کچھ یادیں کچھ باتیں
موسم گرما کی سرکاری تعطیلات ہونے والی ہیں۔ گجرات اسلامیہ ہائی اسکول کا ہال طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہے۔
موسم گرما کی سرکاری تعطیلات ہونے والی ہیں۔ گجرات اسلامیہ ہائی اسکول کا ہال طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہے۔ جلسۂ تقسیم انعامات جوبن پر ہے۔ ایک کے بعد ایک پوزیشن ہو لڈر آ رہا ہے، انعام پا رہا ہے ، اور واپس جا رہا ہے، اور اب ایک منحنی سا، کمزور سا اور سانولا سا طالب علم لہک لہک کر کلام اقبالؔ پڑھ رہا ہے ؎
ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں نے گجرات مسلم اسکول سے میٹرک کر کے زمیندار کالج پہنچ کر فرسٹ ائر میں نیا نیا ایک طلبہ تنظیم سے منسلک ہوا تھا۔ تنظیم میں ''قحط الرجال'' کا یہ عالم تھا کہ ایک روز جب مقامی یونٹ کے 'منتخب صدر' نے کہا کہ امتحان کی تیاری کے لیے وہ چھٹی پر جا رہا ہے، تو میں، جو ابھی تنظیم کا باقاعدہ رکن بھی نہیں بن پایا تھا، اس کا 'قائمقام' قرار پا گیا۔ منتخب صدر چھٹی پر گئے تو پیچھے ہم دو کارکن رہ گئے، حسنات شاہ اور میں۔ یہ حسنات شاہ آجکل مری میں سرکاری افسر ہیں۔ 'قائمقام صدر' اور 'سیکریٹری جنرل' سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ یہ تو یاد نہیں کہ یہ آئیڈیا حسنات شاہ کے ذہن ِ رسا کا کرشمہ تھا، یا مجھ کو سوجھا تھا، لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ شام کی نماز کے لیے جب ہم دفتر سے نکلے تو یہ طے پا چکا تھا کہ آیندہ ایک دو ہفتے میں اسکولوں کے طلبہ کے لیے ایک 'جلسہ تقسیم انعامات' منعقد کیا جائے گا۔
شہر کے وسط میں واقع اسلامیہ اسکول کا ہال اس مقصد کے لیے بہ آسانی مل سکتا تھا۔ اگلے روز کالج سے لوٹا ہی تھا کہ باہر کسی نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دیکھا تو مشتاق فاروقی صاحب تھے۔ وہ سینئر طالب علم لیڈر تھے۔ کہنے لگے، چلو، آپ کو جامعہ اسکول کے ایک 'کارکن' سے ملوانا ہے۔ میں نے سائیکل نکالی اور پوچھا، کدھر کو جانا ہے۔ کہنے لگے، کچہری چوک۔کچہری چوک پہنچے اور پھر دو چار گلیاں گھوم کر وہ ایک عام سے گھر کے سامنے رکے اور اس کی کنڈی کھڑکانے لگے۔ ایک سانولا سا لڑکا باہر آیا۔ فاروقی صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہ ابرار الحق ہے، جامعہ ہائی اسکول دسویں جماعت میں پڑھتا ہے، بڑا خوش الحان ہے، علامہ اقبال کا کلام بہت ہی ترنم سے پڑھتا ہے۔ پھر کہا، آپ جو اسکولوں کا جلسہ کرا رہے ہیں، اس میں ابرار بھی پرفارم کرے گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ ابرار الحق سے یہ میرا پہلا سرسری سا تعارف تھا۔
'جلسہ تقسیم انعامات' ہوا اور خلاف توقع بہت کامیاب رہا۔ ابرار نے کلام اقبال پڑھا۔ فاروقی صاحب نے ابرار کی جو تعریف کی تھی، اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا۔ جلسہ کے بعد ابرار سے گاہے گاہے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ان دنوں اس کے پاس بھی ایک سائیکل ہوتی تھی، جس کے پیچھے کیرئر لگا تھا، اور اس کیرئر پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی چیز بندھی ہوتی تھی، جو وہ مسلم بازار سے خرید کر لے جا رہا ہوتا تھا۔ پارٹی اجتماعات میں وہ کم کم ہی آتا تھا۔ اس وقت تک سیاست سے بظاہر اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ موسیقی سے البتہ اس کی دلبستگی تھی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار اس کی بیٹھک میں بیٹھا تھا۔ کچا صحن پار کر کے پیچھے یہ ایک چھوٹا سا، سادہ سا کمرہ تھا۔ اس کا ایک کزن بھی آیا ہوا تھا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو فار وق کاہلوں نام تھا اس کا۔ معاً ابرار نے ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا، پر آواز بہت کم رکھی۔ کہنے لگا، یہ بیک گراونڈ میوزک ہے اصغر بھائی۔ گفتگو کے درمیان گاہے خاموشی کا وقفہ آتا ہے ناں، تو یہ اسے کور کرتا ہے۔ پھر ایک روز اس نے بتایا کہ وہ راولپنڈی جا رہا ہے، جہاں اس کے والد صاحب کا تبادلہ ہو گیا ہے۔
اس وقت تک میں نہیں جانتا تھا کہ ابرار اصلاً نارووال کا رہنے والا ہے، اور یہاں یہ گھر، اس کے گھر والوں نے کرایہ پر لیا ہوا ہے۔ یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ گلوکار بننا چاہتا ہے۔ لیکن ایک امنگ، ایک ترنگ اس کے اندر تھی، آگے بڑھنے کی اور شہرت حاصل کرنے کی۔ ابرار راولپنڈی چلا گیا، میرا داخلہ لاہور ہو گیا اور میں لاہور آ گیا۔ جیسا کہ لڑکپن میں ہوتا ہے، شروع شروع میں دو ایک جذباتی خطوط کا تبادلہ ہوتا ہے اور پھر وقت کی اتنی گرد پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کے چہرے تک بھول جاتے ہیں۔ کئی سال بعد میں نے ابرار کا نام پھر سے سنا، جب اس کا گانا ''کنے کنے جاناں بِلو دے گھر'' چل رہا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ یہ ابرارالحق وہی 'جامعہ اسکول والا ابرار' ہے، تو تعجب ہوا، پھر اس کا گانا ' نچ مجاجن نچ' آیا تو یقین آگیاکہ ابرار الحق پر قسمت مہربان ہوگئی ہے۔ میں اس وقت بھی سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہوں کہ ابرار اگر گانے کا فن، باقاعدہ کسی استادِ فن سے سیکھ لیتا، تو اس کی آواز اسے مزید اونچا لے جا سکتی تھی۔پھر جب ایک روز، وہ عوام سے اسپتال کے لیے چندہ مانگتا نظر آیا تو اس کا ایک اور روپ سامنے آیا۔2013ء میں ابرارالحق نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر چوہدری احسن اقبال کے مقابلہ میں الیکشن لڑا لیکن وہ ہار گیا۔ چند دن ٹاک شوز میں دھاندلی کا واویلا کرتا نظر آیا، اور پھر منظر سے غائب ہو گیا۔
ہمارے دوست کرامت بھٹی، ابرارالحق کے بڑے مداح ہیں۔ پچھلے دنوں میں نے پوچھا، ابرار آج کل گا نہیں رہا ہے۔ کہنے لگے، الیکشن لڑنے کے بعد معلوم ہوتا ہے، گانے میں دل لگ نہیں رہا ہے۔ یہ کہانی اکیلے ابرارالحق کی نہیں ہے، بیشتر فنکاروں کا یہی المیہ رہا ہے۔ شہرت مل گئی تو کسی نے این جی او بنا لی۔ کسی نے سیاسی پارٹی جوائن کر لی اور الیکشن لڑنے لگا۔ یہ نہیں سمجھا کہ حقیقتاً، یہ اداکاری یا گلوکاری ہی ان کی شہرت کا ذریعہ اور خوشحالی کا وسیلہ ہے۔ گجرات ہی کے ایک گلوکار عنایت حسین بھٹی یاد آ گئے۔ کمال کے گلوکار تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ جس فلم کے ساتھ ان کا اور ان کی فلم کمپنی کا نام جڑ جاتا تھا، اس کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھتا تھا۔ پتہ نہیں کیا ہوا '' انتخابی سیاست'' میں آ گئے۔ گجرات سے الیکشن لڑا، لیکن الیکشن میں ان کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو نارووال میں ابرارالحق کے ساتھ ہوا۔ کہتے ہیں، اس کے بعد پھر ان کاجی گانے سے بھی اچاٹ ہو گیا۔
بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو ادکار یا گلوکار بھی سیاست میں آیا، کامیاب نہیں ہو سکا ہے، بلکہ واپسی پر پہلے والا مرتبہ و مقام بھی حاصل نہ کر سکا ہے۔ اس کے باوجود وہ سیاست کی دلدل میں اترتے اور اس میں گم ہوتے رہتے ہیں۔ کون ان کو سمجھائے کہ کلا کار تو سیاست دان سے کہیں زیادہ مہان ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ کلا کا حق ادا کر رہا ہو۔ اس پس منظر میں، جب میں اپنے بھولے بسرے دوست ابرارالحق کو سیاست کی دلدل میں دھنستا دیکھتا ہوں، تو افسردہ ہو تا ہوں، یاد کے کسی گوشہ میں برسوں پہلے کی ایک دوپہر نمودار ہوتی ہے، اسلامیہ ہائی اسکول کا ہال طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، جلسہ جوبن پر ہے، ایک کے بعد ایک طالب علم آتا ہے، انعام پاتا ہے اور واپس جاتا ہے، اور اب ایک منحنی سا، کمزور سا اور سانولا سا طالب علم لہک لہک کر کلام اقبالؔ پڑھ رہا ہے ؎
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی، یہ کم نگاہی