بُک شیلف

قیام پاکستان کے موقع پرکس طرح فسادات اور قتل و غارت کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے وہ ایک تاریخ ہے۔

قیام پاکستان کے موقع پرکس طرح فسادات اور قتل و غارت کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ، وہ ایک تاریخ ہے۔ فوٹو: فائل

علی بابا چالیس چور

قیمت:95روپے

ناشر:القا پبلی کیشنز، گلبرگ IIلاہور



واقعہ یوں ہے کہ اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ اپنا اپنا نصیب۔ نصیب کا لکھا کون بدل سکتا ہے؟ ایک باپ کی اولاد ہوتی ہے۔ ایک اشرفیوں میں کھیلتا ہے دوسرا جان سے جاتا ہے۔ قاسم' علی بابا کا بھائی' علی بابا جتنا مال دار ہونا چاہتا ہے۔ اپنی بیوی کی چالاکی سے وہ اس بھید کو پا لیتا ہے جس کی مدد سے علی بابا نے خزانہ حاصل کیا تھا۔ جنگل میں درخت' درخت کے پاس چٹان' چٹان میں دروازہ' اندر غار اور غار میں چالیس چوروں کا خزانہ۔ علی بابا اپنے بھائی کو دروازہ کھولنے کا اسم اعظم کھل جا سم سم اور بند کرنے کے لئے بند ہو جا سم سم بتا دیتا ہے۔ مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کے بعد قاسم دروازہ کھول تو لیتا ہے مگر بند کرتے ہوئے بند ہو جا سم سم بھول جاتا ہے۔ بڑے اٹکل پچو لگاتا ہے۔ دروازہ بند نہیں ہوتا۔ پھر ہوتا وہی ہے جو ہونا ہوتا ہے۔ اس کو مار مار کر لاش کے چار ٹکڑے کر کے دروازے کے دائیں بائیں دو دو ٹکڑے رکھ دیتے ہیں۔ پھر قاسم کی بیوی کی تشویش' علی بابا کا جنگل جا کر لاش واپس لانا' مرجینہ کی دانائی' قاسم کی تدفین' قاسم کی بیوہ سے علی بابا کی شادی' چالیس چوروں کا انتقام' مرجینہ کی وفاداری اور علی بابا کی جان کے دشمن چالیس چوروں کی موت۔ ایک معمے کے بعد دوسرا معمہ۔ دلچسپ سے دلچسپ واقعہ۔ چور بساط بچھاتے جاتے ہیں۔

مرجینہ اپنی بصیرت سے اپنے مالک کو بچاتی جاتی ہے۔ ہر وار روکنے میں کامیاب ٹھہرتی ہے۔ تدبیر تقدیر پر غالب نہیں آتی۔ تقدیر کے تدبیر پر غلبے کی داستان ایک سبھاؤ سے چلتی رہتی ہے۔ محمد سلیم الرحمن بچوں کے لئے لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ لکھنا بچوں کے لئے ہے۔ بڑوں کے لئے نہیں۔ علی بابا میں محمد سلیم الرحمن نے بچوں کے لئے عمدہ پیرائے میں دنیا بسائی ہے اور اپنے سہج' آسان اور رواں جملوں سے اس دلچسپ کائنات کے در ودیوار بنائے ہیں جن میں ثقالت نام کو نہیں۔ سہولت ہی سہولت ہے۔ بے ریائی ہی بے ریائی ہے۔ علی بابا کی اس کہانی میں سچ جیت جاتا ہے اور جھوٹ کو مات ہو جاتی ہے۔ مرجینہ اپنی دانائی سے نوکرانی سے گھر کی مالکن بن جاتی ہے۔ قاسم کی بیوی کا حسد اسے کیا کیا دن نہیں دکھاتا۔ بابا مصطفی اشرفیاں دیکھ کر اپنی اقدار بھول جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی کئی دلچسپ باتیں علی بابا چالیس چور میں موجود ہیں جو اتنی رواں نثر کے موجب محمد سلیم الرحمن کی حرف کے ساتھ کومٹ منٹ کا پتا دیتی ہے۔

میں نے پاکستان بنتے دیکھا

مصنف : الحاج شیخ مختار احمد اصلاحی،صفحات : ایک سو ساٹھ




یہ کتاب پاکستان کے قیام اور اس حوالے سے لوگوں کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پرکس طرح فسادات اور قتل و غارت کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ، وہ ایک تاریخ ہے۔ عام لوگوں کے علاوہ کئی مشہور شخصیات اور نامور لوگوں نے بھی اس سلسلے میں اپنے آنکھوں دیکھے واقعات بیان کیے۔ یہ کتاب نئی نسل کے لیے خاص طورپر بہت معلومات افزاء ہے جن کو اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں کہ پاکستان کا قیام کس قدر قربانیوں کے بعد عمل میں آیا۔کتاب میں مختلف سیاسی واقعات اور مراحل بھی بیان کیے گئے ہیں جو آگے چل کر قیام پاکستان کا پیش خیمہ بنے۔ کتاب پر درج ٹائٹل کے مطابق اس کا اہتمام الحاج شیخ مختار احمد اصلاحی نے کیا ہے جو کہ اس کے مولف اور مصنف بھی ہیں۔ وہ چیئرمین الفلاح نیشنل فائونڈیشن ہیں جس کاموٹو ''ناخواندگی کے خلاف تحریک'' ہے۔ نئی نسل کو پاکستان اور اس کے قیام کے حوالے سے آگاہی مہیا کرنے کے لیے یہ ایک اچھی کاوش ہے۔

مصر کی رقاصہ

مصنف: موسیو گیلے

ترجمہ: پطرس بخاری



سید اے ایس بخاری پطرس کی اکلوتی معرکۃ الآرا کتاب ''پطرس کے مضامین'' کے حجم کی اگر ایک اور کتاب پر لکھا ہو ''ترجمہ پطرس بخاری'' اور دیباچہ فیض احمد فیض تو کون ہم ذوق قاری ہے جو اس کتاب پر جھپٹ نہ پڑے گا۔ اس کتاب کا نام ہے مصر کی رقاصہ جو اناطول فرانس کے شہرہ آفاق ناول ''تائیس'' سے ماخوذ ہے۔ موسیو گیلے نے اس ناول کے کرداروں کے ناموں میں تھوڑا ردوبدل کر کے اسے ''اوپیرا'' (میوزیکل پلے) کی شکل میں پیش کیا۔ ڈرامے کا اصل موضوع ناول سے اوپیرا میں ڈھلنے کے باوجود برقرار رکھا گیا ہے جس میں جسم او روح کی کشمکش کے فلسفے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کہانی میں کہیں جسم روح کو شکست دے کر لذائذ کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور کہیں روح کے علمبردار دنیاوی لذائذ کو ممنوع قرار دے کر روحوں کی نجات کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ موسیو گیلے نے ناول کو ڈرامائی شکل میں لاتے ہوئے مکالموں میں اسلوب کی تازگی اور سادگی کو برقرار رکھا ہے اور کرداروں میں مکالماتی فضا پیدا کر کے کہانی بڑھائی ہے۔

تائیس ایک حسین رقاصہ ہے جو حسن کے ذریعے مسرتوں کے حصول کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے برعکس اتانئیل روح کی ابدیت کی بات کرتے ہوئے رہبانیت اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ رقاصہ تائیس اپنے حسن کی بدولت پوری دنیا کے تعیشات پر بنے محل کی مالک ہے جس کی ایک ایک چیز اس کے حسین جسم کی قیمت کے بدلے خریدی گئی ہے لیکن وہ اس پرتعیش مخملی محل کو چھوڑ کر اتانئیل کے وعظ ونصیحت کے بعد دنیا ترک کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے اور اپنے محل کو آگ میں جھونک کر شہر چھوڑ کر چل دیتی ہے۔ اس ڈرامے کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں راہب اتانئیل اور اس کے دیگر راہب ساتھیوں کے طعام کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ یہ تارک الدنیا لوگوں کی تصویر کشی ہے۔ اسی طعام کے دوران اتانئیل مصری رقاصہ تائیس کو گناہوں کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے دنیا کو اس کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے اس کے پاس جانے کی بات کرتا ہے مگر اس کا استاد راہب پالیموس اسے اس جنجال میں پھنسنے سے منع کرتا ہے۔ لیکن وہ ویرانے سے شہر کی طرف چل دیتا ہے۔

یہاں رقاصہ سے اس کے مکالمے ہوتے ہیں نتیجتاً تائیس تائب ہو جاتی ہے جبکہ اتانئیل اس کے حسن و جمال میں پھنس جاتا ہے۔ ایک پہلو سے ''مصر کی رقاصہ'' میں وکٹر ہیوگو کے ناول ''ہنچ بیک آف دی نوترڈیم''کی جھلک بھی نظر آتی ہے جس میں گلیوں بازاروں میں گانے والی ایک خانہ بدوش لڑکی نوترڈیم گرجے کے لاٹ پادری کا تقدس توڑتی گزرتی چلی جاتی ہے اور تھوڑی شباہت آسکر وائلڈ کے ڈرامے سلومی سے بھی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال مصر کی رقاصہ کے ضمیمہ جات میں فرانسیسی ادب کے دو اور مختصر شاہکاروں کا ترجمہ بھی گونگی جورو اور صید اور صیاد کے نام سے کیا ہے۔ گونگی جورو ایک مزاحیہ ڈرامہ ہے جس میں جب جدید علاج سے بیوی کی گویائی بحال ہو جاتی ہے تو وہ اس قدر زیاہ باتیں کرتی ہے کہ شوہر کو اپنے کانوں کے پردے پھڑوانے کی نوبت آ جاتی ہے۔ صید اور صیاد البتہ ایک میلو ڈرامہ ہے جس میں خودکشی کرنے والے مرد اور عورت کو ڈرامائی انداز میں ملوا دیا جاتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ گونگی جورو ہفت روزہ تہذیب نسواں لاہور میں 7 ستمبر 1929 کو شائع ہو چکا ہے جبکہ صید اور صیاد اکتوبر 1921ء کے مخزن میں شائع ہوا۔ زیرنظر کتاب کی تدوین حمیرا اشفاق نے کی جبکہ اسے سانجھ پبلی کیشنز مزنگ روڈ لاہور نے شائع کیا۔
Load Next Story