بچو بادشاہ پیر وزیر اور ان کے سرفروش منصور

سانگھڑ میں متوازی حکومت کی داستان جس نے انگریز حکومت کو چیلنج کیا

پیران پگارا کے مریدوں کی سچی کہانی جو دلوں پر حکومت کرتے تھے

دوسری جنگ عظیم کے اس جاپانی شاہی فوجی کی داستان حربی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے جو 1945 میں اپنے کمانڈر میجر یوشی می ٹانی گوچی کے حکم پر فلپائن کے جنگلات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس ہدایت کے ساتھ پہنچا کہ ''تم یہاں رکو اور آنے والے امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھو، لیکن تمہیں صرف نظر رکھنی ہے ان پر نہ تو حملہ کرنا ہے نہ ہی کسی اور کارروائی میں حصہ لینا ہے، بس امریکیوں کا جائزہ لیتے رہو۔''

ہیرو اونوڈا نامی نڈر اور بہادر نوجوان کو فلپائن کے اس جنگل میں پتا ہی نہ چلا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور جاپان جو جرمنی کا اتحادی تھا یہ لڑائی ہار چکا ہے وہ تو اپنے باقی ماندہ تین ساتھیوں کے ساتھ کمانڈر کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا۔

اس کا ایک ساتھی 1950 میں دوسرا 1972 میں اور تیسرابعد میں طبعی طور پر چل بسا، تب بھی یہ گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے تھا۔ ایک جاپانی سیاح کو منیلا میں سن گن ملی تو وہ اس جزیرے پر پہنچا جان جوکھم میں ڈال کر کسی طرح ملاقات کی اور بتایا کہ دنیا تبدیل ہوچکی ہے لیکن اونوڈا مصر تھا کہ وہ ہتھیار کمانڈر کے حکم پر ہی ڈالے گا۔ نوریو سوزوکی نامی سیاح نے جاپان جاکر حکومت کو صورت حال بتائی کمانڈر یوشی کو جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کتاب مرکز چلا رہے تھے فلپائن لے جایا گیا اور ایک تقریب میں اونوڈا نے ہتھیار ڈالے یہ 1974 کے مارچ کی 10 تاریخ تھی۔

ہیرو اونوڈا کی داستان میں اس کا یہ قول سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ''انسان کو کبھی بھی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے، میں بھی کبھی ایسا نہیں کرتا، مجھے شکست سے نفرت ہے۔'' اونوڈا نے تو لاعلمی میں جدوجہد جاری رکھی لیکن سندھ میں بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے جانتے ہوئے کہ برطانیہ کا پرچم نصف دنیا پر لہراتا ہے اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا اس کے باوجود سانگھڑ، خیرپور اور ملحقہ ریگستانی و میدانی علاقوں میں متوازی حکومت قائم کی جو سانگھڑ سرکار کہلاتی تھی۔ بچو خاصخیلی اس کے بادشاہ اور پیر بخش وسان وزیراعظم مقرر ہوئے۔ وزیر، مشیر، قاضی اور کوتوال کے عہدے بھی اپنے جانثار ساتھیوں میں تقسیم کیے گئے۔


یہ حکومت کم و بیش آٹھ برس قائم رہی اس کا مرکز مکھی کے جنگلات تھے جہاں اسی نام سے منسوب جھیل بھی ہے اور یہ علاقہ موجودہ ضلع سانگھڑ کی حدود میں آتا ہے۔ کہتے ہیں 512 کوس سے زائد رقبے پر پھیلی جھیل کے قرب و جوار میں سو کے لگ بھگ دوسری جھیلیں بھی تھیں اور پورے علاقے میں پانی، درخت اور جھاڑیاں یا پودے بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض علاقوں میں تو دن کے وقت کچھ سجھائی نہ دیتا تھا گوریلا جنگ کے لیے اور حکام کی نظروں سے اوجھل رہنے کے لیے یہ جگہ مثالی تھی۔ سندھی میں شہد کو ماکھی کہتے ہیں چوںکہ اس جنگل میں درختوں پر شہد کے چھتے جا بجا ملتے تھے اس لیے یہ جنگل ابتداً ماکھی اور پھر عرف عام میں مکھی بیلہ کہلانے لگا۔

