نوآموز پاکستان ٹیم اور کپتان کا کڑا امتحان

شائقین کو گرین شرٹس سے کرشماتی کارکردگی کی توقعات


Abbas Raza October 27, 2019
سینئرز کی عدم موجودگی میں بابراعظم کو قیادت کے ساتھ بیٹنگ کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD:

ورلڈ کپ 2015 کی ناکام مہم کے بعد ریٹائر ہونے والے کپتان مصباح الحق کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی گئی۔ سابق کرکٹرز اور مبصرین نے فرسودہ کرکٹ کو چھوڑ کر جدید انداز اپنانے پر زور دیا۔ پی سی بی کی جانب سے بہتری لانے کے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے لیکن اچانک ہی ایسا فیصلہ کیا گیا کہ دنیائے کرکٹ حیران رہ گئی۔ اس وقت ورلڈکپ اسکواڈ کے قابل بھی نہ سمجھے جانے والے اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپنے کا حیران کن فیصلہ کیا گیا۔


خدشات کے عین مطابق " مصباح الحق ٹو" کو کپتان بنائے جانے کے بعد مائنڈسیٹ تبدیل کرنے کا غیر فطری منصوبہ ناکام ہوا تو قرعہ فال سرفراز احمد کے نام نکلا۔ کپتان اور کھلاڑیوں کی میدان میں اچھل کود کافی زیادہ ہوئی، فٹنس میں بہتری کا نعرہ بھی لگایا گیا لیکن اس دوران مستقل مزاجی کی امیدیں حسرت میں بدلتی رہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ون ڈے میں چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں ایک کرشمہ ضرور ہوا لیکن مجموعی طور پر پرفارمنس متاثر کن نہیں رہی۔


انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ سے ٹیسٹ اور ون ڈے میچز کےلیے موزوں ٹیلنٹ تلاش کرنے کے بجائے پی ایس ایل سے سامنے آنے والے نوجوان کرکٹرز پر انحصار کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو فتوحات کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی لیکن ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں ٹمپرامنٹ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کمی ہوتی گئی۔ تکینک، مزاج اور فٹنس میں کمی کی وجہ سے عامیانہ معیار کے کرکٹرز کو آزمانے اور باہر بٹھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مستقبل غیریقینی ہونے کی تلوار لٹکی رہنے کی وجہ سے کئی کھلاڑی بننے کے بجائے بگڑے اور پھر ٹیم سے باہر ہی ہوگئے۔ کبھی کسی ایک بیٹنگ یا بولنگ پوزیشن پر کسی نے کارکردگی دکھائی بھی تو اگلی سیریز میں حریف ٹیم اور کنڈیشنز بدلتے ہی مسائل سامنے آنے لگے۔


مثال کے طور پر چیمپئنز ٹرافی میں احمد شہزاد سے مایوس ہوکر فخرزمان کو موقع دیا گیا۔ ٹیمیں ان کی تکنیک سے واقف نہیں تھیں،اس لیے انہوں نے کارکردگی بھی دکھائی۔ بعد ازاں ان کا بیٹ زیادہ تر کمزور ٹیموں کے خلاف ہی چلتا نظر آیا۔ ورلڈکپ میں بھی اوپنر کوئی بڑی اور تہلکہ خیز اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ روہت شرما، ایرون فنچ سے موازنہ کیا جائے تو اوپنرز کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ امام الحق تکنیکی طور پر بہتر ہونے کے باوجود آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیندوں اور باﺅنسرز پر اپنی کمزوری پر قابو نہیں پاسکے۔ بابراعظم اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھاتے رہے لیکن ٹاپ آرڈر کی ناکامیاں بعض اوقات ان کا نیچرل کھیل بھی متاثر کردیتی ہیں۔ آﺅٹ آف فارم کپتان سرفراز احمد بیشتر مواقع پر دھوکا دیتے رہے۔ پاکستان ٹیم کو ورلڈکپ میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔


بولنگ میں بھی تجربات کا سلسلہ آخر تک ختم نہیں ہوا۔ محمد عامر اور وہاب ریاض کو جنید خان اور فہیم اشرف کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد شامل کیا گیا۔ چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو حسن علی اور شاداب خان بیٹسمینوں کےلیے خطرہ نہیں بن سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان نے اگر اچھا مجموعہ حاصل کر بھی لیا تو بولرز دفاع نہیں کرپائے۔


ورلڈکپ کی ناکام مہم کے بعد ایک بار پی سی بی کو کئی سوالوں کے جواب تلاش کرنا تھے۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے بیشتر اختیارات بھی سنبھال لینے والے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے قومی کرکٹ کے پورے سسٹم میں سدھار لانے کا دعویٰ کیا۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کو رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا۔ کرکٹ کمیٹی میں شامل مصباح الحق نے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا، پھر خود ہی ہیڈکوچ کے ساتھ چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔


ورلڈکپ 2015 کے بعد مائنڈسیٹ تبدیل کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے مصباح الحق کے بجائے اظہر علی کو ون ڈے کپتان بنانے کا ناکام تجربہ کیا گیا تھا، ستم ظریفی یہی ہے کہ اب وہی مصباح الحق ڈبل رول میں فیصلے کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو بے حال کررہے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف سیریز سے قبل سرفراز احمد کو بھرپور سپورٹ فراہم کرنے کے دعوے کرنے والے سابق کپتان نے ایک دم ہی مستقبل کےلیے تیاریوں کے نام پر ان کو باہر بٹھانے کا فیصلہ کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں کارکردگی اچھی نہیں تھی لیکن اس کا قصوروار صرف سرفراز احمد کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔


چیمپئنز ٹرافی فتح کے باوجود ٹیم میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کےلیے مسلسل کام کرنے کی ضرورت تھی۔ طویل فارمیٹ کےلیے موزوں کرکٹرز کی کھیپ تیار کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ٹی ٹوئنٹی میں تو پاکستان ٹیم نمبر ون تھی، سری لنکا کے ہاتھوں ہوم سیریز میں شکست ہوئی تو اس کی وجہ کمبی نیشن میں تبدیلی تھی۔ یہ فیصلے بھی سرفراز احمد نے نہیں کیے تھے، اس کے باوجود ان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔


اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ قیادت بابراعظم کو سونپ دی گئی۔ نوجوان بیٹسمین قومی ٹیم کے واحد کھلاڑی ہیں جن کی کارکردگی میں تسلسل ہے۔ کپتانی کا بوجھ اٹھانے کےلیے ان کے کندھوں پر انحصار پاکستان کو مہنگا بھی پڑسکتا ہے۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی درست نہیں لگتا کہ ان کی پہلی ہی آزمائش سخت جان کینگروز کے خلاف سیریز میں ہوگی۔ ٹیسٹ کرکٹ میں قیادت کےلیے اظہر علی کو لایا گیا ہے جن کی گزشتہ انٹرنیشنل میچز میں انفرادی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔


آسٹریلیا میں پاکستان کی ٹیمیں ہمیشہ جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ ریکارڈز پر نظر ڈالی جائے تو مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے۔ کئی نامی گرامی کرکٹرز کی موجودگی میں بھی پاکستانی ٹیمیں فتوحات کو ترستی رہیں۔ کئی تجربہ کار کپتانوں کا حوصلہ بھی جواب دیتا رہا۔ ابھی تک پاکستان نے آسٹریلیا میں 35 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ صرف 4 جیتے اور 24 ہارے، جبکہ 7 ڈرا ہوئے۔ آخری فتح نومبر 1995 میں سڈنی میں حاصل کرنے کے بعد گرین کیپس نے مسلسل 12 میچ ہارے ہیں۔ فتح تو کیا، اس دوران ایک بھی میچ ڈرا کرنے میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔


ان مسلسل ناکامیوں میں سے 3 میچز میں اننگز اور اتنے ہی مقابلوں میں 200 سے زائد رنز کے مارجن سے شکست ہوئی۔ ون ڈے میں بھی پاکستان ٹیم نے کینگروز کے خلاف 56 میچز میں سے 17 جیتے اور 37 ہارے ہیں۔ ایک میچ ٹائی اور ایک بے نتیجہ ختم ہوا۔ جنوری 2017 میں کھیلی گئی سیریز میں گرین شرٹس 4 میچز میں سے ایک جیت پائے تھے۔ اس سے قبل 2010 کی سیریز کے پانچوں مقابلوں میں شکست کھائی تھی۔ پاکستان کا کینگروز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچز میں مجموعی ریکارڈ اچھا ہے۔ 20 باہمی میچز میں سے گرین شرٹس نے 12 میں کامیابی حاصل کی، 7 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ایک مقابلہ ٹائی ہوا۔ اکتوبر 2017 میں یواے ای میں کھیلی جانے والی سیریز میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 3-0 سے کلین سوئپ کیا تھا۔ کینگروز کے دیس میں دونوں ٹیمیں ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں مقابل ہوئی ہیں۔ فروری 10 میں ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان کو 2 رنز سے شکست ہوئی تھی۔


ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی ریکارڈ تو بہتر لیکن اب کپتان نیا اور قومی ٹیم میں کئی نئے چہرے بھی شامل ہیں۔ بیٹنگ میں فخرزمان اعتماد کی بحالی کےلیے کوشاں ہیں۔ حارث سہیل کی فارم اچھی نہیں۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے سینئرز کی عدم موجودگی میں بابراعظم کو قیادت کے ساتھ بیٹنگ کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ آصف علی قومی ٹی ٹوئنٹی میں چند اچھی اننگز کھیلے ہیں۔ افتخار احمد فارم کے متلاشی رہے۔ دونوں کو ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق آئندہ سال آسٹریلیا میں ہی ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پلان کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کےلیے بہترین موقع ہوگا کہ پاور ہٹر کا خلا پر کرتے ہوئے خود کو میچ ونر ثابت کریں۔ بولنگ میں محمد عامر اور وہاب ریاض کے طور پر ماضی میں فٹنس مسائل کا شکار رہنے والے طویل قامت پیسر محمد عرفان کو بھی شامل کیا گیا۔ نوجوان بولرز محمد موسٰی اور محمد حسنین کی کارکردگی پر شائقین کی نگاہیں مرکوز ہوں گی۔ آل راﺅنڈرز میں شاداب خان قومی ٹی ٹوئنٹی میں تو قدرے بہتر بولنگ کرتے نظر آئے لیکن آسٹریلوی کنڈیشنز میں ان کی کارکردگی اہم ہوگی۔ دوسری جانب عماد وسیم بھی بیٹ اور بال دونوں سے اپنی افادیت ثابت کرنے کےلیے فکرمند ہوں گے۔


ماضی کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے تو پاکستان ٹیم سے بڑی امیدیں وابستہ نہیں کی جارہی ہیں، لیکن قوم ایک بار پھر آس لگائے بیٹھی ہے کہ شاید اس بار کوئی کرشمہ ہوجائے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں