سیاست میں میکاولیت

کسی بھی ریاست کے حکمران ایک قوم کی ذہنی سطح کا عکس ہوتے ہیں ۔خصوصاََ ان ریاستوں کے حکمران جو...


Shabana Yousuf October 13, 2013

کسی بھی ریاست کے حکمران ایک قوم کی ذہنی سطح کا عکس ہوتے ہیں ۔خصوصاََ ان ریاستوں کے حکمران جو جمہوریت کی دعویدار ہیں۔ ہمارے ملک کے بہت سے لوگ امریکا کے حوالے سے کی جانے والی تنقید پر یہ یاد کرانا نہیں بھولتے کہ امریکی حکومت کے فعل کے ذمے دار امریکی عوام ہرگز نہیں ہیں، کیونکہ امریکی گورنمنٹ اور عوام ایک نہیں سمجھے جاسکتے، یہ الگ بات ہے کہ امریکی گورنمنٹ ،جو مادرِ لبرل جمہوریت ہے ، کوئی بھی سیاسی ، ملکی اور بین الاقوامی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنا بہت ضروری خیال کرتی ہے۔ کسی بھی جنگ کا فیصلہ بظاہراپنی عوام کی خواہشات کو نظر انداز کرکے نہیں کیا۔

کیونکہ امریکی و مغربی حکمران'' عوام کی مرضی'' کی شمولیت کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعی عوام کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی فیصلے کرتے ہیں، بلکہ ان فیصلوں کو عوامی خواہشات اور امنگوں کا ترجمان ثابت کرنے کے لیے، ہر طرح کا سیاسی حربہ بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ اگرچہ تشدد سیاسی نظام کا بنیادی اور ضروری عنصر ہے مگر موجودہ ماس کمیونکیشن کے سیاسی دور میں یہ امر مشکل ہوچکا ہے کہ ایک حکمران اپنی بری اور ظالمانہ حرکتوں کو زیادہ دیر تک عوام سے چھپا کر رکھ سکے۔آزاد میڈیا کی موجودگی بنیادی وجہ ہے کہ اب سیاستدان اپنے ہر عمل کا عوام کے سامنے جواز دینا ضروری خیال کرتے ہیں، جیسا کہ ٹونی بلئیرنائن الیون کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے عراق پراپنے ناجائز حملے کو عوام میں جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف مشرف حکومت میں لال مسجد پر حملے اور سوات آپریشن سے پہلے چینی انجینئرز کے اغوا کا جواز تراشتے نظر آتے ہیں۔ اس سیاسی پس منظر میں میکاولی کے خیالات سیاستدانوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔

سیاست میں اپنے برے اور ناپسندیدہ اعمال کے لیے جواز تراشنا نمایندہ جمہوریت کی خیالیات کا عنصر ہے جو آفاقی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔اس کے لیے بہت سے حکمران میکاولی کے خیالات کو استعمال کرتے ہیں۔ میکاولی کے خیالات کو سیاست میں فسطائیت کے فروغ کا باعث سمجھا جاتا ہے اوربہت سے سیاسی حکمران ان خیالات سے ماضی میں بھی استفادہ کرتے آئے ہیں ۔ کسی بھی سماج اور سیاست میں دو طبقے منظر پر نظر آتے ہیںجیسا کہ کارل مارکس بھی دو ہی طبقات شناخت کرتے ہیں پرولتاریہ اور سرمایہ دار، اسی طرح موسکا بھی دو ہی طبقات کا ذکر کرتا ہے ایک وہ جو حکمرانی کریں دوسرے وہ جن پر حکمرانی ہوتی ہے۔ اول الذکر اقلیت میں ہو کر بھی سیاسی نظام کو چلانے کے لیے طاقت کو مختلف لبادوں میں استعمال کرتا ہوا ان سہولتوں سے مستفید ہوتا ہے جو طاقت ان کو مہیا کرتی ہے۔اسی طرح گرامشی بھی دو ہی طبقات کی اپنی تحاریر میں شناخت کرتا ہے ایک 'سیاسی سماج' جو ریاست کہلاتا ہے اور دوسرا 'سول سوسائٹی' جسے عموماََ پرائیویٹ یا عوام کہا جاتا ہے ۔

گرامشی بھی سیاست میں میکاولی کے خیالات سے متاثر تو ہوتا ہے مگر اپنے دور کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سیاستدانوں کے توسیع پسندانہ عزائم نے عوام اور حکمرانوں کے تعلق کو روابط کے نئے نئے ذرایع کی موجودگی میں مزید پیچیدہ بنادیاہے۔ گرامشی سیاستدانوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے حصول کو عوام میں جائز قرار دلوانے کے لیے کیے جانے والے ہتھکنڈوں کو ہیجیمنی (Hegemony ) کا نام دیتا ہے۔اس تصور کے تحت وہ واضح کرتا ہے کہ کیسے حکمران طبقہ عوام کی رضا کے حصول کے لیے خیالیات کی جدوجہد ثقافتی سرگرمیوں اور انٹیلیکچوئلز رہنمائوں (سرکاری درس و تدریس سے وابستہ افراد، روفیسرز، اور ادیب و کالمسٹ وغیرہ)کے ذریعے کرتے ہیں۔گرامشی کے تصورِ Hegemonyکا عملی اطلاق مختلف مغربی ریاستوں کے حکمرانوں کی فارن پالیسیوں کے حوالے سے عوام کے سامنے کی جانے والی تقاریر میں دیکھ سکتے ہیں۔گرامشی کا خیال ہے کہ ایک حکمران کو طاقت اور عوامی رضا کے حصول کے بعد عوام میں مقبول رہنے اور دیر پا حکمرانی کے لیے عوامی مفادات کو ان کے اطمینان کے لیے پورے کرتے رہنا چاہیے۔

کامیاب اور مقبول سیاستدان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو اس وقت بھی سنے جب عوام اس سے اختلاف رائے کا اظہار کر رہے ہوں۔ یہی طریقہ اوباما کا اپنی فتح کے بعد پہلی تقریر میں نظر آتا ہے جب وہ کہتا ہے ''کہ بہت سے لوگ ہر فیصلے کے ساتھ متفق نہیں ہوتے مگر میں خصوصاََ اس وقت عوام کو سننا چاہوں گا جب وہ کسی وجہ سے متفق نہیں ہوتے۔''دوسری طرف پرویز مشرف کا عمل تھا جس نے اس سے اختلاف رائے رکھنے والے لوگوں پر سختیاں کرنا شروع کر دیں اور میڈیا پر پابندی عائد کی۔مشرف نے اگرچہ عوام کی رضا کو حاصل کیے بغیر امریکا کے ساتھ جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا مگر جب اس نے بلاواسطہ عوامی جذبات کو مجروح کرنا شروع کیا جن میں خصوصاََ لال مسجد پر حملہ اورٹی وی چینلز پر بے جا پابندیاں اور تشدد کے عمل نے مشرف حکومت کے خاتمے میںبنیادی اور فیصلہ کن اثرات مرتب کیے۔

یہی غلطی ٹونی بلئیر نے کی کہ عوامی رضا کوعراق جنگ کے حوالے سے نظر انداز کیا،معاشی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے امریکی جنگی اتحادی بنا۔جو اس کی حکمرانی کے لیے وقت سے پہلے موت ثابت ہوا۔تاہم حکمرانوں اور عوام کی حیثیت پر مختلف گروہوں کی تنظیم سازی اثر انداز ہوتی ہے خصوصاََ پاکستانی سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو تقریباَ ہر پارٹی اور کاروباری اتحادی ،اکثریت اور اقلیت پر مبنی حکمرانوں میں تقسیم ہوتے جا رہے ہیں، جیسے مسلم لیگ کی تقسیم کئی پارٹیوں اور پارٹی لیڈرز کی صورت میں سامنے ہے ، اسی طرح پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کی تقسیم ، منقسم گروہ اپنی طاقت کا اظہار جمہوری حق کے نام سے کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے ٹکرائو پر ہونے والی علیحدگی کونمایندہ جمہوریت کا بنیادی حق گردانتے ہیں مگر لیڈر وہی طاقتور ہوتا ہے جس کے پاس عوام کی بھاری اکثریت کی رضا ہوتی ہے، کیونکہ عوامی طاقت کا حصول جمہوری لیڈر کا حکمرانی کرنے کے لیے بنیادی اور ضروری وصف ہوتا ہے، جس کو وہ بالاخر آہستہ آہستہ اکیلا اپنے اختیار میں کر لیتا ہے۔

اسی لیے جمہوری حکمرانوں کا یہ سلوگن بعض ریاستوں میں کہ لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے لوگوں کے لیے صرف ایک خیال بن چکا ہے اور حقیقت میں یہ لوگوں کی طاقت کا استعمال ، لوگوں کے ذریعے لوگوں کے خلاف ، کا روپ دھار چکا ہے۔جیسا کہ مغربی ریاستوں کے عوام اپنے حکمرانوں کی جنگی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں ۔عوامی طاقت کا کردار اہم تو ہے مگر دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ لندن میںلاکھوں کی تعداد میں عراق جنگ کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کے باوجود برطانوی جمہوری حکومت اور سیاسی حکمرانوں نے عوام کی رضا کے مخالف جنگ میں جانے کا فیصلہ اپنے معاشی مفادات کے حصول کے پیشِ نظر بر قرار رکھا۔ان کے اس عمل سے عوامی طاقت کی حقیقت کھل جاتی ہے اور سیاسی استحصالیوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوتے ہیں جو جمہوریت کو عوامی رضا کی بنیاد گردانتے ہیں۔

اسی طرح اگر پاکستان کے حکمرانوں کو دیکھیں تو یہاں بھی عوامی خواہشات کو تقاریر میں فوقیت حاصل ہے مگر عملاََ ہر کام عوام کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے، خصوصاََ ڈرون حملوں کے حوالے سے آمریت تھی کہ جمہوریت سبھی حکمرانوں نے عوام کی رضاکے خلاف ان کی روک تھام کے لیے عملی سطح پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا کیونکہ عوام کی خواہشوںاور تحفظ سے زیادہ ان کے نزدیک اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ عالمی سیاست میں ہونے والے موجودہ بڑے جنگی واقعات کسی بھی باشعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا عوام کی حمایت کا حصول سیاست میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے؟یا عوام کو اس حوالے سے بھی بہت بڑے دھوکے میں رکھا جاتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے حکمران میکاولی کی استحصالی خیالیات سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، میکاولی کا خیال تھا کہ ایک بادشاہ کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے لبادے میں پیش کرے کہ عوام سوچ بھی نہ سکیں کہ وہ ان کو دھوکا یا فریب دے رہا ہے۔یعنی سیاست میکاولیت کے تحت دھوکا دہی ایک خوبی ہے جو آج کے حکمرانوں کا مرکزی سیاسی وصف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں