عمر کی نقدی
ایک عورت کے بچے کم عمری میں انتقال کرجاتے تھے۔ وہ ایک بزرگ کے پاس گئی اور کہا کہ دعا کریں کہ اس کے...
ایک عورت کے بچے کم عمری میں انتقال کرجاتے تھے۔ وہ ایک بزرگ کے پاس گئی اور کہا کہ دعا کریں کہ اس کے بچوں کی عمریں طویل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس دکھیاری ماں کے بچے کس عمر میں دنیا سے کوچ کرجاتے تھے۔ ڈھائی سو تین سو سال کی عمر میں۔ حیران نہ ہوں کہ پہلے لوگوں کی طویل عمریں ہوا کرتی تھیں۔ اب ساٹھ، ستر سال کی عمر میں لوگ عموماً انتقال کرجاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے لیکن خوش فہمی ایسی ہے کہ کوئی مرنا نہیں چاہتا۔ جنت میں سب جانا چاہتے ہیں لیکن نہ مرنے کو تیار ہیں اور نہ یہ بتانے کو کہ مرے بغیر جنت کیسے مل سکتی ہے؟ آج ہم کچھ سیاستدانوں کی بات کریں گے لیکن آہستہ آہستہ۔
دولت پانے کے لیے انسان بہت دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اپنی صحت خراب کر بیٹھتا ہے۔ پھر صحت پانے کے لیے دولت خرچ کرتا ہے۔ ایسی خوب صورت باتیں پیغامات کی شکل میں ملتی ہیں۔ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ انسان کے بارے میں یہی پیغام آگے چل کر بتاتا ہے کہ وہ جیتا اس طرح ہے کہ کبھی مرنا نہیں ہے اور مرنے لگتا ہے تو ایسی فریاد کرتا ہے کہ ابھی تو کچھ جیا ہی نہیں ہے۔ یہ ہے حضرت انسان کی کہانی۔ چالیس پچاس سال کی عمر کے کچھ ساتھی وکلا بیٹھے تھے اور کہا کہ اب ہمارے پاس دس بیس سال رہ گئے ہیں تو اس بات پر یار دوست برا منانے لگے۔ منہ بناکر وہ کہتے ہیں کہ آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ بیگم سے کہا کہ تم پہلے لڑھک جاؤگی یا میں؟ اکثر عورتیں تو سنبھل جاتی ہیں اور بیٹے بہو کے ساتھ گزارا کرلیتی ہیں جب کہ آدمیوں میں ایک اکڑ ہوتی ہے جو عموماً بڑھاپے میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ محترمہ کہنے لگیں کہ چھوڑیں کسی اور موضوع پر بات کریں۔ خاندان میں کسی ایک شوہر یا بیوی کے مرجانے والوں کا جائزہ لینے لگا تو اچھا نہیں لگا۔ کوئی بھی موت اور مرنے کی بات کو پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اجتماعات یا درس ہوں تو لوگ ایسی باتیں سن لیتے ہیں یا انتقال کے موقع پر قبرستان جانا ہو تو اس موضوع پر بات ہوجاتی ہے لیکن نارمل حالات میں لوگ اس مسئلے پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ آج ہمارا کالم ایک تازہ ترین سیاسی عنوان پر گفتگو کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔
سیاستدانوں کی عمریں دیکھیں تو وہ بھی ساٹھ ستر یا اسی کے لگ بھگ ہوتی ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں۔ کسی کو عمر خضر تو نہیں مل گئی اور نہ کسی نے آب حیات پیا ہے۔ ''سو موثر آدمی'' نامی مائیکل ہارٹ کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ چنگیز خان، جارج واشنگٹن اور کارل مارکس کی عمریں پینسٹھ سال کے لگ بھگ تھیں۔ ہٹلر اور لینن پچیس سال کی زندگی پاسکے جب کہ اسٹالن ستر اور ماؤزے تنگ نے اسی سال سے زیادہ عمر پائی۔ کم عمری میں وفات پانے والے حضرت یحییٰؑ چوبیس سال، سکندراعظم 35 اور کینیڈی نے پینتالیس سال کی عمر پائی۔ یہ ہے حضرت انسان کی عمر کی نقدی۔ اسی بات کو لے کر ہم پاکستان کے آٹھ سیاستدانوں سے کچھ کہنا چاہیں گے۔
نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، منور حسن، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفند یار ولی کو لے کر ہم گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ جب ہم سیاستدانوں کی بات کر رہے ہیں تو کیوں نہ پہلے برصغیر کے سیاستدان پر نظر دوڑائیں۔ جلد از جلد ہم اس خطے کی ایک صدی کی تاریخی شخصیات کا احاطہ کر رہے ہیں۔ ''خلافت تحریک'' میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی خان نے پورے ہندوستان کو گرما دیا تھا۔ اسی دور میں ترکی میں مصطفیٰ کمال اور عصمت انونو چھائے ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم ہوئی تو روز ویلٹ اور چرچل کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ڈیسائی، شوکت حیات اور تارا سنگھ کا بھی نام ملتا ہے۔ سب فانی انسان تھے اور اپنا کام کرکے فنا ہوگئے۔ دنیا کی اسٹیج پر آئے اور اپنا کردار نبھا کر چلے گئے۔ آج کتنے لوگوں کو ان کے نام یاد ہیں؟ ان کے اپنے ہم وطن انھیں یاد رکھ سکے ہیں یا نہیں؟ ایک بڑا سوال ہے۔
پاکستان کی سیاست پر آئیں تو اسکندر مرزا، غلام محمد، ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، آئی آئی چندریگر، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور فاروق لغاری یہاں کے حکمران رہے ہیں۔ آج چالیس بیالیس برس کے لوگوں کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب آئیں۔ پچاس اور ساٹھ کے عرصے میں دولتانہ، قیوم خان، نورالامین، ستار نیازی کو کون جانتا ہے؟ ستر کے عشرے کے اصغر خان، عبدالحفیظ پیرزادہ، کوثر نیازی، معراج محمد خان کے نام سے نئی نسل ناواقف ہے۔ یہ ہے یادداشت کی صورت حال۔ ہمیں آج پاکستان کی سیاست کے آٹھ بڑے سیاستدانوں کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے اور انتخابی سیاست کے ایک چبھتے ہوئے مسئلے پر اظہار خیال کرنا ہے۔
عمران خان، آصف زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ولی کی عمریں ساٹھ برس سے زیادہ کی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، منور حسن، نواز شریف اور چوہدری شجاعت کی عمریں پینسٹھ سال سے زیادہ ہیں۔ کالم کو ایک لمحے کے لیے روکتے ہیں اور ابتداء میں دیے گئے سوال پر غور کرتے ہیں۔ جب چالیس پچاس برس کے لوگوں سے بار روم میں کہتے ہیںکہ اب ہمارے پاس دس بیس سال رہ گئے ہیں تو چہروں پر ناگواری آجاتی ہے۔ اب پاکستان کے کروڑوں عوام کے ہر دلعزیز ان آٹھ رہنماؤں کی عمر کی نقدی کے حوالے سے یہ بات کی جائے تو نازک مرحلہ تو نہیں آجائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ پندرہ بیس سال بعد کی سیاست میں پاکستان کے لیڈر کوئی اور ہوں گے۔ پورا کالم صرف اسی دائرے میں گھوم رہا ہے کہ انسان کی عمر برف کی طرح پگھل رہی ہے۔
سالگرہ کی خوشی اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ عمر کا ایک سال کم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے آنے والے لوگ پرانے لوگوں کو جلد بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو اپنے پردادا کا نام معلوم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا انسان اور کیا اس کی اوقات۔کالم سے ہم نے دو چیزیں اخذ کی ہیں۔ پلک جھپکتی کم عمری اور بھول جانے والا انسان۔ پھر کاہے کی اکڑ اور پھوں پھاں۔ آج کے شاہ رخ، عامر خان، شاہد آفریدی، امیتابھ بچن، مائیکل جیکسن کو آج پیدا ہونیوالے بچے نہیں پہچانیں گے۔ اس صورت میں عاجزی و انکساری کیوں؟جب ہم پاکستان کے آج کے سیاستدانوں کی بات کر رہے ہیں تو آج کا سیاسی و انتخابی مسئلہ کیا ہے؟ کس کام کے لیے اتنی طویل تمہید باندھی ہے۔ کس بات تک لانے کے لیے نوے فیصد کالم میں بظاہر یہاں وہاں کی باتیں کہی گئی ہیں جہاں بظاہر قارئین اطمینان رکھیں ہم موضوع سے بالکل نہیں ہٹ رہے۔ یقین نہ آئے تو دوسری مرتبہ کالم پڑھ کر دیکھ لیجیے گا اگر مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔
انتخابات میں سیاہی غلط تھی یا کاغذ غیر معیاری۔ یاد کیجیے کہ ستر کے انتخابات میں نوے سال کی نانی کو کندھے پر بٹھا کر لایا جاتا تھا اور بوڑھے دادا کو بھی بمشکل۔ کیوں؟ ووٹ کا تقدس تھا۔ دھاندلی نہ ہو تو نہ کاغذ میں کچھ بہتری کی ضرورت ہے اور نہ سیاہی قیمتی کرنے کی، اگر ہمارے آٹھ سیاستدان ایک چیز طے کرلیں۔ وہی ڈھلتی عمر اور بھول جانے والا آدمی۔ ایک بات گرہ میں باندھ لیں تو کچھ نہ ہو۔ ''جب تک عوام پسند کریں گے ہم اسمبلی و اقتدار میں رہیں گے ورنہ گھر چلے جائیں گے''۔ ایک سطری جملہ ہمارے تمام مسائل حل کردے گا ورنہ سارا انتخابی فلسفہ بیکار ہے۔ ہمارے آٹھ سیاستدان حضرت انسان کی بھولنے کی عادت کو سمجھیں اور پھر نظر دوڑائیں اپنی ختم ہوتی عمر کی نقدی پر۔
دولت پانے کے لیے انسان بہت دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اپنی صحت خراب کر بیٹھتا ہے۔ پھر صحت پانے کے لیے دولت خرچ کرتا ہے۔ ایسی خوب صورت باتیں پیغامات کی شکل میں ملتی ہیں۔ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ انسان کے بارے میں یہی پیغام آگے چل کر بتاتا ہے کہ وہ جیتا اس طرح ہے کہ کبھی مرنا نہیں ہے اور مرنے لگتا ہے تو ایسی فریاد کرتا ہے کہ ابھی تو کچھ جیا ہی نہیں ہے۔ یہ ہے حضرت انسان کی کہانی۔ چالیس پچاس سال کی عمر کے کچھ ساتھی وکلا بیٹھے تھے اور کہا کہ اب ہمارے پاس دس بیس سال رہ گئے ہیں تو اس بات پر یار دوست برا منانے لگے۔ منہ بناکر وہ کہتے ہیں کہ آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ بیگم سے کہا کہ تم پہلے لڑھک جاؤگی یا میں؟ اکثر عورتیں تو سنبھل جاتی ہیں اور بیٹے بہو کے ساتھ گزارا کرلیتی ہیں جب کہ آدمیوں میں ایک اکڑ ہوتی ہے جو عموماً بڑھاپے میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ محترمہ کہنے لگیں کہ چھوڑیں کسی اور موضوع پر بات کریں۔ خاندان میں کسی ایک شوہر یا بیوی کے مرجانے والوں کا جائزہ لینے لگا تو اچھا نہیں لگا۔ کوئی بھی موت اور مرنے کی بات کو پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اجتماعات یا درس ہوں تو لوگ ایسی باتیں سن لیتے ہیں یا انتقال کے موقع پر قبرستان جانا ہو تو اس موضوع پر بات ہوجاتی ہے لیکن نارمل حالات میں لوگ اس مسئلے پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ آج ہمارا کالم ایک تازہ ترین سیاسی عنوان پر گفتگو کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔
سیاستدانوں کی عمریں دیکھیں تو وہ بھی ساٹھ ستر یا اسی کے لگ بھگ ہوتی ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں۔ کسی کو عمر خضر تو نہیں مل گئی اور نہ کسی نے آب حیات پیا ہے۔ ''سو موثر آدمی'' نامی مائیکل ہارٹ کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ چنگیز خان، جارج واشنگٹن اور کارل مارکس کی عمریں پینسٹھ سال کے لگ بھگ تھیں۔ ہٹلر اور لینن پچیس سال کی زندگی پاسکے جب کہ اسٹالن ستر اور ماؤزے تنگ نے اسی سال سے زیادہ عمر پائی۔ کم عمری میں وفات پانے والے حضرت یحییٰؑ چوبیس سال، سکندراعظم 35 اور کینیڈی نے پینتالیس سال کی عمر پائی۔ یہ ہے حضرت انسان کی عمر کی نقدی۔ اسی بات کو لے کر ہم پاکستان کے آٹھ سیاستدانوں سے کچھ کہنا چاہیں گے۔
نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، منور حسن، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفند یار ولی کو لے کر ہم گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ جب ہم سیاستدانوں کی بات کر رہے ہیں تو کیوں نہ پہلے برصغیر کے سیاستدان پر نظر دوڑائیں۔ جلد از جلد ہم اس خطے کی ایک صدی کی تاریخی شخصیات کا احاطہ کر رہے ہیں۔ ''خلافت تحریک'' میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی خان نے پورے ہندوستان کو گرما دیا تھا۔ اسی دور میں ترکی میں مصطفیٰ کمال اور عصمت انونو چھائے ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم ہوئی تو روز ویلٹ اور چرچل کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ڈیسائی، شوکت حیات اور تارا سنگھ کا بھی نام ملتا ہے۔ سب فانی انسان تھے اور اپنا کام کرکے فنا ہوگئے۔ دنیا کی اسٹیج پر آئے اور اپنا کردار نبھا کر چلے گئے۔ آج کتنے لوگوں کو ان کے نام یاد ہیں؟ ان کے اپنے ہم وطن انھیں یاد رکھ سکے ہیں یا نہیں؟ ایک بڑا سوال ہے۔
