وہی جج صاحبان اور ان کے وہی فیصلے آپ کو پسند ہیں۔ چونکہ اب آپ حق پر ہیں؟ کیا تحریک انصاف اپنی اس نظرثانی درخواست کو بھول گئی ہے جو اس نے جسٹس عیسیٰ کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی؟ اگر نہیں تو پھر آخر اب وزیراعظم آفس کس منہ سے یہ بیان جاری کررہا ہے کہ اگر یہ مارچ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشریح کے مطابق، آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا تو اس کی اجازت ہوگی؟
گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر آپ کو یہی لگتا ہے کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے تو ٹھیک ہے، لیتے رہیں۔ مگر خدارا بات یہیں تک رکھیں، قلابازیوں پر تو نہ اتریں۔ اور اگر یہ آپ کے بس سے باہر ہے تو پھر پہلے کسی معاملے پر شدید مؤقف اختیار ہی نہ کیا کریں۔ ڈکٹیٹروں کی طرح سخت، دو ٹوک اور بے لچک مؤقف اختیار کرنے کے بجائے سیاستدانوں کی طرح لچکدار، نرم اور درمیانہ راستہ اختیار کیا کریں۔ ورنہ آخر میں 'کُکڑی کھیہ اڈائی، اپنے سِر وِچ پائی' کے مصداق قلابازی بھی لگانی پڑتی ہے اور جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔
اگر ہمارا طبقہ اشرافیہ کسی بھی مہم کے آغاز سے قبل صرف اتنی بات سمجھ لیا کرے کہ آخری فتح ہر صورت سچ ہی کی ہونی ہے تو پھر شاید اُسے سارا راستہ جھوٹ بول بول کر اپنے دامن کو داغدار ہی نہ کرنا پڑے۔ گویا عشقِ ڈارلنگِ مجازی میں مُنی ناحق بدنام! آخر کیوں؟ حبیب جالب یاد آگئے
طوافِ کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اڑا اے دل
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کی زیرقیادت اپوزیشن کو آزادی مارچ کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق گومگو کی کیفیت ختم کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے 23 اکتوبر کو جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر یہ مارچ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشریح کے مطابق، آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا تو اس کی اجازت ہوگی۔
حکومت عدلیہ کے کن فیصلوں کا حوالہ دے رہی ہے؟ یہ فیصلے کن جج صاحبان نے دیئے؟
یہ دونوں تشریحات یا فیصلے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق ہیں۔ جب یہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت آیا تو جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے اپنے ریمارکس میں متعدد آئینی نکات پر گفتگو کی۔ جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے دھرنے کے قائد علامہ خادم رضوی کا نام لیے بغیر کہا کہ 'موصوف نے فیض آباد دھرنے میں بیٹھ کر جو حرکت کی وہ قابل مذمت ہے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر جو نازیبا زبان استعمال کی، اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے'۔
دھرنے کے شرکاء نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا مگر حکومت نے ان سے معاہدہ کرکے دھرنا ختم کروا دیا اور اہلکاروں پر تشدد کرنے والوں سے راضی نامہ کرلیا۔ جس پر جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ اگر زخمی میں ہوا ہوں تو پھر ریاست کو کیا حق ہے کہ وہ میری جگہ راضی نامہ کرلے؟ جس پولیس کو مارا گیا، کیا وہ ریاست کا حصہ نہیں؟ اسلام آباد پولیس کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہ دی جانی چاہئے۔ پولیس کا ازالہ نہ کیا گیا تو کیس ختم نہیں ہونے دوں گا۔ ریاست نے دھرنے والوں کے آگے سرنڈر کردیا۔ معاہدے کی کاپی پارلیمنٹ میں بھیجی جائے اور وفاقی حکومت معاہدے پر ثالثوں کے ساتھ گفتگو کرے۔ مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوے بند کروائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس لے لیا تھا، چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو یہ کیس بغیر فیصلہ دیئے خارج کرنا پڑا۔
بعد ازاں شوکت صدیقی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں 'اداروں' کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے برطرف کردیا تھا۔
تاہم آج جب حکومت کی رِٹ خطرے میں نظر آرہی ہے اور دارالحکومت میں ایک بار پھر ایک مذہبی جماعت طویل مدتی دھرنا دینے کا منصوبہ بنارہی ہے تو ریاست کو وہی شوکت صدیقی یاد آرہا ہے، جس کی حق گوئی کو وہ ماضی میں اپنے لیے خطرہ سمجھا کرتی تھی۔
اسی کیس سے متعلق دوسرا عہد ساز فیصلہ سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا، جنہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین بطور خاص احتجاج کے حق کو بیان نہیں کرتا تاہم جمہوریت اس حق کو تسلیم کرتی ہے، مگر احتجاج کو کسی قانونی حکومت کو معزول کرنے کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اکٹھا ہونے کا حق کسی جمہوری سیاسی نظام کی حفاظت کےلیے نہایت اہم حق ہے لیکن کوئی بھی ریاست ایسی کوئی بات یا عمل برداشت نہیں کرسکتی جو کسی قانونی یا آئینی طور پر وجود میں آنے والی حکومت کو گرانے کی نیت رکھتا ہو۔
تینتالیس صفحات پر مشتمل اس جامع فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ تحریک لبیک پاکستان اور اس کے حامی شہری زندگی کو مفلوج بنانے کےلیے مکمل طور پر پُرعزم تھے مگر ان حالات سے نبردآزما ہونے کےلیے حکومت نے ناکافی انتظامات کیے، کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی بھی نہ کی گئی، بصیرت اور واضح سوچ مفقود، اور شش و پنج کا عنصر حاوی دکھائی دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر قانون توڑنے والوں کو معلوم ہو کہ کوئی سزا نہیں ملے گی تو اس سے دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے۔ پاکستان کے شہری اپنے بنیادی حقوق سے متعلق ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں، چنانچہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے، ان کی املاک کی حفاظت کی جانی چاہیے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے، تاہم ریاست نے انہیں مایوس کیا۔
اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اور شیخ رشید دونوں نے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیلیں دائر کیں اور بعد ازاں ان فاضل جج صاحب کے خلاف صدر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات/ بیرونِ ملک اثاثے رکھنے کے الزام میں ریفرنس بھی بھیج دیا، جو ہنوز زیرسماعت ہے۔
اب سوال بہت سادہ ہے۔ کیا ریاست اور اس کی مقتدر اشرافیہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کا سچ اور انصاف کے ترازو سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ معاملات کو صرف اور صرف اپنے اور اپنے حواریوں کے مفاد کی عینک سے ہی دیکھا کرے گی؟
یعنی کل تک جو جج صاحبان اور ان کے جو فیصلے آپ کو ناپسند تھے، کیونکہ آپ حق پر نہیں تھے اور جج صاحبان کا اپنے ضمیر کی آوز پر لبیک کہنا آپ کےلیے نقصان دہ تھا، آج وہی جج صاحبان اور ان کے وہی فیصلے آپ کو پسند ہیں۔ چونکہ اب آپ حق پر ہیں؟ کیا تحریک انصاف اپنی اس نظرثانی درخواست کو بھول گئی ہے جو اس نے جسٹس عیسیٰ کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی؟ اگر نہیں تو پھر آخر اب وزیراعظم آفس کس منہ سے یہ بیان جاری کررہا ہے کہ اگر یہ مارچ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشریح کے مطابق، آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا تو اس کی اجازت ہوگی؟
گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر آپ کو یہی لگتا ہے کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے تو ٹھیک ہے، لیتے رہیں۔ مگر خدارا بات یہیں تک رکھیں، قلابازیوں پر تو نہ اتریں۔ اور اگر یہ آپ کے بس سے باہر ہے تو پھر پہلے کسی معاملے پر شدید مؤقف اختیار ہی نہ کیا کریں۔ ڈکٹیٹروں کی طرح سخت، دو ٹوک اور بے لچک مؤقف اختیار کرنے کے بجائے سیاستدانوں کی طرح لچکدار، نرم اور درمیانہ راستہ اختیار کیا کریں۔ ورنہ آخر میں 'کُکڑی کھیہ اڈائی، اپنے سِر وِچ پائی' کے مصداق قلابازی بھی لگانی پڑتی ہے اور جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔
اگر ہمارا طبقہ اشرافیہ کسی بھی مہم کے آغاز سے قبل صرف اتنی بات سمجھ لیا کرے کہ آخری فتح ہر صورت سچ ہی کی ہونی ہے تو پھر شاید اُسے سارا راستہ جھوٹ بول بول کر اپنے دامن کو داغدار ہی نہ کرنا پڑے۔ گویا عشقِ ڈارلنگِ مجازی میں مُنی ناحق بدنام! آخر کیوں؟ حبیب جالب یاد آگئے
طوافِ کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اڑا اے دل
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