عقل مند مرد
ہم تو بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں کہ عورت اور مرد گاڑی کے دوپہیے ہیں۔ اگر دونوں پہیے برابر نہ ہوں تو...
ہم تو بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں کہ عورت اور مرد گاڑی کے دوپہیے ہیں۔ اگر دونوں پہیے برابر نہ ہوں تو گاڑی نہیں چل سکتی۔یہ شاید اس دورکی بات ہے جب موٹرکار ایجاد نہیں ہوئی تھی اور بیل گاڑی دوپہیوں پر چلتی تھی ورنہ ہم یہ سنتے کہ کار کے آگے والے پہیے مرد کے اور پیچھے والے عورت کے ہوتے ہیں۔ ان چاروں کا یکساں ہونا گاڑی میں توازن کے لیے ضروری ہے۔ بحث شاید اس پر ہوتی کہ آگے کس کے پہیے ہیں اور پیچھے کس کے ۔لیکن بھلا ہو ابراھیم عزمی ایڈووکیٹ کا کہ انھوں نے اپنے کالم مورخہ 11 اکتوبر ،''عقلمند عورتیں'' میں یہ بحث ہی ختم کردی کہ گاڑی تو ایک ہی پہیے سے چلتی ہے۔ اور پاکستان میںکل چھ عقلمند عورتیں ہیں جنہوں نے یہ کام کردکھایا ہے۔ جہاں تک ان خواتین کی بات ہے ہم ان کی عقلمند ی کے قائل ہیں مگر ان کی ذاتی زندگیوں میں جھانک کرنہیں دیکھا کہ دوسرا پہیہ غائب ہے یا بیویوں کی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔ ویسے یہ منطق خوب ہے کہ اگر بیوی صرف شوہر کی متعین کردہ حدود میں رہے تو زندگی اچھی گذرتی ہے۔ پھر اس میں توازن کہاں رہا؟ایک شخص کی حاکمیت ہی کی بات ہوئی نا !
وہ خود ذرا ان خواتین سے پوچھ لیتے کہ معقول اور سمجھ دار مرد ہونے سے کتنا فرق پڑتا ہے تو یہ کچھ غیر منطقی بے ربط سی باتیں نہیں لکھتے۔ خوش بخت عالیہ میری دوست ہیں۔ ان سے ہی معلوم کرلیتے کہ کیا آپ کی زندگی میں شجاعت جیسے شوہر سے کچھ فرق پڑا ہے تو انھیں یہ حقیقت معلوم ہوجاتی کہ ایک خوشگوار زندگی کے لیے عورت اور مرد دونوں ہی کا سمجھ دار ہونا ضروری ہے۔ کمتری یا برتری کی بات نہیں ہوتی بلکہ ایک اچھی ازدواجی زندگی میں دونوں فریق ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور اپنے لیے کچھ حدود متعین کرلیتے ہیں۔ اگر خواتین کی کچھ حدیں ہیں تو مردوں کی بھی ہوتی ہیں۔ جہاں ایک فریق بھی اس کا احترام نہیںکرتا مسائل وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے ان خواتین کی مثال دی ہے جو پبلک لائف میں اور اپنے کام میںمردوں کے شانہ بشانہ بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے تو اپنے شوہر سے آگے نکل کر ہر قدم پر آگے بڑھی ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ بے نظیر بھٹو آصف زرداری سے کہیں زیادہ قدآور شخصیت ہیں ۔ کیا ان کی حدیں ان کے شوہر نے مقرر کی تھیں؟نہیں جناب ایسے جوڑے باہمی رضا مندی سے اپنی حدوں کا تعین کرتے ہیں اور عورتوں کے آگے بڑھنے میں مدد کرنے والے مرد صرف وہی ہوتے ہیں جنھیں اپنے آپ پر بھروسہ ہوتا اور وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے۔
ہمارے بیشتر مرد عجیب و غریب رویوں کا شکار ہوتے ہیں۔جو ان کے احساس کمتری کی غمازی کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بسااوقات یہ رویے تشدد آمیز بھی ہوجاتے ہیں۔ اخباروں میں آئے دن خواتین پر تشدد کی خبریں بھی ان ہی رویوں کا شاخسانہ ہیں۔ عورت کمتر ہے۔ مرد کے اشارے پر نہ چلے تو خراب ہے۔ یا تو وہ ناقص العقل ہے یا پھر بہت تیز اور چنٹ ، چالاک ہے۔ پٹ کر چپ رہے ۔ اپنے حصے کا دوسرے کو کھلادے تو نیک بی بی ہے ورنہ سراسر قصور وار ہے۔ مرد کہتا ہے میری حدود میں رہو۔ملا کہتا ہے میری حدود میں رہو۔جرگہ کہتا ہے ہم حدود کا فیصلہ کرتے ہیں۔عورت کی اپنی مرضی کوئی نہیں ہوتی وہ تو بس موم کی گڑیا ہے۔ محترم اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ 21 ویں صدی میں یہ نہیں چل سکتی۔آپ مرد کی حاکمیت منوانے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ معاشرے وقت کے لحاظ سے اپنی اقدار ترتیب دیتے ہیں۔ ایٹمی توانائی کے دور میں پتھر کے زمانے کا کلچر واپس نہیں آسکتا۔یہ بھی ایک وطیرہ ہے کہ ہر برائی میں چھپا دو۔ جس طرح یہاں چھوٹی بچیوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے۔ قتل و غارت گری بہیمانہ تشدداور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ ہمیں اپنی خرابیوں کی نشاندہی کرکے اپنے معاشرے کو بچانے کی ضرورت ہے نہ کہ اسی خوش خیالی میں رہیں کہ ہماری مشرقی روایات بہت اچھی ہیں۔ اپنے چاروں طرف نظر ڈالیں کونسی روایات باقی رہی ہیں۔ نہ بڑوں کا احترام ،نہ اساتذہ کی عزت نہ چھوٹوں کا لحاظ نہ عورت کا تقدس کچھ بھی تو نہ بچا۔
مشترکہ خاندان کی اپنی خوبیاں اور مسائل ہیں۔ نیوکلیئر فیملی کے بھی اپنے مسائل اور مثبت پہلو ہیں۔ جب عورت اور مرد دونوں کام کرتے ہیں تو ان کی مختلف ضروریات ہوتی ہیں۔متوازن لوگ ایک درمیانی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب کو اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ان کی کیا ذمے داریاں ہیں اور وہ کس طرح پوری کرسکتے ہیں۔ ہر موڑ پر مشرق اور مغرب کا موازنہ کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ابراھیم عزمی ان چھ عقل مند مردوں کی تعریف کرتے جنہوں نے اپنے بیویوں کا ساتھ دیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پبلک لائف میں نمایاں کردار ادا کریں تاکہ دوسرے مرد بھی ان سے سبق سیکھ سکیں۔مجھے فہمیدہ ریاض کی نظم کا ایک شعر بہت اچھا لگتا ہے۔ جس میں انھوں نے نئی عورت کا خاکہ کھینچا ہے جو فخر سے کہتی ہے ۔
''میں آدم ِنو کی ہمسفر ہوں کہ
جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت''
وہ خود ذرا ان خواتین سے پوچھ لیتے کہ معقول اور سمجھ دار مرد ہونے سے کتنا فرق پڑتا ہے تو یہ کچھ غیر منطقی بے ربط سی باتیں نہیں لکھتے۔ خوش بخت عالیہ میری دوست ہیں۔ ان سے ہی معلوم کرلیتے کہ کیا آپ کی زندگی میں شجاعت جیسے شوہر سے کچھ فرق پڑا ہے تو انھیں یہ حقیقت معلوم ہوجاتی کہ ایک خوشگوار زندگی کے لیے عورت اور مرد دونوں ہی کا سمجھ دار ہونا ضروری ہے۔ کمتری یا برتری کی بات نہیں ہوتی بلکہ ایک اچھی ازدواجی زندگی میں دونوں فریق ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور اپنے لیے کچھ حدود متعین کرلیتے ہیں۔ اگر خواتین کی کچھ حدیں ہیں تو مردوں کی بھی ہوتی ہیں۔ جہاں ایک فریق بھی اس کا احترام نہیںکرتا مسائل وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے ان خواتین کی مثال دی ہے جو پبلک لائف میں اور اپنے کام میںمردوں کے شانہ بشانہ بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے تو اپنے شوہر سے آگے نکل کر ہر قدم پر آگے بڑھی ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ بے نظیر بھٹو آصف زرداری سے کہیں زیادہ قدآور شخصیت ہیں ۔ کیا ان کی حدیں ان کے شوہر نے مقرر کی تھیں؟نہیں جناب ایسے جوڑے باہمی رضا مندی سے اپنی حدوں کا تعین کرتے ہیں اور عورتوں کے آگے بڑھنے میں مدد کرنے والے مرد صرف وہی ہوتے ہیں جنھیں اپنے آپ پر بھروسہ ہوتا اور وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے۔
ہمارے بیشتر مرد عجیب و غریب رویوں کا شکار ہوتے ہیں۔جو ان کے احساس کمتری کی غمازی کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بسااوقات یہ رویے تشدد آمیز بھی ہوجاتے ہیں۔ اخباروں میں آئے دن خواتین پر تشدد کی خبریں بھی ان ہی رویوں کا شاخسانہ ہیں۔ عورت کمتر ہے۔ مرد کے اشارے پر نہ چلے تو خراب ہے۔ یا تو وہ ناقص العقل ہے یا پھر بہت تیز اور چنٹ ، چالاک ہے۔ پٹ کر چپ رہے ۔ اپنے حصے کا دوسرے کو کھلادے تو نیک بی بی ہے ورنہ سراسر قصور وار ہے۔ مرد کہتا ہے میری حدود میں رہو۔ملا کہتا ہے میری حدود میں رہو۔جرگہ کہتا ہے ہم حدود کا فیصلہ کرتے ہیں۔عورت کی اپنی مرضی کوئی نہیں ہوتی وہ تو بس موم کی گڑیا ہے۔ محترم اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ 21 ویں صدی میں یہ نہیں چل سکتی۔آپ مرد کی حاکمیت منوانے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ معاشرے وقت کے لحاظ سے اپنی اقدار ترتیب دیتے ہیں۔ ایٹمی توانائی کے دور میں پتھر کے زمانے کا کلچر واپس نہیں آسکتا۔یہ بھی ایک وطیرہ ہے کہ ہر برائی میں چھپا دو۔ جس طرح یہاں چھوٹی بچیوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے۔ قتل و غارت گری بہیمانہ تشدداور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ ہمیں اپنی خرابیوں کی نشاندہی کرکے اپنے معاشرے کو بچانے کی ضرورت ہے نہ کہ اسی خوش خیالی میں رہیں کہ ہماری مشرقی روایات بہت اچھی ہیں۔ اپنے چاروں طرف نظر ڈالیں کونسی روایات باقی رہی ہیں۔ نہ بڑوں کا احترام ،نہ اساتذہ کی عزت نہ چھوٹوں کا لحاظ نہ عورت کا تقدس کچھ بھی تو نہ بچا۔
مشترکہ خاندان کی اپنی خوبیاں اور مسائل ہیں۔ نیوکلیئر فیملی کے بھی اپنے مسائل اور مثبت پہلو ہیں۔ جب عورت اور مرد دونوں کام کرتے ہیں تو ان کی مختلف ضروریات ہوتی ہیں۔متوازن لوگ ایک درمیانی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب کو اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ان کی کیا ذمے داریاں ہیں اور وہ کس طرح پوری کرسکتے ہیں۔ ہر موڑ پر مشرق اور مغرب کا موازنہ کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ابراھیم عزمی ان چھ عقل مند مردوں کی تعریف کرتے جنہوں نے اپنے بیویوں کا ساتھ دیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پبلک لائف میں نمایاں کردار ادا کریں تاکہ دوسرے مرد بھی ان سے سبق سیکھ سکیں۔مجھے فہمیدہ ریاض کی نظم کا ایک شعر بہت اچھا لگتا ہے۔ جس میں انھوں نے نئی عورت کا خاکہ کھینچا ہے جو فخر سے کہتی ہے ۔
''میں آدم ِنو کی ہمسفر ہوں کہ
جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت''