کتاب‘ قربانی کا بکرا اور اردو کانفرنس
قائداعظم لائبریری اب تک تو لائبریری کے سوا بس ایک رسالہ ’’مخزن‘‘ پر قانع تھی۔ خیر یہ بھی بہت غنیمت تھا۔ ہمارے یہاں...
قائداعظم لائبریری اب تک تو لائبریری کے سوا بس ایک رسالہ ''مخزن'' پر قانع تھی۔ خیر یہ بھی بہت غنیمت تھا۔ ہمارے یہاں گنتی کی قابل ذکر لائبریریاں ہیں بھی تو بس لائبریری کی حد تک رہتی ہیں۔ قائداعظم لائبریری نے لائبریری کی حد سے تھوڑا بڑھ کر ایک عالمی ادبی رسالہ بھی نکال ڈالا اور ''مخزن'' نام رکھ کر سر عبدالقادر کے نامی گرامی ادبی رسالہ مخزن کی یاد کو تازہ کر دیا۔
مگر اس مرتبہ اس نے کتابوں کی نمائش کے بہانے ایک اچھا خاصا کتابی جشن بھی منا ڈالا۔ نمائش کے ساتھ لائبریرین حضرات کو اکٹھا کر کے لائبریری کے مسائل پر بحث مباحثہ کر ڈالا۔ بچوں کو بھی اس کتابی جشن میں شریک کر لیا۔
نمائش دیکھنے ہم بھی گئے۔ اچھی بھلی رونق تھی۔ کتابوں کے اسٹالوں پر کتابوں کو خالی الٹ پلٹ کرنے والے بھی نظر آ رہے تھے اور کتابوں کے خریدار بھی۔ ہم نے ایک کتب فروش سے چپکے سے پوچھا کہ خریداروں کا کوئی ایسا ہجوم تو نظر آ رہا۔ کتابوں کی نکاسی کیسی ہو رہی ہے۔ بولا کہ اچھی خاصی ہو رہی ہے مگر ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ بقر عید سر پہ کھڑی ہے اس لیے سیل اتنی نہیں ہو رہی جتنی ہونی چاہیے تھی۔
ہم نے سوچا کہ یہ عزیز ٹھیک کہتا ہے۔ کتابوں کے کتنے خریداروں کو تو قربانی کے بکرے چر گئے۔ مسئلہ یہ آن پڑا کہ شریف آدمی کتاب ہی خرید لے یا بکرا خرید لے۔ کتاب خریدتا ہے تو بکرا ہاتھ سے جاتا ہے۔ بکرا خریدتا ہے تو کتاب ہاتھ سے پھسلتی نظر آتی ہے۔ مگر کتاب کی خریداری تو کوئی فرض نہیں ہے تو شرفاء نے کتاب کی قربانی دے کر قربانی کا بکرا خریدا۔
مگر کتابی جشن کے پیچھے پیچھے ایک اور جشن آ گیا۔ اسے جشن اردو کہہ لیجیے۔ روزنامہ ایکسپریس کے ادارے کی طرف سے یہ اس نوع کا دوسرا جشن تھا۔ اس مرتبہ انھوں نے کراچی سے نکل کر لاہور میں یہ جشن سجایا۔ اور کتنی دور دور سے اردو زبان کے علما و محققین کو بلایا۔ ترکی سے' تاشقند سے' انگلستان سے' ہندوستان سے' بنگلہ دیش سے' کینیڈا سے۔
یہ دو روزہ سیمینار ہے اور کچھ ان ارادوں کے ساتھ کہ اردو زبان کو پاکستان ہندوستان میں جن مسائل سے سابقہ ہے اور جتنی لسانی گتھیاں ہیں ان سب کو سلجھانا ہے۔ خیر ابھی تک ہم نے پہلے دن کا ہی جلوہ دیکھا ہے۔ کیسی کیسی بحث ہوئی ہے کہ جو عالم، جو محقق شروع ہو گیا وہ تھمنے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔
سب سے رنگارنگ بحث اس سیشن میں ہوئی جہاں موضوع بحث تھا ''دیگر پاکستانی زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی'' سب سے پہلے تو زبانوں کی ماہر نجیبہ عارف نے ایک کثیر اللسانی رنگ باندھا اور آپ جانیں کہ زبان تو ہے ہی اولاً نسوانی مشغلہ۔ اگر وہ عالم السنہ بن جائے تو سمجھ لو کہ کڑوا کریلا نیم چڑھا۔ انشاء اللہ خاں نے اپنی لسانیاتی تصنیف ''دریائے لطافت'' میں زبان پر علمی بحث کرتے کرتے بول چال کا کیا رنگارنگ کہ لکھنؤ دلی کے جتنے محلے اتنی ان کی بولیاں۔ ادھر میر غفر غینی اپنی غین گزیدہ اردو بولی بول رہے۔ ادھر بی نورن اپنی نسوانی رنگ میں چہک رہی ہیں۔ ادھر کوئی پٹھان صاحب زبان میں اپنی پٹھانی چھانٹ رہے ہیں مگر یہاں ایک پنجابی گھر ہے اور اس میں رنگ رنگ کی بولی۔ کوئی بی بی پنجابی میں رواں ہے۔ کسی کی قینچی سرائیکی میں چل رہی ہے۔ کوئی دلی والی بی ہمسائی اس طرح نمودار ہوتی ہے کہ سروطے سے دلی کی بیبیوں کی بولی ٹھولی کی چھالیاں کتر رہی ہے۔ کوئی کوئی اس میں اردو کا ٹکڑا لگاتی ہے۔ کوئی کوئی نوخیز انگریزی کی گٹ پٹ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ ارے یہ پنجابی گھر ہے یا مینار بابل ہے اور یہ نجبیہ عارف ہیں یا انشاء اللہ خاں اپنی ''دریائے لطافت'' کا نیا ایڈیشن مرتب کر رہے ہیں۔
