کشمیر کی آزادی میں قبائلیوں کا کردار

1947 میں پاکستان کی مخالفت بھارت نواز قیادت کی سب سے بڑی غلطی تھی، جس کا خمیازہ آج بھی کشمیری قوم بھگت رہی ہے

کشمیریوں کی جانب سے اپیل کے بعد قبائلیوں نے بلوائیوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

22 اکتوبر 1947 کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم دن سمجھا جاتا ہے۔ بعض افراد نے بھارتی بیانیے کو اپنا بیانیہ بنا کر قوم کو پیش کیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اسی روز ہونے والے واقعات کو بنیاد بناکر بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا متنازعہ معاہدہ کیا۔ اسی واقعے کے پانچ روز بعد یعنی 27 اکتوبر کو بھارت نے ریاست میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ یوں خطہ جنت نظیر پر بھارت نے قبضہ کرلیا۔ کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ 22 سے 27 اکتوبر کے دوران کیا واقعات پیش آئے، آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

تقسیم برصغیر کے ساتھ ہی کشمیری عوام اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہوگئے تھے۔ مظفرآباد نئی ریاست پاکستان کی سرحد کے قریب واقع تھا، تاہم یہ بات سب کےلیے حیران کن ہوگی کہ مظفرآباد کے مسلمان سیاسی طور پر بھی اس قدر متحرک نہ تھے جس قدر جموں، پونچھ اور دوسرے علاقوں میں تھے۔ یہاں کی مسلم سیاست بھی وادی کی طرح مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس میں منقسم تھی۔ عوام کی غالب اکثریت اور قیادت کا ایک حصہ اگرچہ مسلم کانفرنس کے نظریے کے حامی تھا، تاہم ایک بااثر طبقہ نیشنل کانفرنس سے وابستہ تھا، جس کے باعث مسلم آبادی سیاسی طور پر کافی حد تک کمزور تھی، جبکہ ہندو اور سکھ کامل یکسوئی کے ساتھ ڈوگرہ سرکار کے وفادار اور خیرخواہ تھے۔

1873 کے سرکاری گزیٹر کے مطابق مظفرآباد شہر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا تناسب شہر میں 5:7 کا بیان کیا گیا ہے۔ غالب امکان ہے کہ 1947 میں بھی یہی تناسب برقرار رہا ہوگا۔ تاہم دیہی علاقوں میں مسلمان آبادی نوے فیصد سے زائد تھی۔ مسلمان سالہا سال سے ہندو ساہوکاروں کے سود درسود کے پھندے میں گرفتار تھے۔ شہر میں مسلمان معمولی عددی اکثریت کے باوجود ہندوؤں کے سامنے دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے تھے، کیونکہ کاروبار زیادہ تر ہندوؤں کے پاس تھا، جبکہ مسلمان زیادہ تر مختلف پیشوں جولاہے، شال باف، تیلی، لوہار، کمہار، ترکھان وغیرہ سے وابستہ تھے۔

جغرافیائی طور پر پاکستان کے قریب ہونے کے باوجود یہاں کی ہندو آبادی سیاسی طور پر کافی متحرک تھی۔ اس آبادی پر آر ایس ایس، مہاویردل اور ہندو مہاسبھا کے گہرے اثرات تھے۔ مظفر آباد جہاں پاکستان کے قریب تھا، وہیں جغرافیائی لحاظ سے بھی اہم تھا، کیونکہ یہ پاکستان کی سرحد پر راولپنڈی سے سرینگر جانے والی قومی شاہراہ پر واقع تھا۔ اس شہر کو ڈوگرہ سرکار کےلیے محفوظ بنانا، اسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے شہر سے مسلمانوں کا صفایا کرنا لازمی تھا۔

گورداسپور کے بھارت میں شامل ہونے کے بعد کشمیری اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوگئے تھے، جبکہ ہندوؤں کےلیے کشمیر پر قبضہ کرنا آسان ہوگیا تھا۔ اسی لیے مظفرآباد میں آر ایس ایس اور دیگر انتہاپسندوں کے جتھوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان سب کا مقصد جموں کی طرح مظفر آباد سے بھی مسلمانوں کا صفایا کرنا تھا۔ دوسری جانب مظفر آباد کے شہری بھی پریشانی کا شکار تھے۔ انہیں لمحہ بہ لمحہ ہندوؤں کی تیاریوں کی خبر مل رہی تھی۔ ڈوگرہ افواج نے شہر کے مسلمانوں سے اسلحہ جمع کرلیا تھا، ہندوؤں نے بھی مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔

سرینگر کے معروف صحافی، مصنف اور محقق پی جی رسول نے اپنی کتاب "مسئلہ کشمیر کی تاریخی اصلیت" میں ڈوگرہ حکومت کے سرکاری ریکارڈ کی روشنی میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ دفاعی پٹی قائم کیے جانے کی حکمت عملی کا انکشاف کیا ہے۔ جس کے مطابق ڈوگرہ فوج، ریاستی پولیس و انتظامیہ اور مسلح ہندو اور سکھ تنظیموں کے ذریعے اس حفاظتی پٹی سے مسلمانوں کا صفایا کیا جانا مطلوب تھا، تاکہ پاکستان کی جانب سے کسی قسم کی ممکنہ دراندازی کو روکا جاسکے۔ اس حکمت عملی میں پاکستان کی سرحد سے ملحقہ شہروں، قصبات اور دیہات کے مسلمانوں کو غیر مسلح کرنا، انہیں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرکے علاقے سے پاکستان کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا اور اگر انخلا پر تیار نہ ہوں تو قتل عام کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنا شامل تھا۔

اس حکمت عملی کے تحت پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ڈوگرہ فوج کی نفری بڑھادی گئی اور مغربی پاکستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندو اور سکھ انتہاپسند تنظیموں کے مسلح جتھے ان علاقوں میں آن پہنچے۔ مظفرآباد ان کا خصوصی ہدف تھا۔ مظفرآباد کے مسلمانوں سے ہر قسم کا اسلحہ ضبط کرلیا گیا جبکہ ہندو اور سکھ تربیت یافتہ مقامی و غیر مقامی نوجوانوں کو مسلح کردیا گیا۔ یہ مسلح نوجوان روزانہ مارچ پاسٹ کرتے، اسلحہ لہراتے اور کھلے بندوں مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکیاں دیتے تھے۔ مسلمان خوفزدہ ہوکر اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے اور اپنے بھیانک انجام کے منتظر تھے۔

مسلم لیگ صوبہ سرحد کے رہنما خان عبدالقیوم خان بنیادی طور پر کشمیری تھے۔ انہوں نے قبائلی زعما کو مسلمانان کشمیر کی مدد کےلیے آمادہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قبائلی عمائدین نے کشمیر پر حملے کےلیے عید کے بعد کا وقت مقرر کیا تھا۔ مظفرآباد کے شہریوں کو جب ہندوؤں کے حملے کی منصوبہ بندی کی اطلاع ملی تو وہ قبائلی عمائدین کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ ہندو عید کے اجتماعات پر حملہ کرکے مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کرنا چاہتے ہیں۔ اس فریاد کے بعد عید سے پہلے یعنی 22 اکتوبر کو مظفرآباد پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔

'''تاریخ کشمیر'' کے مصنف سید محمود آزاد اپنی کتاب میں حملے کی تفصیلات بیان کرتے ہیں "عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ (22 اکتوبر کی صبح) جونہی گولیاں چلنا شروع ہوئیں، مظفرآباد کے تمام ہندو اور سکھ مسلح ہوکر بازار میں نکل آئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید نلوچھی گردوارہ کے سکھوں نے بجائے 25 تاریخ کے 22 تاریخ کو ہی حملہ کردیا ہے۔ نلوچھی گردوارے میں ہندوؤں اور سکھوں کے مابین طے ہوا تھا کہ 25 تاریخ کو مظفرآباد شہر پر حملہ کرکے تمام مسلمانوں کو ختم کردیا جائے گا۔ اس مقصد کےلیے انہوں نے مختلف اطراف سے بندوقیں اور تلواریں لاکر آپس میں تقسیم کردی تھیں، جس کی بھنک مسلمانوں کو پڑچکی تھی"۔


