کڑوی گولیاں اور گولیاں
آج دنیا کے 7 ارب عوام جس بے چینی کا شکار ہیں، اس کا اصل سبب وہ استحصالی نظام ہے جس نے دنیا کو...
آج دنیا کے 7 ارب عوام جس بے چینی کا شکار ہیں، اس کا اصل سبب وہ استحصالی نظام ہے جس نے دنیا کو معاشی عدم مساوات، علاقائی جھگڑوں ہتھیاروں کی تجارت مذہبی اور قومی منافرت اور جنگوں کے ہولناک عذابوں سے دوچار کر دیا ہے۔ عوامی بے چینی عوامی اضطراب کی جو لہر مشرق وسطیٰ میں اٹھی تھی اس کے اہداف اگرچہ آمرانہ حکومتیں اور ان کی لوٹ مار تھے لیکن ان برائیوں کا ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام پس پردہ ہی تھا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ دنیا میں خاص طور پر پسماندہ دنیا میں سامراجی ملکوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایسی قیادت کو ابھرنے نہیں دیا جو بے چین اور مضطرب عوام کی درست سمت میں رہنمائی کریں تو دوسری طرف ایسی قیادتوں کو آگے بڑھایا جو جمہوریت کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کا مکروہ کام انجام دے رہے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تشکیل دیے ہوئے عالمی مالیاتی اداروں کی چیرہ دستیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ایک عام آدمی بھی ان اداروں اور ان اداروں کے سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق کو سمجھنے لگا ہے۔
پچھلے ہفتے سوڈان میں لاکھوں عوام آئی ایم ایف کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ سوڈان اور مراکش میں بھی حکمران طبقات نے آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کرتے ہوئے عوام کو دی جانیوالی سبسڈی ختم کردی جس کی وجہ سے اشیاء صرف کی قیمتوں اضافہ ہوا اور عوام اس کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ یوں عوام کی تحریک کو ایک درست سمت اور ہدف ملا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت جو اپنی انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس لیے مورد الزام ٹھہرا رہی تھی کہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول پھیلادیا ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد آئی ایم ایف کی ایسی کڑی شرائط پر قرض لینے کے لیے آمادہ ہوگئی جن میں سبسڈی کا خاتمہ، جی ایس ٹی میں اضافہ، بجلی گیس پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ جس سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور حکومتی مجاہد فرما رہے ہیں کہ آیندہ ہم اس سے زیادہ سخت فیصلے کرنے جا رہے ہیں ۔سوڈان، مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک تمام حکومتیں عملاً امریکا اور اس کے مالیاتی اداروں کی غلام بنی ہوئی ہیں اور بہانہ یہ کر رہی ہیں کہ معاشی بحرانوں اور ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر عوام کو یہ کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔ یہ پرفریب جواز نئے نہیں ہیں بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی عوام کو کڑوی گولیاں کھلاتی رہی ہیں اور جب عوام ان کڑوی گولیوں کو کھانے سے انکار کرکے سڑکوں پر آجاتے ہیں تو ان کے سینوں میں فولاد کی گولیاں اتاردی جاتی ہیں۔ سوڈان کے 150مظاہرین کے سینے ایسی ہی فولاد کی سخت گولیاں سے چھلنی ہوگئے ہیں۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف خود سرمایہ دارانہ نظام کے گڑھ امریکا میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو مہم شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے 80ملکوں اور 800 شہروں میں پھیل گئی دنیا میں جہاں بھی عالمی مالیاتی اداروں کی کوئی کانفرنس ہوتی ہے وہاں اس کے خلاف شدید مظاہرے ہوتے ہیںلیکن المیہ یہ ہے کہ اس نظام ظلم و استحصال کے خلاف ہونیوالے احتجاج کو ایک منظم مربوط اور بامقصد و بامعنی تحریک میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ کام دنیا میں موجود ان تنظیموں کا ہے جو نظریاتی طور پر اس نظام زر کو ختم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں کی تاریخ میں اس نظام کے خلاف کبھی اتنے بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریکیں نہیں ابھریں لیکن المیہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ابھرنے والی ان تحریکوں کو مرکزیت دینے انھیں پھیلانے اور دنیا بھر کے غریب عوام کو اس میں شامل کرنیوالا کوئی نہیں، نظریاتی جماعتوں کا یہ ایسا نظریاتی جرم ہے جسے دنیا کے عوام اور آیندہ آنیوالی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ جیسے جیسے اس نظام کی داخلی کمزوریاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے تضادات میں اضافہ ہورہا ہے اسی تناسب سے عوام پر اس کے مظالم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
