نواز شریف کے دورے کا ایجنڈا طے کرنے کیلیے مذاکرات آج ہوں گے
پاکستانی حکام کوافغانستان سے انخلا کیلیے تعاون کی امریکی مجبوری کابخوبی احساس،سول نیوکلیئرمعاہدے کامعاملہ اٹھائیں گے
کرزئی انتظامیہ کی جانب سے عدم تعاون کے اشارے ملنے پرامریکی حکام پاک امریکا تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کی امید لیے آج اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے خارجہ امور سے متعلق اعلیٰ حکام سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرینگے۔
امریکا کے پاکستان وافغانستان کیلیے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبنز اور پاکستان میں امریکا کے سفیر رچرڈ اولسن امریکی مذاکرات کاروں جبکہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی پاکستانی وفد کی قیادت کرینگے ۔ اطلاعات کے مطابق وزارت خارجہ اسلام آباد میں ہونیوالی اس اعلیٰ سطح ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورتحال اور 2014ء میں امریکی واتحادی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت میں پاکستان کے ممکنہ تعاون پر بحث کے علاوہ 21 اکتوبر سے 28 اکتوبر تک کے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ واشنگٹن کے دوران طے پانیوالے دو طرفہ تعاون کے معاملات کو ابتدائی شکل دینا ہے مگر حالیہ دنوں میں افغان حکام کی جانب سے امریکی انتظامیہ کیساتھ بعض معاملات پر عدم تعاون کے اشارے ملنے کے بعد صورتحال بہت حد تک بدل چکی ہے۔
دورہ اقوام متحدہ کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری محض 30 منٹ کی مختصر ملاقات کے دوران وزیراعظم پاکستان کی جانب سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تعاون اور ڈرون حملوں کے حوالے سے زیادہ تفصیل سے بات سننے کو تیار نہ تھے مگر دو روز قبل کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کیساتھ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے ہونیوالے بے نتیجہ ملاقات نے امریکا کو افغانستان اور پاکستان سے تعلقات اور روابط کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائز لینے پر مجبور کردیا ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68ویں سیشن کے موقع پر نیویارک میں پاکستانی صحافیوں سے ملاقات کے دوران امریکا کے پاکستان وافغانستان کیلیے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبنز سے جب ملا برادر کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے انتہائی افسردگی سے کہاکہ ہمیں آزادانہ رائے کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں جو بھی اطلاع ملتی ہے پاکستان یا افغانستان کی حکومتوں سے ملتی ہے۔ دونوں کا خیال تھا کہ اگر ملا برادر کو رہا کردیاجائے تو وہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تعاون کریں گے اب رہائی کے بعد وہ کیا کررہے ہیں ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں۔ اب 2014ء میں انخلا کے حوالے سے امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں 9بیس کیمپ قائم رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے جہاں انتہائی محدود پیمانے پر ان کے افسران واہلکاران موجود رہیں گے جو افغان فوج کو مانیٹر کریں گے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں امریکی انتظامیہ ریموٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے افغانستان سے باہر کسی بھی ملک میں رہ افغان فوج کو مانیٹرکرنا چاہتی ہے۔
ان تمام امور کے علاوہ افغانستان میں موجود افواج اور سازوسامان کی بحفاظت وطن واپسی کے مراحل کے خوش اسلوبی سے طے پانے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کے ذمہ داران کو ان امریکی مجبوریوں کا بخوبی اندازہ ہے۔اس لئے وہ امریکہ سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تعاون کے معاہدے اور ڈرون حملوں کے حوالے سے واضح پالیسی کے اعلان سے کم پر راضی ہونے کیلیے تیار نہیں۔دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھانے کیلیے امریکا پہلے ہی تیار ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سیاسی نامزدگی کے بجائے فارن آفس کے سینئر ترین کیریئر آفیسر کو امریکا میں سفیر مقرر کرکے امریکا کیساتھ سفارتی تعلقات میں انتہائی سنجیدگی کا پہلے ہی اظہار کیا گیا ہے۔
امریکا کے پاکستان وافغانستان کیلیے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبنز اور پاکستان میں امریکا کے سفیر رچرڈ اولسن امریکی مذاکرات کاروں جبکہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی پاکستانی وفد کی قیادت کرینگے ۔ اطلاعات کے مطابق وزارت خارجہ اسلام آباد میں ہونیوالی اس اعلیٰ سطح ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورتحال اور 2014ء میں امریکی واتحادی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت میں پاکستان کے ممکنہ تعاون پر بحث کے علاوہ 21 اکتوبر سے 28 اکتوبر تک کے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ واشنگٹن کے دوران طے پانیوالے دو طرفہ تعاون کے معاملات کو ابتدائی شکل دینا ہے مگر حالیہ دنوں میں افغان حکام کی جانب سے امریکی انتظامیہ کیساتھ بعض معاملات پر عدم تعاون کے اشارے ملنے کے بعد صورتحال بہت حد تک بدل چکی ہے۔
دورہ اقوام متحدہ کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری محض 30 منٹ کی مختصر ملاقات کے دوران وزیراعظم پاکستان کی جانب سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تعاون اور ڈرون حملوں کے حوالے سے زیادہ تفصیل سے بات سننے کو تیار نہ تھے مگر دو روز قبل کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کیساتھ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے ہونیوالے بے نتیجہ ملاقات نے امریکا کو افغانستان اور پاکستان سے تعلقات اور روابط کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائز لینے پر مجبور کردیا ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68ویں سیشن کے موقع پر نیویارک میں پاکستانی صحافیوں سے ملاقات کے دوران امریکا کے پاکستان وافغانستان کیلیے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبنز سے جب ملا برادر کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے انتہائی افسردگی سے کہاکہ ہمیں آزادانہ رائے کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں جو بھی اطلاع ملتی ہے پاکستان یا افغانستان کی حکومتوں سے ملتی ہے۔ دونوں کا خیال تھا کہ اگر ملا برادر کو رہا کردیاجائے تو وہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تعاون کریں گے اب رہائی کے بعد وہ کیا کررہے ہیں ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں۔ اب 2014ء میں انخلا کے حوالے سے امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں 9بیس کیمپ قائم رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے جہاں انتہائی محدود پیمانے پر ان کے افسران واہلکاران موجود رہیں گے جو افغان فوج کو مانیٹر کریں گے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں امریکی انتظامیہ ریموٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے افغانستان سے باہر کسی بھی ملک میں رہ افغان فوج کو مانیٹرکرنا چاہتی ہے۔
ان تمام امور کے علاوہ افغانستان میں موجود افواج اور سازوسامان کی بحفاظت وطن واپسی کے مراحل کے خوش اسلوبی سے طے پانے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کے ذمہ داران کو ان امریکی مجبوریوں کا بخوبی اندازہ ہے۔اس لئے وہ امریکہ سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تعاون کے معاہدے اور ڈرون حملوں کے حوالے سے واضح پالیسی کے اعلان سے کم پر راضی ہونے کیلیے تیار نہیں۔دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھانے کیلیے امریکا پہلے ہی تیار ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سیاسی نامزدگی کے بجائے فارن آفس کے سینئر ترین کیریئر آفیسر کو امریکا میں سفیر مقرر کرکے امریکا کیساتھ سفارتی تعلقات میں انتہائی سنجیدگی کا پہلے ہی اظہار کیا گیا ہے۔