کتاب "کشمیر آزادی کی دہلیز پر" کے مصنف غلام احمد پنڈت جو کہ سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری آزاد کشمیر رہ چکے ہیں وہ رقم طراز ہیں "قبائلی مجاہدین کشمیری مسلمانوں کی مدد پر آمادہ تھے اور نماز عید کے بعد جہاد پر روانگی کا فیصلہ کرچکے تھے مگر بقول حاجی لسہ جو میر مظفرآباد کے وفد نے استدعا کی کہ روانگی ہر صورت میں عید سے پہلے ہونی چاہیے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ منصوبے کے مطابق ڈوگرہ حکومت کی درپردہ مدد سے سکھ اور ہندو اجتماعی طور پر مسلمانوں کا قتل عام کردیں گے، اگر وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئے تو اس امداد کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ لہٰذا انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کافی غوروفکر کے بعد کشمیری وفد کو چند قبائلی سرداروں کے ہمراہ جمرود اور ملحقہ دروں میں بھیج دیا تاکہ وہ قبائلی ملکوں سے براہ راست درخواست کریں اور انہیں بتائیں کہ ان وجوہ کی بنا پر کوچ کی تاریخ میں تبدیلی مطلوب ہے۔ خوش قسمتی سے انہیں اس مقصد میں کامیابی ہوئی اور مظفرآباد آمد کی تاریخ 22 اکتوبر مقرر ہوئی"۔

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ قبائلی افراد نے خود حملہ نہیں کیا بلکہ مظفرآباد کے شہریوں کی جانب سے بارہا اپیل کرنے کے بعد ہی قبائلیوں نے بلوائیوں کے خلاف کارروائی کی۔ قبائلی مجاہدین پر قاتل عام اور لوٹ کا الزام عائد کیا جارہا ہے، جبکہ مظفرآباد میں اس وقت تعینات ڈپٹی کمشنر دونی چند مہتہ کی بیوی کرشنا مہتہ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ کرشنا لداخ کے گورنر کرنل رام کی بیٹی بھی تھیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں ''21 اکتوبر کی رات مقامی فوجی کمانڈر پولیس کا ضلعی سربراہ ودیگر محکموں اور اداروں کے افسران ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ پر دعوت میں مدعو تھے۔ رات دیر تک بات چیت اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔

صبح کرشنا مہتہ گولیوں کی آواز سن کر بیدار ہوئی۔ اس نے اپنے پتی ڈپٹی کمشنر کو جگانے کی کوشش کی اور اسے بتایا کہ فائرنگ کی آواز آرہی ہے۔ اٹھ کر صورت حال کا جائزہ لیں لیکن دونی چند مہتہ نے سنی اَن سنی کردی اور کہا کہ ہمارے اپنے لوگ ہیں، اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کرشنا کہتی ہے کہ گولیوں کی آواز قریب سے قریب تر آتی جارہی تھی۔ اس نے خاوند کو دوبارہ جگایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کس طرح اطمینان سے سویا ہوا ہے، ممکن ہے دشمن نے حملہ کردیا ہو؟ کیا اسے رات کو فوجی کمانڈر نے بتایا تھا کہ ہمارے بندے فوجی کارروائی یا مشق کریں گے؟ کرشنا کے اصرار پر وہ اٹھا، سونے کے لباس میں ہی سلیپر پہن کر پستول ہاتھ میں لے کر صورتحال کا جائزہ لینے باہر نکلا اور قبائلی مجاہدین کی گولیوں کا نشانہ بن گیا''۔ ڈپٹی کمشنر دونی چند مہتہ کا اطمینان اور اصرار کہ "یہ اپنے لوگ ہیں جو گولیاں چلارہے ہیں، اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں"۔

کرشنا شوہر کی ہلاکت کے بعد ایک بیٹے اور چار بیٹیوں کو لے کر اپنی رہائش گاہ سے فرار ہوگئی اور مظفرآباد کے نواحی علاقوں خشکڑ، رنجاٹہ، بوتھا اور کھلہ میں مقامی مسلمانوں کے گھروں میں پناہ گزین رہی۔ اس عرصہ میں انہیں کھانے پینے اور رہائش کی مشکلات کا سامنا رہا، کیونکہ مقامی غریب مسلمان تو مکئی کی روٹی اور ساگ لسی کھانے کے عادی تھے اور معمولی بچھونے پر سوجاتے تھے جبکہ وہ ایک امیر زادی تھی۔ تاہم چند روز بعد جب دومیل میں ہندو پناہ گزینوں کےلیے کیمپ قائم کیا گیا تو وہ اس کیمپ میں آگئی۔ اس کو پہلے اپنے سرکاری مکان میں رہائش فراہم کی گئی جو بطور وزیر وزارت اس خاندان کے زیر استعمال تھا۔ قبائلی انتظامیہ انہیں وہی خوراک فراہم کرتی تھی جو اس کو اور اس کے بچوں کو اپنے دور اقتدار میں میسر تھی اور وہی لباس انہیں فراہم کیا جاتا تھا جس کی وہ خواہش کرتے تھے۔

ایک اکیلی عورت بچوں کے ہمراہ اس مکان میں شائد محفوظ خیال نہ کرتی تھی، لہٰذا اسے سلطانی مسجد کے امام مولوی عبدالرحمٰن کے گھر منتقل کردیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کے اس کا خاوند اس جنگ میں کام آیا تھا جس کا مداوا ممکن نہ تھا، تاہم مقامی قبائلی انتظامیہ اور حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے اس کی ہر ممکن دلجوئی کی گئی۔ مظفرآباد کے منتظم قبائلی کمانڈر کو اس نے اپنا منہ بولا بھائی بنایا ہوا تھا۔ جب کمانڈر واپس اپنے علاقے میں جانے لگا تو کرشنا نے اسے راکھی باندھی اور ایک قیمتی شال اسے اپنی نشانی کے طور پر تحفے میں دی۔ قیدیوں کے تبادلے میں یہاں کے ہندو سکھ قیدیوں کو براستہ علی بیگ جموں بھیجا جانے لگا تو حکومت پاکستان نے اسے پیش کش کی کہ اگر وہ بھارت واپس جانے کا ارادہ ترک کردے اور یہیں مستقل رہائش اختیار کرلے تو اسے ایبٹ آباد میں شایان شان کوٹھی الاٹ کی جائے گی اور اس کے بیٹے کو بڑا ہونے پر اس کے آنجہانی باپ کی جگہ تعینات کردیا جائے گا۔ لیکن اس نے اس پیش کش کو شکریہ کے ساتھ مسترد کردیا اور اپنے وطن چلی گئی۔

ان واقعات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بعض افراد صرف بھارتی بیانئے کو فروغ دے رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ نے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ مل کر معاہدہ کیا اور 27 اکتوبر کو بھارتی فوج سری نگر میں گھس آئی۔ قبائلی عوام کشمیری عوام کے قتل عام کو روکنے کےلیے میدان میں آئے تھے، جن کا واحد مقصد کشمیری مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ جبکہ بھارت نواز کشمیری رہنما عوام میں پاکستان کے خلاف زہر گھولنے میں مصروف رہے۔

5 اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے ڈوگرہ راج کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا گیا۔ جس کے بعد محبوبہ مفتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ 1947 میں پاکستان کی مخالفت بھارت نواز قیادت کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ یہ ایسی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی کشمیری قوم بھگت رہی ہے۔

(نوٹ: مضمون کی تیاری میں کشمیری اسکالر سید سلیم گردیزی کی تحریروں سے معاونت لی گئی ہے۔)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story