کیسے کیسے لوگ
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمہ جہت خصوصیات کی حامل شخصیات ہوتی ہیں، ہاں ! یہ حقیقت ہے اس میں کسی قسم کا ...
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمہ جہت خصوصیات کی حامل شخصیات ہوتی ہیں، ہاں ! یہ حقیقت ہے اس میں کسی قسم کا شائبہ نہیں، ہر انسان فطرتاً ،نسلاً، قوم و قبیلہ، زبان و کلچر، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے معاشرہ میں پہچانا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بالخصوص ہمارا مسلم معاشرہ تقسیم ہوا ہے۔ یعنی مختلف خیالات و نفسیات رکھتے ہیں، معاشرہ افراد سے جنم لیتا ہے، خاندان سے لے کر زندگی کے تمام افراد مل کر معاشرہ کو تشکیل دیتے ہیں، اسی طرح جب معاشرہ ترتیب پاجاتاہے تو مختلف گروپ، گروہ، قبیلوں اور سرداروں میں تقسیم ہوجاتاہے۔ ان میں بوڑھے، جوان، بچے، مرد ، عورت شامل ہوتے ہیں، یوں سب کے اپنے حقوق متعین کردیے گئے ہیں، مثلاً والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، مرد و عورت کے حقوق، ازدواجی حقوق، انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ۔ ان حقوق کا متعین ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں، ایک دوسرے سے محبت و اخوت کے ساتھ رہتے ہوں، یعنی ایک اچھے معاشرے کو جنم دیں نہ کہ معاشرہ میں برائیاں، اختلافات، لڑائی، جھگڑے، ذاتی معاملاتی جھگڑے، فسادات قائم ہوں۔ ایسا معاشرہ ہی انسانیت کی نفی ہوتی ہے اور جس معاشرے میں ایسی بنیادی کمزوریاں یا برائیاں پائی جاتی ہوں ایسا معاشرہ ہی غیر انسانی معاشرہ یا غیر فطری معاشرہ کہلاتاہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک بہترین معاشرہ قائم کرنے کے لیے تعلیم کا ہونا ضروری ہے، جس میں تعلیم یافتہ افراد ہوںگے، ایسا معاشرہ تہذیب یافتہ معاشرہ کہلائے گا اور جب کسی معاشرے میں تعلیم نہیں ہوگی وہ جھگڑالو، فسادی، جرائم پیشہ ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنے والا معاشرہ ہوگا۔ اسی لیے ہر انسان کا فرض ہے کہ سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دے، لیکن یہ بھی تو فطری عمل ہے کہ روشنی کو پہچاننے کے لیے اندھیروں کے وجود کو تسلیم کرنا ہوتاہے۔ سیاہی کی موجودگی ہی انسان کو سفیدی کا تصور دیتی ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی پہلا سبق ''اقرأ'' ہی کا دیا تھا یعنی ''پڑھ'' جب پڑھ کہہ دیا تو اسے علم کا درجہ حاصل ہوا۔ یعنی تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہوگیا جس نے تعلیم حاصل کی وہ روشن مستقبل کا حامل ہوگیا اور جو غیر تعلیم یافتہ رہ گیا وہ جاہل کہلایا اور جاہلیت کے دور میں داخل ہوگیا، اسی مقام سے دنیاوی معاشرہ کی تقسیم بھی ہوگئی۔ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ پڑھا لکھا انسان اور ان پڑھ انسان کہلانے لگا۔
اس لیے ہر دور میں تعلیم یافتہ معاشرہ حاکم رہا، یعنی حاکمیت اس کے حصے میں آئی اور دوسرا ان پڑھ معاشرہ محکومیت کے درجے پر فائز ہوگیا۔ اسی طرح معاشرے کے دیگر شعبے قائم ہوتے گئے۔ دینی، دنیاوی و جغرافیائی علوم کے دروازے کھلتے گئے، تعلیم یافتہ لوگ بڑھتے گئے۔ معاشرے میں تبدیلی رونما ہوتی گئیں، انسانی معاشرہ خاندان سے پڑوسی، محلوں، گائوں، قصبوں، شہروں اور پھر ملک میں تبدیل ہوگیا، یوں دنیا کا قیام بھی مکمل ہوگیا اور انسانوں کی آبادیاں بھی ۔ محلوں، گائوں، قصبوں، شہروں اور پھر مختلف ممالک میں بٹ گئیں۔ ان تمام مراحل میں تعلیم یافتہ طبقے کا کردار ہی نمایاں رہا، اس لیے کہ تعلیم نے ہی ان کے شعور کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک تحت الشعور، ظاہر ہے جب انسان کا شعور بیدار ہوجاتاہے تو ہر اچھے برے عمل اور اس کے نتائج کو سمجھنے بوجھنے کا شعور بھی آجاتاہے۔ یعنی اس کی فطرت میں ''عقل'' کا استعمال شروع ہوجاتاہے۔
وہ اپنے دماغ کو صحیح اور غلط راستوں کو ڈھونڈھنے کا متحمل ہوجاتاہے جو صحیح راستہ اختیار کرتاہے وہ فلاح پاتاہے اور یہ وہی تعلیم یافتہ طبقہ ہوتاہے اور جو غلط راستے پر چل پڑتاہے تو فلاح پانا تو در کنار معاشرے کو بھی گندہ کردیتاہے، اسی طبقہ (غیر تعلیم یافتہ) کی وجہ سے صرف معاشرے ہی میں نہیں پوری کی پوری آبادیوں میں جھگڑے، فساد، چوری چکاری، قتل و غارت گری جیسی برائیاں سرائیت کر جاتی ہیں۔ صرف سرائیت نہیں کر جاتیں بلکہ حاوی ہوجاتی ہیں۔ اب ان تمام برائیوں کا تدارک کون کرے، کس طرح کرے، کیونکہ معاشرے میں تبدیلی آئے اسی سوچ نے معاشرے میں ''سربراہیت'' کا تصور پیدا کیا اور اس تصور نے خاندان کے سربراہ کس طرح، محلوں، گائوں، قصبوں، شہروں اور ملکوں میں اپنا بڑا مقرر کرنا شروع کردیا۔ بڑا سب کا سربراہ مانا گیا، اس کے حقوق اس کی حاکمیت، اس کے فیصلوں کو تسلیم کیا گیا اور حاکم و محکوم کا فلسفہ پورا ہوا۔
لیکن اس سربراہیت کے تصور نے دیگر یعنی چند ایسے سربراہ بھی پیدا کردیے کہ ان میں اپنی حاکمیت کی بالادستی کو منوانے کا غرور پیدا ہوگیا اور بزور طاقت اپنی حاکمیت کو تسلیم کرانے پر آمادہ ہوگیا۔ یہیں سے آپس کے اختلافی جھگڑے، فساد اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا۔ زر، زن، زمین ہی ان بنیادی فسادات، اختلافات اور حاکمیت کی بالادستی کی جڑ ثابت ہوئے اور صدیوں گزر جانے کے بعد بھی دنیاوی فسادات وجھگڑے، زر، زن زمین کی وجہ سے ہوتے چلے آرہے ہیں، کیا ہم موجودہ دور میں اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کررہے ہیں صرف مشاہدہ ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ ان فسادی، جھگڑالو اور قتل و قتال کی فضا میں زندگی بسر کررہے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی تو اسی دور میں پروان چڑھی ہے بلکہ عروج پر پہنچ کر وحشیانہ درجہ حاصل کرچکی ہے۔ انسان اپنے ارتقائی دور میں کتنا بھولا بالا۔ معصوم، سیدھا سادہ تھا اب ترقی پاکر بھی جانوروں سے بد تر زندگی بسر کررہاہے۔
کیوں! صرف اس وجہ سے کہ ہماری آبادی کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے جن قوموں نے تعلیم کے حصول کو ترجیح دی وہی آج ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ کا نظریہ نے بھی ان کو ترقی یافتہ ملک بنایا۔جہاں انسانی حقوق پامال ہوںگے وہاں تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں حصول انسانی حقوق کا دعویدار طبقہ، محنت کشوں کا طبقہ ہے جن کا موٹو ہی یہی ہے کہ ''حقوق حاصل نہیں کیے جاتے بلکہ حقوق چھینے جاتے ہیں'' کیوں! اتنا سخت موقف انھوںنے کیوں اپنایا۔ اس لیے کہ آجروں نے ہمیشہ محنت کشوں کے حقوق سلب کیے۔ حالانکہ وہ بھی ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قول سے واقف ہوںگے کہ ''مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کردو'' اس زریں قول کو بھلادینے اور اس کی نفی کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک مختلف قسم کے بحرانوں سے دو چار ہے۔ ہر محکمہ، ہر ادارہ، ہر فیکٹری و کارخانے دار، کاروباری حضرات، تجارتی طبقہ کے لوگ سب ہی نے اپنے اداروں، محکموں، فیکٹریوں اورکارخانوں میں نا انصافی پر مبنی نظام قائم کررکھاہے۔ جس کی وجہ سے ملازمین و محنت کشوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔
ملازمین و محنت کش دفاتروں اور فیکٹریوں میں نظر آنے کی بجائے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ ٹائر نذر آتش کرتے ہیں۔ املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، اپنے حقوق کی پامالی کا اظہار کرتے ہیں، اگر حکومت وقت اس صورت حال کا ادراک کرے اور اپنی حکمت عملی تیار کرتے وقت ہی ملازمین، محنت کشوں اور عوام کے حقوق کی بار آوری کے لیے منصوبہ سازی کرے تو کیا ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ ہرگز نہیں لیکن کہا بھی کیا جاسکتاہے اور کیا بھی کیا جاسکتاہے کہ ''بعد از خرابیٔ بسیار باشد'' کوئی تدبیر، کوئی منصوبہ بندی، کوئی حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان حقوق کی بار آوری کے لیے نیت واعمال کو درست نہیں کیا جاتا۔ بے ایمانی، دل میں کھوٹ، نیت میں فتور اور ذہنوں میں عیاری، مکاری، چالاکی، چالبازی سماجائے تو پھر وہاں انسانی حقوق کا تصور تو در کنار بلکہ ''حقوق'' ہی کا تصور ناپید ہوتاہے۔
انسانی حقوق کا حصول اور اس کی بار آوری یا اس کی پامالی انفرادی عمل سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں معاشرے میں بسنے والے مختلف فطرتیں اور نظریات رہنے والے لوگ ہی ذمے دار ہوتے ہیں۔ جہاں اچھے لوگ ہوتے ہیں وہاں برے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اچھے لوگ معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں کرپاتے بلکہ وہ لوگ معاشرہ پر چھا جاتے ہیں جو بڑی قماش کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ جو اچھے لوگ ہوتے ہیں وہ ان برے لوگوں جیسی حرکات نہیں کرتے، کسی کو نقصان پہنچانا، کسی کو پریشان کرنا،کسی کا مال کھاجانا، کسی کو دھوکا دینا یہ ان کا شعار نہیں ہوتا وہ شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں اور مجسم شریف ہوتے ہیں، اس لیے شاید کہاجاتا ہے کہ دنیا میں ''کیسے کیسے لوگ'' رہتے ہیں لیکن ساتھ میں ایسے ویسے لوگ بھی ہوتے ہیں، معاشرہ ایسے ملاپ کا نام بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ مختلف آمیزش کے لوگ بھی اس معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