سفارت کاری جنگ پہ بھاری

عمران خان جب برسر اقتدار آئے تھے تو ان کے بہت سے سیاسی عزائم تھے


Anis Baqar October 25, 2019
[email protected]

عمران خان جب برسر اقتدار آئے تھے تو ان کے بہت سے سیاسی عزائم تھے۔ ان میں سعودی عرب اور ایران کو قریب تر لانے کا بھی عزم تھا۔ مگر ان دنوں سعودی عرب کو اپنی تیس ملکوں سے وابستہ افواج پر اعتماد تھا اور وہ چار سال سے زائد جاری حوثیوں کے خلاف جنگ بند کرنے سے گریزاں تھے۔

اس لیے عمران خان فوری طور پر سعودی ایران تعلقات میں قربت پیدا نہ کرسکے۔ مگر یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں گزشتہ کئی برسوں میں بھی فتح کے قریب نہ پہنچ سکی جس کے بعد جنگی صورتحال میں یکسر تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس بات کے امکان پیدا ہوگئے کہ چار سال سے زائد چلنے والی یمن کی پراکسی وار خاتمے کے قریب ہے ۔ درحقیقت ایران اور سعودی عرب کی تلخیوں کے درمیان جنگی صورتحال میں اضافہ امریکی اسلحہ فروخت کرنے کا منصوبہ بھی کارفرما ہے۔

امریکا میں ٹرمپ جونہی برسر اقتدار آئے انھوں نے اربوں روپے کا اسلحہ سعودی عرب پہ منڈھ دیا۔ درحقیقت ٹرمپ کی سفارتکاری میں سفارتی پہلو کو نظرانداز کرکے جنگی پہلو کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہی امریکی کاروباری رہنماؤں کا اصول ہے۔ تو پھر کیونکر وہ سعودی اور ایرانی سفارت کاری کو نمایاں مقام دیتے۔ لیکن عمران خان نے جو عزم کر رکھا تھا اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے انھوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور پاکستان کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایران کا دورہ کیا جس میں انھوں نے ایرانی وزیر اعظم حسن روحانی سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات محض دعا سلام نہ تھی بلکہ عمران خان نے سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری کا تفصیلی جائزہ بھی لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایرانی مجلس کے اسپیکر علی لاریجانی نے باقاعدہ سعودی اسپیکرکو ملاقات کی دعوت دی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ گزشتہ ہفتے بقول الجزیرہ کے نمایندوں کے شاہ سلمان نے اپنے ایک انٹرویو میں ایران سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیا۔ اس طرح خلیج میں جنگ کے بادل چھٹنے لگے۔ ورنہ صورتحال ایک بڑی جنگ کی طرف دونوں ملکوں کو دھکیل رہی تھی۔ یہ جنگ گزشتہ عرب جنگوں سے زیادہ خطرناک اور وسیع تر ہوسکتی تھی۔ کیونکہ اس جنگ میں ایران کے ساتھ اس کے ساتھی بھی شریک ہوسکتے تھے اور اس جنگ کے مضر اثرات پاکستان پر پڑنے کے بھی امکانات پیدا ہوسکتے تھے۔

کیونکہ ایران اور ترکی یہ دو واحد ممالک ہیں جو کشمیر کاز پر پاکستان کے حمایتی ہیں۔ جب کہ عرب امارات اور ان کے ہمنوا کشمیر مخالف راہوں پر گامزن ہیں۔ اس طرح عمران خان نے نہ صرف عرب ایران جنگ بندی کی تاریخی بنیاد رکھ دی اور ساتھ ہی کشمیر کاز کو بھی مضبوط تر کردیا۔ جب کہ پاکستان کے دیگر لیڈروں بشمول حزب اختلاف کے نہ انھوں نے کشمیر کاز کے لیے کوئی زبانی کلامی آواز بھی بلند نہ کی۔ اس لیے پاکستانی عوام حزب مخالف کے دھرنے اور مرنے کے نعروں کو نظرانداز کر بیٹھے ہیں۔ اور انھیں یقین ہے کہ جلد یا بدیر ان کی آسودگی کے دن لوٹ آئیں گے۔

ابھی بھی پاکستانی عوام کی آنکھوں میں ریاست مدینہ کا خواب موجود ہے۔ بہرحال اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ سعودی ایران تعلقات کی بحالی کوئی آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ ایرانی انقلاب کے بعد سعودی ایران کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ ظاہر ہے تقریباً چوالیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ کشیدگی میں نشیب و فراز آتا رہا۔ ادھر چار سال قبل حوثیوں کی جنگ میں ایران کی طرف سے حوثیوں کی سیاسی اور عسکری مدد کرنے سے کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔ یہی وہ دور آیا جس سے ایران سعودی عرب پراکسی وار ہوا۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال گزشتہ ماہ پیدا ہوچلی تھی کہ اگر سعودی فرمانروا صبر اور تحمل کا دامن نہ تھامتے تو دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے حالات پیدا ہوجاتے۔

