
نیویارک میں وائل کورنیل میڈیسن میں واقع فائل فیملی برین اینڈ مائنڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر گیوسپ فیراکو اس تحقیق کے مصنف ہیں۔ انہوں نے تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ نمک کا بے تحاشہ استعمال ہمیشہ ہے دماغ کے لیے نقصاندہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب اس کی سائنسی وجہ بھی سامنے آگئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایک طرح کا سالمہ (مالیکیول) اںٹرلیوکن 17 (آئی ایل 17) دماغی خلیات کو نائٹرک ایسڈ بنانے سے روکتا ہے۔ نائٹرک ایسڈ خون کو نالیوں کو وسیع کرتے ہوئے خون کے بہاؤ کو ممکن بناتا ہے ۔ اب اگر نائٹرک آکسائیڈ کم ہوجائے تو خون کے بہاؤ پر فرق پڑتا ہے۔ زیادہ نمک آئی ایل 17 کو بڑھاتا ہے اور نتیجے میں نائٹرک آکسائیڈ کم بنتا ہے جس کے بعد خون کے بہاؤ میں بھی 25 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
جب دماغ کو درست طریقے سے خون نہیں پہنچتا تو اس سے ڈیمنشیا ، پارکنسن، نسیان اور دیگر کئی امراض جنم لے سکتے ہیں۔
لیکن نئے تجربات سے مزید چونکا دینے والی بات سامنے آئی کہ درحقیقت رگوں میں بہتے خون کی فراوانی ہی نہیں بلکہ دماغ میں ٹاؤ نامی مضر پروٹین بھی کئی امراض کی وجہ بنتا ہے اور نمک کا اندھا دھند استعمال اس پروٹین میں اضافہ کرتا ہے۔ ٹاؤ کے ذرات جمع ہوکر لوتھڑے نما بن جاتے ہیں اور ذہنی صلاحیت متاثرکرنا شروع کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر گیوسپ کے مطابق چوہوں پر کئے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ زائد نمک کھانے سے ٹاؤ پروٹین دماغ میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یوں اس سے دماغ کی ان گنت صلاحیتیں متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس طرح نمک اور ٹاؤ کے درمیان براہِ راست تعلق پایا جاتا ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