بچو بادشاہ اور پیرو وزیر کے سرفروش ساتھی منصور کہلاتے تھے اور بارہ کی نسبت سے باروٹھیا بھی پکارا جاتا تھا ان کی سرفروشی اور عوام میں مقبولیت سے ''سارا سندھ منصور'' کی کہاوت بھی زبان زد عام ہوئی۔ یہ 1890 کا عشرہ تھا جب انگریزوں کا ظلم و ستم بڑھا وہ 1839 میں کراچی، 1843 میں حیدرآباد اور 1857 میں پورا متحدہ ہندوستان فتح کرچکے تھے۔

پلاسی، بکسر اور میسور کے معرکوں میں کام یابی نے ان کی من مانیاں بڑھا دی تھیں۔ سندھ میں انگریزوں کو تالپوروں کی باقیات سے زیادہ خطرہ یہاں کے ان بااثر افراد سے تھا جو عوام میں گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان میں ایک بڑا نام راشدی پیر بھی تھے۔ یہ پیر سید علی گوہر شاہ ثانی ''محافے دھنی'' کا عہد تھا اور حُر جماعت جس کی اکثریت جنگجو تھی چیلنج کرنے کا وصف بھی رکھتی تھی۔ خیرپور کے تالپور حکم راں انگریزوں کے حامی تھے اور بعض متمول افراد بھی انگریزوں کی خوش نودی کے لیے سندھ میں انگریزوں کے مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے تھے۔ ایسے ستم بڑھے تو بغاوت کی چنگاریاں شعلہ جوالہ بن گئیں اور سانگھڑ سرکار قائم ہوئی۔

بچو بادشاہ کا گاؤں مٹھڑاؤ بیان کیا جاتا ہے جو ہیڈ جمڑاؤ روڈ پر گجری بنگلہ کے قریب آج بھی واقع ہے۔ ان کے والد وریام فقیر خاصخیلی رلی والے کہلاتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان سنجھورو کے قریب آباد ہوا۔ بچو بادشاہ سے انگریزوں کی نفرت اس قدر تھی کہ 1895 میں مٹھڑاؤ کو جلا ڈالا تھا۔ بچو بادشاہ کا سن ولادت 1863 بیان کیا جاتا ہے جب کہ پیرو وزیر کی جس کا نام پیر بخش وسان تھا تحصیل سنجھورو کے گاؤں بھڑی کے نواحی گوٹھ میں ولادت ہوئی۔ ساتھیوں میں تگیو چانگ فقیر، گلوگاگنانی منگریو، بھلوگاہو، مصری گاہو، عثمان ہنگورو، عیسیٰ ڈاہری، خمیسو وسان، سومار گاہو، فتلو ہنگورو اور رانو وسان کے نام ملتے ہیں۔

پروفیسر مبین وسان کی تحقیق کے مطابق جو روضہ دھنی چیئر لطیف یونیورسٹی خیرپور نے کتابی صورت میں شایع کی ہے خمیسو وسان کوتوال تھا جب کہ دیگر امیر، مشیر، قاضی، کوتوال حکمرانی، آبیانے کی وصولی، سماجی انصاف کی فراہمی پر مامور تھے اور درجنوں دوسرے ان کے دست و بازو مضبوط کرنے کے لیے مکھی کے ٹکن والے دڑے، ہیرن جھیل اور جھوڑو کے جھاؤ درخت کے رابطہ مراکز پر جا ملے تھے یہ افرادی قوت ضلع میں ایسی طاقت بن کر ابھری کہ متوازی حکومت سے برٹش سرکار لرزہ براندام تھی سانگھڑ سرکار کے وابستگان میں سیکڑوں نام ملتے ہیں
Load Next Story