نجیبہ کے بعد نجیب' ڈاکٹر نجیب جمال نے نہلے پہ دہلا مارا۔ انھوں نے قدیم زبانوں کے جنگل کو کھوند ڈالا۔ پھر آئے ڈاکٹر انوار احمد انھوں نے اپنی عالمانہ شان دکھائی۔ پھر آئے ڈاکٹر خواجہ ذکریا۔ ارے کوئی تو ایسا آ یا کہ جس نے ایران توران کی نہیں لی۔ معاملہ کی بات کی اور زمینی حقائق سے غرض رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو لسانی غیرلسانی جھگڑے ہیں وہ سب غریبی مفلسی کا شاخسانہ ہیں۔ غریب سوچتا ہے کہ میرا صوبہ الگ ہو تو میرا اس میں راج ہو گا۔ میری بولی' میرا میرا راج۔ بس میرے سارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔ مگر کیا علیحدگی سے ایسا معجزہ رونما ہو گا۔ ہاں اس سے سیاستدانوں اور مفاد پرستوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ احساس محرومی کی سلگتی آگ کو بھڑکا کر شعلے بنا دیتے ہیں پھر انھوں نے کچھ مسئلہ کے حل کی بات کی۔ کہا کہ پاکستان میں جو اتنی بہت سی زبانیں ہیں بظاہر مختلف اور متضاد ہیں۔ اصلاً سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ساخت ایک... ڈھانچہ ایک' فقروں کی بناوٹ ایک سی۔ باقی اب انگریزی بھی ان زبانوں پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ سو اگر اردو میں علاقائی زبانوں کا کوئی لفظ' کوئی لہجہ آ جائے تو کیا مضائقہ ہے اور انگریزی کے ایسے لفظ ایسی اصطلاحیں جن کا متبادل اردو میں نہیں ہے اور اگر ہے تو نامانوس اور اجنبی ہے۔ سو کیا ہرج ہے کہ ترجمہ کے چکر میں پڑے بغیر اسے قبول کر لیا جائے۔ ہاں ٹی وی چینلوں پر جس انگھڑ طریقے سے اردو میں انگریزی کا پیوند لگایا جاتا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اس ساری بحث کو عبداللہ حسین نے اپنے رنگ میں سمیٹ کر بحث کو ٹھکانے لگایا۔
ارے ہاں ہم اختتامی اجلاس کو تو بھولے ہی جا رہے تھے جس کی صدارت ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے کی تھی۔ ڈاکٹر عطش درانی کہہ رہے تھے کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور گلوبلائزیشن کا دوردورہ ہے اور یہ گلوبلائزیشن والے ایک ہی سانس میں دو دو متضاد باتیں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زبانوں، ان کے لہجوں کو تحفظ دینا ہے۔ ساتھ ہی میں یہ کہتے ہیں کہ زبانیں تو لکھوکھا ہیں۔ اب ان کی چھنٹائی کا وقت ہے۔ چھنٹ چھنٹا کر گنتی کی زبانیں رہ جائیں گی۔ اس صورت حال سے اردو کو نبٹنا ہے ورنہ حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی۔
ترکی کے ڈاکٹر خلیل توقار نے رسم الخط کی تبدیلی کی تجویز کا ذکر کرتے ہوئے اپنے یہاں ترکی زبان کا جو رسم الخط بدلا گیا تھا اس تجربے کا اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں کا ذکر کیا اور خبردار کیا کہ ایسا مت کرنا۔
اس مسئلہ پر بنگلہ دیش کے مندوب ڈاکٹر محمود الاسلام نے لمبی گفتگو کی۔ تاشقند کے ڈاکٹر تابش نے اپنے یہاں پاکستانی سفارت خانے کی ایک قومی تقریب کا ذکر کیا جہاں صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان دونوں کے پیغامات انگریزی میں سنائے گئے۔ سفیر صاحب نے بھی انگریزی میں تقریر کی۔ میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس ملک کی قومی زبان انگریزی ہے۔
پوری تقریر تقاضا کرتی ہے کہ اسے پورا نقل کیا جائے مگر احفاظ الرحمن صاحب نے جو اختتامی تقریر کی اس کا خلاصہ بھی ہمیں مشکل نظر آ رہا ہے اور یہی صورت عطش درانی کی تقریر کی ہے۔ یہ مکمل شکل میں چھاپ کر پیش کی جائیں تب ہی ان سے انصاف ہو سکے گا۔