امریکا میں شٹ ڈاؤن کے نام پر جو معاشی بحران ابھرا ہے خود امریکا کا حکمران طبقہ کہہ رہا ہے کہ اگر اس انوکھے بحران پر جلد قابو نہ پایا گیا تو امریکا کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہو جائینگے۔ شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں امریکا کے 8 لاکھ ملازمین کی تنخواہیں روک دی گئی تھیں لیکن امریکی حکام کو جلد اندازہ ہو گیا کہ اگر ان 8 لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں دی جاتیں تو ایک اور زیادہ سخت والی اسٹریٹ تحریک جنم لے سکتی ہے۔ سو انھوں نے ایک خصوصی بل پیش کرکے 8 لاکھ ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا انتظام کردیا لیکن ان ملازمین کی ملازمتوں کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوسکا۔ یہ نظام آنیوالے دنوں میں اور زیادہ شدید معاشی بحرانوں میں مبتلا کرسکتا ہے اور اس کے اثرات دنیا بھر میں پھیل سکتے ہیں سوڈان، مراکش کے شدید مظاہروں اور پاکستان میں تحریکوں کی ابتداء بتدریج عالمگیریت حاصل کرسکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس نظام ظلم کے خلاف دنیا بھر کے عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت کو نہ مرکزیت دینے کے لیے کوئی طاقت موجود ہے نہ اس نظام ظلم کے متبادل کوئی منصفانہ نظام پیش کرنے کی کوئی ماہرانہ کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے غریب انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرنا بالکل فطری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے نظریاتی مخالفین کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
پاکستان میں آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے جو شرائط قبول کی گئی ہیں ان شرائط پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ٹیکسوں میں اضافے، بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کو ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ناگزیر کہا جارہا ہے ملک بھر کے اہم قومی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہ سارے اقدامات جہاں مہنگائی بیروزگاری میں بے تحاشا اضافے کا سبب بنیں گے وہیں ان اقدامات کے ذریعے اربوں کھربوں کی اعلیٰ سطحی کرپشن کے دروازے بھی کھل جائینگے۔ جس کا فائدہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں اور حکمران طبقات کو ہوگا اور بیچارے عوام پر معاشی مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے ان حکومتی اقدامات کو جائز اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری قرار دینے کے لیے اہل دانش خاص طور پر لکھاریوں کی ایک مخصوص لابی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے اور سرکاری ملازمین پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ وہ دن بھرآرام کر کے تنخواہیں وصول کرتی ہے ایسے لکھاری دانستہ یا نادانستہ اس نظام کی فطرت کو اجاگر کرنے سے گریزاں رہتے ہیں جس کی سرشت میں فرائض سے غفلت موجود ہے۔ جب سرکاری ملازمین سرکار کو اربوں کی کرپشن کرتے اور 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک نوکریاں بیچتے دیکھتے ہیں تو ان میں اپنی ذمے داریوں سے گریز کا کلچر پیدا ہونا ضروری ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں کام کرنیوالوں میں یہ احساس نہیں پیدا کیا گیا کہ وہ اس ملک کے مالک ہیں اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنا ان کا قومی فرض ہے اس کے برخلاف انھیں سرکاری غلام ہونے کا احساس دلایا جاتا رہا۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
محسوس یہ ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف ورلڈ بینک سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عملدرآمد سے عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے گا اور سوڈان مراکش مشرق وسطیٰ سے لے کر پاکستان تک عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئیں گے اگر ان حالات کو نظام کی تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے نظام کی تبدیلی کے لیے استعمال نہیں کریں گے تو یہ ان کا نظریاتی جرم بھی ہوگا اور دنیا ایک انارکی کی طرف چل نکلے گی جس کا انجام انقلاب فرانس کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