تجّار کی دھوکا دہی عیب بتائے بغیر مال فروخت کرنے کی مذمّت و سزا

جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر عیب کو ظاہر نہیں کیا تو اُس پر ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کا غضب رہے گا

جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر عیب کو ظاہر نہیں کیا تو اُس پر ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور اس کے فرشتے ہمیشہ اُس پر لعنت کرتے رہیں گے

ISLAMABAD:
دھوکا ایک ایسا قبیح اور ناپسندیدہ عمل ہے جسے ہر صورت میں اسلام نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے اور ایِسا کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمّت بیان کی ہے۔ ویسے تو دھوکا زندگی کے کسی بھی معاملے میں جائز نہیں لیکن لین دین اور خرید و فروخت کے معاملے میں تنبیہہ کے ساتھ اِس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر عیب کو ظاہر نہیں کیا تو اُس پر ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور اﷲ تعالیٰ کے فرشتے ہمیشہ اُس پر لعنت کرتے رہیں گے۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ فروخت کنندہ اپنے خریدار کی کم علمی اور سادگی سے فائدہ اُٹھا کر اور اِس خوف سے کہ اگر اصلیت خریدار کو بتادی جائے تو وہ مال نہیں خریدے گا، اپنی ناقص اور عیب دار چیز فروخت کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے خریدار کو نہ صرف مالی نقصان بل کہ ذہنی کوفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ اسلام کا یہ بنیادی اُصول ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی سے نقصان اُٹھاؤ، یعنی نہ کسی کو دھوکا دو نہ ہی کسی سے دھوکا کھاؤ۔

اور چوں کہ کسی چیز کے عیب کو ظاہر کیے بغیر فروخت کرنا دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے لہٰذا اِسے ناجائز قرار دیا گیا اور ایسا کرنے والے کو یہ وعید سنائی گئی کہ اُس پر اﷲ تعالیٰ غضب فرماتا رہے گا اور ایسے شخص پر اُس کے مقرّب فرشتوں کی لعنت برستی رہے گی۔ ایک مسلمان کے لیے اِس سے بڑھ کر تازیانہ اور کیا ہوگا کہ اُس کا ربّ اُس سے ناراض ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی ناراضی اور غضب سے محفوظ و مامون فرمائے۔ آمین


رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لہذا جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو کوئی عیب دار چیز فروخت کرے تو عیب ظاہر کیے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلّی اﷲ علیہ وسلم غلّے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو اُس میں ہاتھ ڈالا اور نمی محسوس کی۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وسلم نے فروخت کنندہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اُس نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم یہ بارش کے پانی سے بھیگ گئی ہے۔ اِس پر رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر تم نے اِسے اُوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ دیکھ لیتے، سن لو جو کسی کو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔

اِن احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مالِ تجارت میں کسی قسم کا عیب ہو، تو فروخت کنندہ پر یہ واجب ہے کہ وہ خریدار کو اُس عیب سے آگاہ کردے اور اُس کا چھپانا ناجائز و حرام ہے۔ لہذا اگر فروخت کنندہ دھوکا دینے میں کام یاب ہو بھی گیا تو اِس تجارت سے حاصل کردہ منافع اُس کے لیے حلال و طیب نہیں ہوگا بل کہ حرام شمار کیا جائے گا۔

جس کی وجہ سے اس کے مال میں سے برکت ختم ہوجائے گی اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کاروباری نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو دھوکا دینا خود فروخت کنندہ کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ کیوں کہ وہ کسی کو چند مرتبہ ہی دھوکا دے سکتا ہے اور بالآخر خریدار جب اُس کی دھوکا دہی سے واقف ہوتا ہے، تو پھر نہ صرف فروخت کنندہ شرمندہ ہوتا ہے بل کہ منڈی میں اُس کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے اور خریدار آئندہ کے لیے اُس سے معاملہ کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ لہذا اُسے تھوڑے سے وقتی فائدے کے عوض ہمیشہ کا نقصان مل جاتا ہے۔ عقل مند تاجر وہ ہوتا ہے، جو پائیدار فائدے کو وقتی فائدے پر ترجیح دیتا ہے۔

اﷲ تعالی ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کے اصولوں اور ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دنیاوی زندگی کو بہتر بسر کرنے کے ساتھ اپنی آخرت کی ابدی زندگی میں بھی کام یابی و کام رانی عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story