پاکستان کی سیاست پر آئیں تو اسکندر مرزا، غلام محمد، ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، آئی آئی چندریگر، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور فاروق لغاری یہاں کے حکمران رہے ہیں۔ آج چالیس بیالیس برس کے لوگوں کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب آئیں۔ پچاس اور ساٹھ کے عرصے میں دولتانہ، قیوم خان، نورالامین، ستار نیازی کو کون جانتا ہے؟ ستر کے عشرے کے اصغر خان، عبدالحفیظ پیرزادہ، کوثر نیازی، معراج محمد خان کے نام سے نئی نسل ناواقف ہے۔ یہ ہے یادداشت کی صورت حال۔ ہمیں آج پاکستان کی سیاست کے آٹھ بڑے سیاستدانوں کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے اور انتخابی سیاست کے ایک چبھتے ہوئے مسئلے پر اظہار خیال کرنا ہے۔
عمران خان، آصف زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ولی کی عمریں ساٹھ برس سے زیادہ کی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، منور حسن، نواز شریف اور چوہدری شجاعت کی عمریں پینسٹھ سال سے زیادہ ہیں۔ کالم کو ایک لمحے کے لیے روکتے ہیں اور ابتداء میں دیے گئے سوال پر غور کرتے ہیں۔ جب چالیس پچاس برس کے لوگوں سے بار روم میں کہتے ہیںکہ اب ہمارے پاس دس بیس سال رہ گئے ہیں تو چہروں پر ناگواری آجاتی ہے۔ اب پاکستان کے کروڑوں عوام کے ہر دلعزیز ان آٹھ رہنماؤں کی عمر کی نقدی کے حوالے سے یہ بات کی جائے تو نازک مرحلہ تو نہیں آجائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ پندرہ بیس سال بعد کی سیاست میں پاکستان کے لیڈر کوئی اور ہوں گے۔ پورا کالم صرف اسی دائرے میں گھوم رہا ہے کہ انسان کی عمر برف کی طرح پگھل رہی ہے۔
سالگرہ کی خوشی اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ عمر کا ایک سال کم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے آنے والے لوگ پرانے لوگوں کو جلد بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو اپنے پردادا کا نام معلوم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا انسان اور کیا اس کی اوقات۔کالم سے ہم نے دو چیزیں اخذ کی ہیں۔ پلک جھپکتی کم عمری اور بھول جانے والا انسان۔ پھر کاہے کی اکڑ اور پھوں پھاں۔ آج کے شاہ رخ، عامر خان، شاہد آفریدی، امیتابھ بچن، مائیکل جیکسن کو آج پیدا ہونیوالے بچے نہیں پہچانیں گے۔ اس صورت میں عاجزی و انکساری کیوں؟جب ہم پاکستان کے آج کے سیاستدانوں کی بات کر رہے ہیں تو آج کا سیاسی و انتخابی مسئلہ کیا ہے؟ کس کام کے لیے اتنی طویل تمہید باندھی ہے۔ کس بات تک لانے کے لیے نوے فیصد کالم میں بظاہر یہاں وہاں کی باتیں کہی گئی ہیں جہاں بظاہر قارئین اطمینان رکھیں ہم موضوع سے بالکل نہیں ہٹ رہے۔ یقین نہ آئے تو دوسری مرتبہ کالم پڑھ کر دیکھ لیجیے گا اگر مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔
انتخابات میں سیاہی غلط تھی یا کاغذ غیر معیاری۔ یاد کیجیے کہ ستر کے انتخابات میں نوے سال کی نانی کو کندھے پر بٹھا کر لایا جاتا تھا اور بوڑھے دادا کو بھی بمشکل۔ کیوں؟ ووٹ کا تقدس تھا۔ دھاندلی نہ ہو تو نہ کاغذ میں کچھ بہتری کی ضرورت ہے اور نہ سیاہی قیمتی کرنے کی، اگر ہمارے آٹھ سیاستدان ایک چیز طے کرلیں۔ وہی ڈھلتی عمر اور بھول جانے والا آدمی۔ ایک بات گرہ میں باندھ لیں تو کچھ نہ ہو۔ ''جب تک عوام پسند کریں گے ہم اسمبلی و اقتدار میں رہیں گے ورنہ گھر چلے جائیں گے''۔ ایک سطری جملہ ہمارے تمام مسائل حل کردے گا ورنہ سارا انتخابی فلسفہ بیکار ہے۔ ہمارے آٹھ سیاستدان حضرت انسان کی بھولنے کی عادت کو سمجھیں اور پھر نظر دوڑائیں اپنی ختم ہوتی عمر کی نقدی پر۔