شام میں خانہ جنگی لوگ کتے بلی گدھے کا گوشت کھانے پر مجبور

90 دن سے مسلسل محاصرے کے باعث ہمارے پاس کھانے کیلیے کچھ بھی نہیں رہا،مقامی مفتی


Monitoring Desk October 14, 2013
ہرطرف غربت و افلاس ہے، پناہ گزینوں کے پاس کھانے کیلیے روٹی ہے نہ تن پر کپڑا۔ فوٹو:فائل

شام میں ڈھائی سال سے جاری خانہ جنگی نے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی پرگہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

معیشت کی زبوں حالی، غربت، افلاس اور بھوک نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں جس کے باعث مفلوک الحال لوگ مکروہ جانوروں حتیٰ کہ کتوں، گدھوں اور بلیوں کے گوشت سے بھوک مٹانے پر مجبور ہیں۔ ایک عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل 1590 میں فرانسیسیوں کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا، ویسے تو بھوک اور ننگ کی کیفیت شام کے بیشتر شہروں میں ہے لیکن دمشق کے قریب کئی ماہ سے محاصرے کا شکار یرموک مہاجر کیمپ اس کی بدترین مثال قرار دی جا سکتی ہے،پناہ گزینوں کے پاس کھانے کیلیے روٹی ہے نہ تن پر کپڑا ۔



ٹی وی کے مطابق بھوک اور افلاس کے شکار کیمپ کے ایک باسی نے بتایا کہ گذشتہ روز میں نے 3 کتے ذبح کیے تاکہ اہالیان کیمپ کی بھوک مٹانے میں ان کی مدد کر سکوں۔ فلسطینی پناہ گزین نے بتایا کہ حال ہی میں کیمپ کی جامع مسجد کے امام اور خطیب نے یہ فتویٰ دیا کہ 90 دن سے مسلسل محاصرے کے باعث ہمارے پاس کھانے کیلیے کچھ بھی نہیں رہا، ایسے میں ہم آوارہ کتوں اور بلیوں حتیٰ کہ گدھوں کا گوشت کھا سکتے ہیں، اسلام ہمیں اضطرار کی حالت میں ان جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس فتوے کے بعد وہاں کے مجبور عوام نے کتوں، بلیوں اور گدھوں کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ مہاجر فلسطینی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنے بچوں کی زندگی بچانے کا اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ ٹی وی کے مطابق دمشق کے جنوب میں واقع یہ مہاجر کیمپ گذشتہ 3 ماہ سے سرکاری فوج کے محاصرے میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