حج بیت اللہ افضل ترین عبادت

’’حج‘‘ کے لغوی معنیٰ قصد اور ارادے کے ہیں، اصطلاح شریعت میں مخصوص عبادت کی ادائیگی کے لیے۔۔۔


Maulana Muhammad Abid Nadovi October 14, 2013
فوٹو: فائل

''حج'' کے لغوی معنیٰ قصد اور ارادے کے ہیں، اصطلاح شریعت میں مخصوص عبادت کی ادائیگی کے لیے بیت اﷲ شریف کی زیارت اور مقامات مقدسہ میں مخصوص افعال مخصوص دنوں میں انجام دینے کو حج کہا جاتا ہے۔

قرآن پاک کی مختلف آیات میں حج کا ذکر آیا ہے جن میں سے دو کو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:

٭''لوگ آپؐ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپؐ کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور حج کا وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔'' (سورۂ بقرہ۔189)

٭''اور حج و عمرہ کو اﷲ کے لیے پوراکرو۔''

(سورۂ بقرہ۔196)

گویا حج شریعت میں معروف عبادات کی ادائیگی کے لیے بیت اﷲ کی زیارت کا نام ہے جو احرام، طواف، سعی اور حلق یا قصر پر مشتمل ہوتی ہے۔

٭ مناسک حج:

قرآن پاک میں یہ لفظ مطلقاً عبادت یا طریقۂ عبادت کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے جس پر وہ چلتے ہیں۔''

(سورۃ الحج۔67)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:''پس جب تم اپنے مناسک (اعمال حج) پورے کرلو تو اﷲ کو یاد کرو۔''

حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے رمی کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:''اے لوگو! اپنے مناسک (حج کے افعال) سیکھ لو، کیوں کہ شاید میں اس سال کے بعد حج نہ کرسکوں۔''

غرض مناسک کے یہی معنیٰ زیادہ معروف ہیں کہ اس سے حج و عمرہ کے اعمال و افعال مراد ہیں جیسے طواف و سعی حلق و قصر، وقوف عرفہ، مزدلفہ، قربانی اور رمی جمرات وغیرہ۔



٭حج اسلام کا اہم ترین رکن:

حج کے بے شمار فضائل رسول اﷲ ﷺ سے مروی ہیں جنھیں محدثین نے کتب احادیث میں جمع کردیا ہے۔ یہ فضائل اپنی جگہ، لیکن ان سب سے مقدم حج کی یہ حیثیت ہے کہ یہ اسلام کا اہم ترین رکن اور ستون ہے جس پر دین اسلام کی عمارت قائم ہے۔ اس سے مراد یہ ہوئی کہ حج کے بغیر اسلام کی عمارت ناقص و نامکمل ہے۔ یہی وجہ کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج بیت اﷲ کو ہر اس شخص کے لیے فرض قرار دیا گیا جو بیت اﷲ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ لیکن جو شخص اس استطاعت و قدرت کے باوجود حج نہ کرے، اس کے لیے قرآن و حدیث میں شدید وعید بیان ہوئی ہے۔

اسلام کے ارکان بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں۔ دوسرے نماز قائم کرنا۔ تیسرے زکوٰۃ دینا، چوتھے حج کرنا اور پانچویں رمضان کے روزے رکھنا۔''

قرآن پاک میں حج بیت اﷲ کا ذکر اس طرح آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور لوگوں پر اﷲ کا حق ہے کہ جو کوئی اس کے گھر (بیت اﷲ شریف) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کی زیارت کرے (یعنی حج کرے) اور جو کوئی انکار کرے تو اﷲ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔'' (سورۂ آل عمران۔97)

یعنی کوئی شخص حج کا انکار کرکے یا فریضۂ حج ادا نہ کرکے اﷲ کی عظمت و شان اور اس کی کبریائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کرسکتا، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی کی حمد و ستائش اور عبادت و اطاعت کا محتاج نہیں۔ اس ساری حمد و ستائش اور عبادت کا فائدہ تو خود اس بندے کو پہنچتا ہے جو اس کی اطاعت و بندگی میں مشغول اور اس کی حمد و ستائش میں مصروف رہتا ہے۔

٭افضل ترین عمل:

حج ایسی عبادت ہے جسے بہتر اور افضل عمل قرار دیاگیا ہے۔ کونسے اعمال افضل ہیں؟ یا درجے اور مرتبے کے لحاظ سے کونسا عمل کس عمل پر فوقیت رکھتا ہے، اس سلسلے میں سیدنا ابوہریرہ ؓ درج ذیل روایت نقل کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ سے دریافت کیاگیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟

نبی برحقؐ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔''

پھر خدمت نبویؐ میں عرض کیا گیا:''اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے؟''

تاج دار انبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ کے راستے میں جہاد کرنا۔''

دریافت کیاگیا:''اس کے بعد؟''

رسالت مآبؐ نے ارشاد فرمایا:''مبرور حج۔'' (یعنی مقبول حج)

ایمان کے بغیر تو کوئی عمل اﷲ کے ہاں قابل قبول نہیں لہٰذا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان، توحید و رسالت کا اقرار و اعتراف یقیناً سب سے مقدم اور تمام اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے بنیادی اور اہم ترین شرط ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ حقیقت بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ایمان کا تعلق، اعضا و جوارح سے بڑھ کر دل سے ہے، گویا یہ دل کا فعل اور عمل ہے۔

ایمان و جہاد کے بعد سب سے مقدم اور برتر عمل حج مبرور یعنی مقبول حج ہے۔ ایک حدیث میں اسے مشرق و مغرب کے درمیان تمام اعمال سے افضل قرار دیاگیا۔ حضرت ماعزؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے دریافت کیاگیا کہ کونسے اعمال افضل ہیں؟

چناں چہ اﷲ کے حبیبؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا:''ایک اﷲ پر ایمان لانا پھر جہاد (یعنی اﷲ کے راستے میں جہاد کرنا) پھر مبرور حج سورج کے طلوع و غروب (یعنی مشرق و مغرب) کے درمیان تمام اعمال پر فضیلت رکھتا ہے۔''

ایک دوسری روایت میں حج مبرور کے ساتھ عمرہ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ایمان و اسلام اور جہاد فی سبیل اﷲ کی فضیلت اور اس کی مزید توضیح کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''یہ دو عمل وہ افضل ترین اعمال ہیں ہاں سوائے اس کے کہ کوئی شخص ان دونوں کے مثل (کوئی نیکی ) کرے ( اور وہ دو افضل عمل یہ ہیں) حج مبرور اور عمرہ۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں