جہاں گشت
رات تاریکی میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے
قسط نمبر 66
وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ جس میں شیاطین گھومتے ہیں۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ اور رات کا کیا ہے، وہ تو ہوتی ہی ایسی ہے ناں! نہیں جی! ایسی نہیں ہوتی ہر رات۔ ہر رات، گزری ہوئی سے مختلف ہوتی ہے۔
ہمارا طرز رہائش ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر رات کو ایک جیسا سمجھنے اور ایک جیسا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کیا کسی بند کمرے میں پُوری رات کا رمز کُھل سکتا ہے؟ جب دیکھو ایک سا منظر، وہی در و دیوار اور اس لگی ہوئی کوئی پینٹنگ، زیادہ ہوا تو ایئر کنڈیشنر کی مصنوعی سرد ہوا، وہی پلنگ و بستر، اور پھر یک سانیت کا گلہ بھی جو مرض اور پھر روگ میں بدل جاتا ہے۔
ایسی جگہوں پر تو آنکھیں اور دماغ منجمد ہوجاتا ہے اور کچھ دیکھنے اور سوچنے سے انکاری۔ جی! آپ کا فرمانا درست ہے کہ جیون میں اتنے مسائل ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ جی درست فرمایا آپ نے! لیکن کیا کبھی آپ نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے ؟ اور اگر کی ہے اور پھر بھی نہیں بدل سکے تو آپ اپنی بات میں حق بہ جانب ہیں، لیکن پھر یہ بھی تو سوال ہوگا کہ یہ جو طرز زندگی ہے اسے آپ نے خود اپنے لیے منتخب بھی تو کیا ہے ناں، دور جدید کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا بھی تو آپ چاہتے ہیں ناں، اور ہاں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ آپ نے ترقی و آسائش کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اور جو کر رہے ہیں تو کیا واقعی آپ نے درست انتخاب کیا ہے ؟ ضروریات زندگی کو اسی لیے مختصر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی لیے سادگی کی تلقین کی گئی ہے کہ سادہ طرز زندگی میں آپ خود کو اس منجدھار سے بچا کر رکھ سکتے ہیں، لیکن پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماجی جبر کا سامنا کون کرے، اتنی ہمت و جرأت کہاں سے لائیں کہ ہم اپنا جیون آپ جییں اور سماج کے جبر کو پیچھے دھکیل دیں۔
فقیر کہیں اور نکل رہا ہے تو واپس پلٹتے ہیں تو بات ہورہی تھی رات کی۔ ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی جی! کوئی تاریکی سے نہاتی ہے، چیختی ہے، چلّاتی ہے، دھاڑتی ہے، جنوں میں اپنا سر اشجار سے ٹکراتی ہے، کوہ ساروں میں وحشت سے لڑکھڑاتی ہے، صحرا میں دیوانوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی رات، کسی آوارہ کی طرح بے منزل کوئی رات، ایسی بھی ہوتی ہے رات جی۔ کیا اب یہ بھی بتایا جائے کہ مقام بدلنے سے رات بدلتی ہے، اس کا اسرار بدلتا ہے، اس کی تاثیر بدلتی ہے۔ آپ کبھی صحرا میں ہوں تو دیکھیے کتنی خوب صورت ہوتی ہے رات، ستاروں سے بھرا آکاش جسے شہر کے مکین دیکھنے کو ترس گئے ہیں، دن بدلتا ہے تو رات بدل جاتی ہے۔
جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کرکے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ کرکے بھی دیکھیے، فقیر کو تو رب تعالٰی نے یہ ساری نعمتیں عنایت کی ہیں اور وافر، ثناء ہے بس رب کائنات کے لیے، بس اُسی کے لیے۔ جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے تمام ہوا ماجرا۔ شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔
واہ جی واہ! کیا جیون ہے اُن کا، فقیر کو انہوں نے اپنے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کی سعادت بخشی تھی، بہت عرصہ رہا اُن راز زندگی پانے والوں کے سنگ، رب کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ رب تعالٰی نے فرمایا ہے ناں کہ زمین کی سیر کرو اور راز ہائے کائنات کو جانو۔ رب نے چاہا تو بتائے گا آپ کو فقیر کہ خانہ بہ دوش کیا ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں، توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔ عاشقین پر، کسانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی۔ وصال میں بھی کُھلتی ہے رات! جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے۔
سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اُس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ رب کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔ رب جی کرم کرے تو بات بنے کہ بس وہی ہے، بس وہی۔
جی تو فقیر بتا رہا تھا کہ وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ بابا نے فقیر کو بتایا تھا کہ تمہارے حنیف بھائی واپس لوٹ آئیں گے تب انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا، جی ایسے جیسے کسی مُردے میں کوئی روح داخل ہوگئی ہو، جی پھر ایسا ہی ہوا۔ میں اور بابا زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، ہم سے کچھ فاصلے پر حنیف بھائی سر نیہوڑائے گم سم تھے، پھر اچانک ہی وہ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے، خاموش، پھر وہ ہمارے قریب آئے اور بابا کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنا شریک بنایا، فقیر یہ سب دیکھ رہا تھا، حیرت سے نہیں، اب یہ مناظر فقیر کے لیے معمول تھے، پھر بابا اور حنیف بھائی فقیر کے پاس آئے اور اب ہم تین تھے، اور پھر اچانک خاموشی کو حنیف بھائی کی دل دوز چیخ نے چیر ڈالا تھا، اور پھر تو ان کی چیخوں سے ویرانہ گونجنے لگا۔
بابا انہیں سنبھالے ہوئے تھے، فقیر لاکھ کوشش کرلے آپ سے وہ منظر بیان نہیں کر پائے گا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں تو بس اتنا ہی جان لیں کہ کبھی کسی کے گلے پر تیز نہیں کُند چُھری پھیر دی جائے اور اس کی شہہ رگ کچھ کٹ جائے تو جان سکتے ہیں کیا حالت ہوگی اُس کی اور کیسا ہوگا وہ منظر۔ چلیے کچھ اور آسان کیے دیتے ہیں جیسے کسی دیسی مرغ کی گردن پر چُھری پھیر کر اسے ٹرپنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو جان سکتے ہیں یہ کیفیت جس پر گزر رہی ہو۔ نہیں جان سکتے آپ! نہیں بہت مشکل ہے بیان کرنا، یہ جو آپ اپنے تئیں سمجھ بیٹھے ہیں کہ فقیر کتنی آسانی سے یہ سب کچھ بیان کردیتا ہے ناں! نہیں جناب ایسا ہے نہیں، فقیر خود کو وہیں پاتا ہے اور اُسی تکلیف میں، لکھتے ہوئے آنکھیں برستی ہیں اور پھر سب دُھند ہوجاتا ہے اور کسی جگہ بیان کر رہا ہو تو آواز ہی روٹھ جاتی اور سکت ہی نہیں رہتی۔
چھوڑیے اور آگے چلیے! یہ دیکھیے
میں نے اپنا حال بتانا چاہا تھا
مجھ سے پہلے میرا آنسو بول دیا
اور یہ بھی سنیے!
اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا!
حنیف بھائی کی حالت ایسی ہی تھی، پھر ہم سب کی آنکھیں برسات ہوئیں اور اس میں ہم نہائے، پھر قرار اترا اور اس نے گلے سے لگایا اور پھر مسکراہٹ اترائی، فضا مسکرائی، ہَوا گنگنائی اور منظر بدل گیا، رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ رات نے رخت سفر باندھا اور فضا میں حنیف بھائی کی اذان فجر گونجی! واہ جی تیری آواز مکّے اور مدینے۔ بابا کی اقتداء میں صلوۃ الفجر ادا کی گئی اور ان کی مختصر سی دعا: ''ہم تیرے ہیں مالک، ہمیں کسی اور کے حوالے مت کرنا، ہماری ساری تقصیریں معاف ہوں، تُو ہی ہے ہمارا کارساز و مالک و مختار'' ناشتہ، فقیروں کا کیا ناشتہ جی! رات کی باسی روٹی اور چائے کے ساتھ، سبحان اﷲ۔ بابا نے کام پر جانے کی تیاری کی اور حنیف بھائی مجھ سے باتیں کرنے لگے، کیا باتیں، بس رہنے دیجیے۔
وہ بہت نڈھال تھے، رخصت ہوتے ہوئے میں نے بابا کی جانب دیکھا تو مسکرائے اور کہا: آج اپنے بھائی کی واپسی کا جشن مناؤ پھر کل سے کام پر جانا۔ حنیف بھائی کو بھی کیا باکمال انسان بنایا رب تعالٰی نے، اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں۔ انہیں اپنا بچپن یاد آیا پھر بابا کے ساتھ چلے آنا اور نہ جانے کیا کیا۔
فقیر جو بات سننا چاہتا تھا وہ اس بارے میں خاموش تھے، میں تو یہ سمجھا تھا اور میں بے وقوف اور عجلت کا مارا ایسا ہی تھا، ہوں اور جب تک ہوں ایسا ہی رہوں گا، احمق کہیں کا، تو سننا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے اس ماہ وش کے بارے میں بات کریں گے، تشویش اور خدشات کا اظہار کریں گے، لیکن صاحبو! عجب انسان ہیں وہ، ایک مرتبہ بھی یہ نہیں پوچھا۔ بہت دیر ہوگئی تھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنے تئیں انہیں بتایا کہ میں اور بابا اسلام آباد گئے تھے، اب پھر میں یہ سننا چاہتا تھا کہ وہ بے قرار ہوکر اس کی تفصیل پوچھیں گے تو بس سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، مسکرائے اور بس۔ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ۔ پھر کیا تھا تجسس نے مجھے گھیر لیا اور میرے چاروں اُور سے میرا منہ چڑانے لگا، آس پاس سے آوازیں آنے لگیں اور پوچھو اور پوچھو، فقیر کے صبر کا پیمانہ لبالب بھر تو چکا تھا اور آخر چھلک پڑا: حنیف بھائی آپ بھی عجیب ہیں، آپ نے تو اس کا پوچھا ہی نہیں۔
ان کے ''کس کا'' نے تو فقیر کے سارے کَس بَل نکال ڈالے۔ فقیر نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور طے کرلیا کہ اب وہ اگر خود بھی پوچھیں گے تو خاموش رہا جائے گا۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حنیف بھائی بولے: میرے بھائی نے اتنے دن تک مجھ ایسے بھائی کی خدمت کی تو بس دعا ہے کہ رب تعالٰی میرے بھائی کو اس صلہ دے۔ وہ اسی طرح سے فقیر کو مخاطب کرتے تھے۔ میں نے کیا خاک خدمت کی آپ کی اور آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ میں نے آپ کی خدمت کی، آپ کھا رہے تھے نہ پی رہے تھے تو کیسے کرتا خدمت ۔۔۔۔ ؟
فقیر کی بات بہ غور سنی میرے قریب آئے اور کہا: تُو کیوں ہے اتنا بے وقوف میرے بھائی۔ ہاں ہوں میں بے وقوف، میں بننا بھی نہیں چاہتا آپ کی طرح عقل مند، میں بھی ان سے دُو بہ دُو تھا۔ ہاں صحیح کہہ رہا ہے تُو میرے بھائی، اگر تُو بھی عقل مند ہوجاتا تو پھر کیسے چلتا کاروبار جہاں پگلے، تیرے جیسوں کی وجہ سے تو چل رہا ہے عقل مندوں کا دھندا، سارے ہی عقل مند ہوجائیں گے تو پھر تو سب کچھ الٹ پلٹ جائے گا ناں۔ حنیف بھائی نے اپنی بات ختم کی تو میں نے ایک نیا تِیر اپنے ترکش سے نکالا اور ان کی جانب پھینک دیا: جی جی! بڑے آئے عقل مند اتنے دن سے اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔
کچھ پتا ہی نہیں تھا اور اب بن رہے ہیں عقل مند۔ حنیف بھائی مسکرائے اور کہا: میں ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا ناں کہ تُو ہے ہی بے وقوف پگلے! تُو یہی سمجھ رہا ہے ناں کہ میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا، احمق انسان میں اس وقت تھا مکمل ہوش میں، اب ہوگیا ہوں بیگانہ تو، جبھی تو اتنی عقل مندی کی باتیں کر رہا ہوں۔ اب تو فقیر گم سم تھا، کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حنیف بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں، بہت دیر تک میں سوچتا رہا اور پھر سے حنیف بھائی سے الجھ گیا، لیکن مجھے تو بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ تمہارا بھائی ہوش میں نہیں ہے تو اس کا خیال رکھنا، میری بات سنی اور کہنے لگے: وہ جانتے ہیں ناں کہ تم کتنے بے وقوف ہو، اسی طرح تمہیں سمجھا سکتے تھے وہ۔ تُو پگلا ہے میرے بھائی! اور بے وقوف بھی۔ کیا مطلب میں سمجھا نہیں حنیف بھائی۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ تجھے ہر بات سمجھ میں آئے، وقت تو آنے دے پھر سمجھ بھی جائے گا، یہ کہہ کر حنیف بھائی کٹیا سے باہر نکل گئے۔
فقیر اب بھی سوچتا ہے اور بس اتنا ہی جان پایا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ پہلے سوچو پھر کلام کرو، فقیر اب بھی بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو لیکن فقیر تو کام پہلے کر لیتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی باتیں۔ فقیر تو اب بھی ویسے کا ویسا ہے جی! دھاک کے تین پات بس، بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے، نتیجے کو سوچے بغیر کر گزرتا ہے، کسی بھی دلدل میں اُتر جاتا ہے لیکن اس کا اعتراف بھی اور شُکر کے ساتھ کہ رب تعالٰی اُس کے بگاڑے ہوئے کام کو درست فرما دیتا ہے، اسے ہر دلدل سے نکال باہر کرتا ہے، فقیر کو اُس کے خالق و مالک و مختار رب جلیل و کریم نے کسی کے حوالے نہیں کیا، کبھی نہیں کیا، اس کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے، بس اُسی حمد ہے، اُسی کی ستائش ہے، اُسی کی بندگی ہے، اسی کی ثناء ہے، بس وہی ہے کارکُشا و کارساز، صرف وہی۔
کُھلا ہمیشہ مصیبت میں اک نہ اک درِغیب
یہ اسم کچھ مرے وردِ زبان کیسے ہیں
وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ جس میں شیاطین گھومتے ہیں۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ اور رات کا کیا ہے، وہ تو ہوتی ہی ایسی ہے ناں! نہیں جی! ایسی نہیں ہوتی ہر رات۔ ہر رات، گزری ہوئی سے مختلف ہوتی ہے۔
ہمارا طرز رہائش ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر رات کو ایک جیسا سمجھنے اور ایک جیسا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کیا کسی بند کمرے میں پُوری رات کا رمز کُھل سکتا ہے؟ جب دیکھو ایک سا منظر، وہی در و دیوار اور اس لگی ہوئی کوئی پینٹنگ، زیادہ ہوا تو ایئر کنڈیشنر کی مصنوعی سرد ہوا، وہی پلنگ و بستر، اور پھر یک سانیت کا گلہ بھی جو مرض اور پھر روگ میں بدل جاتا ہے۔
ایسی جگہوں پر تو آنکھیں اور دماغ منجمد ہوجاتا ہے اور کچھ دیکھنے اور سوچنے سے انکاری۔ جی! آپ کا فرمانا درست ہے کہ جیون میں اتنے مسائل ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ جی درست فرمایا آپ نے! لیکن کیا کبھی آپ نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے ؟ اور اگر کی ہے اور پھر بھی نہیں بدل سکے تو آپ اپنی بات میں حق بہ جانب ہیں، لیکن پھر یہ بھی تو سوال ہوگا کہ یہ جو طرز زندگی ہے اسے آپ نے خود اپنے لیے منتخب بھی تو کیا ہے ناں، دور جدید کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا بھی تو آپ چاہتے ہیں ناں، اور ہاں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ آپ نے ترقی و آسائش کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اور جو کر رہے ہیں تو کیا واقعی آپ نے درست انتخاب کیا ہے ؟ ضروریات زندگی کو اسی لیے مختصر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی لیے سادگی کی تلقین کی گئی ہے کہ سادہ طرز زندگی میں آپ خود کو اس منجدھار سے بچا کر رکھ سکتے ہیں، لیکن پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماجی جبر کا سامنا کون کرے، اتنی ہمت و جرأت کہاں سے لائیں کہ ہم اپنا جیون آپ جییں اور سماج کے جبر کو پیچھے دھکیل دیں۔
فقیر کہیں اور نکل رہا ہے تو واپس پلٹتے ہیں تو بات ہورہی تھی رات کی۔ ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی جی! کوئی تاریکی سے نہاتی ہے، چیختی ہے، چلّاتی ہے، دھاڑتی ہے، جنوں میں اپنا سر اشجار سے ٹکراتی ہے، کوہ ساروں میں وحشت سے لڑکھڑاتی ہے، صحرا میں دیوانوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی رات، کسی آوارہ کی طرح بے منزل کوئی رات، ایسی بھی ہوتی ہے رات جی۔ کیا اب یہ بھی بتایا جائے کہ مقام بدلنے سے رات بدلتی ہے، اس کا اسرار بدلتا ہے، اس کی تاثیر بدلتی ہے۔ آپ کبھی صحرا میں ہوں تو دیکھیے کتنی خوب صورت ہوتی ہے رات، ستاروں سے بھرا آکاش جسے شہر کے مکین دیکھنے کو ترس گئے ہیں، دن بدلتا ہے تو رات بدل جاتی ہے۔
جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کرکے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ کرکے بھی دیکھیے، فقیر کو تو رب تعالٰی نے یہ ساری نعمتیں عنایت کی ہیں اور وافر، ثناء ہے بس رب کائنات کے لیے، بس اُسی کے لیے۔ جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے تمام ہوا ماجرا۔ شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔
واہ جی واہ! کیا جیون ہے اُن کا، فقیر کو انہوں نے اپنے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کی سعادت بخشی تھی، بہت عرصہ رہا اُن راز زندگی پانے والوں کے سنگ، رب کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ رب تعالٰی نے فرمایا ہے ناں کہ زمین کی سیر کرو اور راز ہائے کائنات کو جانو۔ رب نے چاہا تو بتائے گا آپ کو فقیر کہ خانہ بہ دوش کیا ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں، توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔ عاشقین پر، کسانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی۔ وصال میں بھی کُھلتی ہے رات! جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے۔
سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اُس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ رب کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔ رب جی کرم کرے تو بات بنے کہ بس وہی ہے، بس وہی۔
جی تو فقیر بتا رہا تھا کہ وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ بابا نے فقیر کو بتایا تھا کہ تمہارے حنیف بھائی واپس لوٹ آئیں گے تب انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا، جی ایسے جیسے کسی مُردے میں کوئی روح داخل ہوگئی ہو، جی پھر ایسا ہی ہوا۔ میں اور بابا زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، ہم سے کچھ فاصلے پر حنیف بھائی سر نیہوڑائے گم سم تھے، پھر اچانک ہی وہ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے، خاموش، پھر وہ ہمارے قریب آئے اور بابا کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنا شریک بنایا، فقیر یہ سب دیکھ رہا تھا، حیرت سے نہیں، اب یہ مناظر فقیر کے لیے معمول تھے، پھر بابا اور حنیف بھائی فقیر کے پاس آئے اور اب ہم تین تھے، اور پھر اچانک خاموشی کو حنیف بھائی کی دل دوز چیخ نے چیر ڈالا تھا، اور پھر تو ان کی چیخوں سے ویرانہ گونجنے لگا۔
بابا انہیں سنبھالے ہوئے تھے، فقیر لاکھ کوشش کرلے آپ سے وہ منظر بیان نہیں کر پائے گا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں تو بس اتنا ہی جان لیں کہ کبھی کسی کے گلے پر تیز نہیں کُند چُھری پھیر دی جائے اور اس کی شہہ رگ کچھ کٹ جائے تو جان سکتے ہیں کیا حالت ہوگی اُس کی اور کیسا ہوگا وہ منظر۔ چلیے کچھ اور آسان کیے دیتے ہیں جیسے کسی دیسی مرغ کی گردن پر چُھری پھیر کر اسے ٹرپنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو جان سکتے ہیں یہ کیفیت جس پر گزر رہی ہو۔ نہیں جان سکتے آپ! نہیں بہت مشکل ہے بیان کرنا، یہ جو آپ اپنے تئیں سمجھ بیٹھے ہیں کہ فقیر کتنی آسانی سے یہ سب کچھ بیان کردیتا ہے ناں! نہیں جناب ایسا ہے نہیں، فقیر خود کو وہیں پاتا ہے اور اُسی تکلیف میں، لکھتے ہوئے آنکھیں برستی ہیں اور پھر سب دُھند ہوجاتا ہے اور کسی جگہ بیان کر رہا ہو تو آواز ہی روٹھ جاتی اور سکت ہی نہیں رہتی۔
چھوڑیے اور آگے چلیے! یہ دیکھیے
میں نے اپنا حال بتانا چاہا تھا
مجھ سے پہلے میرا آنسو بول دیا
اور یہ بھی سنیے!
اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا!
حنیف بھائی کی حالت ایسی ہی تھی، پھر ہم سب کی آنکھیں برسات ہوئیں اور اس میں ہم نہائے، پھر قرار اترا اور اس نے گلے سے لگایا اور پھر مسکراہٹ اترائی، فضا مسکرائی، ہَوا گنگنائی اور منظر بدل گیا، رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ رات نے رخت سفر باندھا اور فضا میں حنیف بھائی کی اذان فجر گونجی! واہ جی تیری آواز مکّے اور مدینے۔ بابا کی اقتداء میں صلوۃ الفجر ادا کی گئی اور ان کی مختصر سی دعا: ''ہم تیرے ہیں مالک، ہمیں کسی اور کے حوالے مت کرنا، ہماری ساری تقصیریں معاف ہوں، تُو ہی ہے ہمارا کارساز و مالک و مختار'' ناشتہ، فقیروں کا کیا ناشتہ جی! رات کی باسی روٹی اور چائے کے ساتھ، سبحان اﷲ۔ بابا نے کام پر جانے کی تیاری کی اور حنیف بھائی مجھ سے باتیں کرنے لگے، کیا باتیں، بس رہنے دیجیے۔
وہ بہت نڈھال تھے، رخصت ہوتے ہوئے میں نے بابا کی جانب دیکھا تو مسکرائے اور کہا: آج اپنے بھائی کی واپسی کا جشن مناؤ پھر کل سے کام پر جانا۔ حنیف بھائی کو بھی کیا باکمال انسان بنایا رب تعالٰی نے، اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں۔ انہیں اپنا بچپن یاد آیا پھر بابا کے ساتھ چلے آنا اور نہ جانے کیا کیا۔
فقیر جو بات سننا چاہتا تھا وہ اس بارے میں خاموش تھے، میں تو یہ سمجھا تھا اور میں بے وقوف اور عجلت کا مارا ایسا ہی تھا، ہوں اور جب تک ہوں ایسا ہی رہوں گا، احمق کہیں کا، تو سننا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے اس ماہ وش کے بارے میں بات کریں گے، تشویش اور خدشات کا اظہار کریں گے، لیکن صاحبو! عجب انسان ہیں وہ، ایک مرتبہ بھی یہ نہیں پوچھا۔ بہت دیر ہوگئی تھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنے تئیں انہیں بتایا کہ میں اور بابا اسلام آباد گئے تھے، اب پھر میں یہ سننا چاہتا تھا کہ وہ بے قرار ہوکر اس کی تفصیل پوچھیں گے تو بس سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، مسکرائے اور بس۔ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ۔ پھر کیا تھا تجسس نے مجھے گھیر لیا اور میرے چاروں اُور سے میرا منہ چڑانے لگا، آس پاس سے آوازیں آنے لگیں اور پوچھو اور پوچھو، فقیر کے صبر کا پیمانہ لبالب بھر تو چکا تھا اور آخر چھلک پڑا: حنیف بھائی آپ بھی عجیب ہیں، آپ نے تو اس کا پوچھا ہی نہیں۔
ان کے ''کس کا'' نے تو فقیر کے سارے کَس بَل نکال ڈالے۔ فقیر نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور طے کرلیا کہ اب وہ اگر خود بھی پوچھیں گے تو خاموش رہا جائے گا۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حنیف بھائی بولے: میرے بھائی نے اتنے دن تک مجھ ایسے بھائی کی خدمت کی تو بس دعا ہے کہ رب تعالٰی میرے بھائی کو اس صلہ دے۔ وہ اسی طرح سے فقیر کو مخاطب کرتے تھے۔ میں نے کیا خاک خدمت کی آپ کی اور آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ میں نے آپ کی خدمت کی، آپ کھا رہے تھے نہ پی رہے تھے تو کیسے کرتا خدمت ۔۔۔۔ ؟
فقیر کی بات بہ غور سنی میرے قریب آئے اور کہا: تُو کیوں ہے اتنا بے وقوف میرے بھائی۔ ہاں ہوں میں بے وقوف، میں بننا بھی نہیں چاہتا آپ کی طرح عقل مند، میں بھی ان سے دُو بہ دُو تھا۔ ہاں صحیح کہہ رہا ہے تُو میرے بھائی، اگر تُو بھی عقل مند ہوجاتا تو پھر کیسے چلتا کاروبار جہاں پگلے، تیرے جیسوں کی وجہ سے تو چل رہا ہے عقل مندوں کا دھندا، سارے ہی عقل مند ہوجائیں گے تو پھر تو سب کچھ الٹ پلٹ جائے گا ناں۔ حنیف بھائی نے اپنی بات ختم کی تو میں نے ایک نیا تِیر اپنے ترکش سے نکالا اور ان کی جانب پھینک دیا: جی جی! بڑے آئے عقل مند اتنے دن سے اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔
کچھ پتا ہی نہیں تھا اور اب بن رہے ہیں عقل مند۔ حنیف بھائی مسکرائے اور کہا: میں ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا ناں کہ تُو ہے ہی بے وقوف پگلے! تُو یہی سمجھ رہا ہے ناں کہ میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا، احمق انسان میں اس وقت تھا مکمل ہوش میں، اب ہوگیا ہوں بیگانہ تو، جبھی تو اتنی عقل مندی کی باتیں کر رہا ہوں۔ اب تو فقیر گم سم تھا، کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حنیف بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں، بہت دیر تک میں سوچتا رہا اور پھر سے حنیف بھائی سے الجھ گیا، لیکن مجھے تو بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ تمہارا بھائی ہوش میں نہیں ہے تو اس کا خیال رکھنا، میری بات سنی اور کہنے لگے: وہ جانتے ہیں ناں کہ تم کتنے بے وقوف ہو، اسی طرح تمہیں سمجھا سکتے تھے وہ۔ تُو پگلا ہے میرے بھائی! اور بے وقوف بھی۔ کیا مطلب میں سمجھا نہیں حنیف بھائی۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ تجھے ہر بات سمجھ میں آئے، وقت تو آنے دے پھر سمجھ بھی جائے گا، یہ کہہ کر حنیف بھائی کٹیا سے باہر نکل گئے۔
فقیر اب بھی سوچتا ہے اور بس اتنا ہی جان پایا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ پہلے سوچو پھر کلام کرو، فقیر اب بھی بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو لیکن فقیر تو کام پہلے کر لیتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی باتیں۔ فقیر تو اب بھی ویسے کا ویسا ہے جی! دھاک کے تین پات بس، بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے، نتیجے کو سوچے بغیر کر گزرتا ہے، کسی بھی دلدل میں اُتر جاتا ہے لیکن اس کا اعتراف بھی اور شُکر کے ساتھ کہ رب تعالٰی اُس کے بگاڑے ہوئے کام کو درست فرما دیتا ہے، اسے ہر دلدل سے نکال باہر کرتا ہے، فقیر کو اُس کے خالق و مالک و مختار رب جلیل و کریم نے کسی کے حوالے نہیں کیا، کبھی نہیں کیا، اس کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے، بس اُسی حمد ہے، اُسی کی ستائش ہے، اُسی کی بندگی ہے، اسی کی ثناء ہے، بس وہی ہے کارکُشا و کارساز، صرف وہی۔
کُھلا ہمیشہ مصیبت میں اک نہ اک درِغیب
یہ اسم کچھ مرے وردِ زبان کیسے ہیں