اسی دوران عمران خان نے عالمی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے سعودی ایران مصالحت کی آواز بلند کردی اور مسائل کے حل کے لیے سفارتکاری کا متبادل راستہ پیش کردیا۔ ظاہر ہے چار سال تک دونوں طرف جانوں کا زیاں اور بقول اقوام متحدہ کے حوثیوں پر بمباری نے بھی کوئی حل پیش نہ کیا اور نہ ہی یمن کی ناکا بندی نے کوئی فوجی حل پیش کیا بلکہ سعودی کاز کو بے تحاشہ نقصان پہنچا۔

جنگ بندی سے نہ صرف حوثیوں اور یمن کے باشندوں کے حالات بہتر ہوں گے بلکہ سعودی عرب معاشی طور پر مستحکم ہو گا۔ جنگ کا تسلسل بے فیض کاموں میں سے ایک کام ہے اور یہ بڑا اسلحہ بنانے والے ممالک کے لیے افزائش زر کا ذریعہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو زبانی کلامی گفت و شنید ہے یہ ایران یمن اور سعودی عرب میں کب اور کتنے عرصے میں عمل میں آئے گی۔ کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ سعودی عرب کے بھی کچھ مطالبے ہوں گے اور یمنی جنگجوؤں کو ان کے قریب تر لانے میں ایران کا بہت اہم کردار ہوگا۔

ساڑھے چار سالہ جنگ میں اتحادی افواج کے سپہ سالاروں نے اپنی سپاہ گری دیکھ لی کہ گوریلا جنگ روایتی جنگ نہیں ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فیصلے ہوں گے تو وہ ایسے ہی ہوں گے جو ہر فریق کے لیے قابل قبول ہوں۔ یہ مرحلہ مہینوں گفت وشنید کا ہے۔ ابھی اس دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ سہ طرفہ تیاری وجود میں آرہی ہے۔ یمن اور سعودی عرب اختلاف کی بنیاد یہ چار سالہ حالات نہیں بلکہ ان میں فرقہ وارانہ دوری کا بھی پہلو نمایاں ہے۔ ایسی صورت میں تصوراتی اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب یمن کو اپنی فیڈریشن میں قائم رکھنا چاہے گا۔ جب کہ حوثی خود کو ایک آزاد اسلامی ریاست جو نظریاتی طور پر ایران کی حمایت یافتہ ہوگی، رکھنا چاہیں گے۔ لہٰذا یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ امن معاہدہ بڑی پیچیدگیوں کا عمل ہے۔ اور عمران خان نے ایسے اہم اور پیچیدہ معاملے میں مصالحت کے لیے قدم رکھا ہے۔

پاکستان میں اب تک جو بھی حکمران برسر اقتدار آئے انھوں نے ایران اور سعودی تعلقات کو قریب تر لانے اور ان میں مفاہمت پیدا کرنے کے لیے کبھی کوئی قدم نہ اٹھایا۔ حالانکہ پاکستان اپنی معاشی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے پھر بھی عمران خان نے اپنے حلیف ممالک کے درمیان کشیدگی میں خاتمے کو اولیت دی تاکہ ہمسایہ ممالک اگر سکون سے رہیں گے تو خطے میں جنگ کی صورتحال پیدا نہ ہوگی اور ایسی صورتحال پیدا نہ ہوگی کہ پاکستان کو کھلم کھلا کسی ایک کا ساتھ دینا پڑے۔ پاکستان کو غیر جانبدار رکھنے کے لیے عمران خان نے یہ قدم اٹھایا۔

اس طریقے سے انھوں نے وہ ممالک جو کشمیر کاز کی کھل کر موافقت کرتے رہے اور وہ ممالک جو کشمیریوں کی جدوجہد سے لاتعلق رہے ان کو بھی قریب تر لاکھڑا کیا۔ جنگی صورتحال میں ریاستیں اپنے دفاع کے لیے ملک کا سرمایہ جھونک دیتی ہیں جس سے غربت میں اضافہ یقینی ہے۔ اس طرح پاکستان کے موجودہ حاکم جو نہ ماضی میں کسی بڑے سیاسی محور کی گردش میں مصروف رہے۔ انھوں نے یہ اہم کام کرنے میں نمایاں خدمت انجام دی کہ تین ملکوں کے عوام کو جنگی حصار میں آنے سے روک دیا۔ ظاہر ہے یہ اتنا بڑا اور اہم پہلو ہے کہ جس کی ابتدا میں وقت درکار ہے اور اس پر مباحثہ ایک طویل سیاسی تیاری کا طالب ہے۔

پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے میں جو فوائد حاصل ہوں گے وہ ملک کے لیے ناقابل بیان معاشی پہلو ہوں گے۔ جس کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستانیوں کے لیے اس کے نتائج یہ ہوں گے کہ پاکستانی ہنرمندوں کے راستے پورے شرقِ اوسط میں کھل جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں