ملکی ترقی کے آسان طریقے

یہ ایک بہت نا مناسب سی بات ہے جس سے بہت وقت ضایع ہوتا ہے اور بار بار ڈرائیونگ لائسنس کے دفاتر میں چکر لگانے پڑتے ہیں۔


سید ذیشان حیدر October 27, 2019
www.facebook.com/syedzishanhyder

WARSAW: بظاہراً ملکی ترقی کے بارے میں سوچا جائے تو بہت سارے مشکل طریقے سامنے آتے ہیں۔ مگرکچھ طریقے اس طرح کے ہیں کہ جہاں پر بہت ہی معمولی تبدیلیوں سے زیادہ مفیدنتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اس سے پہلے گورنمنٹ کی مشینری کا تجزیہ کرلیتے ہیں۔

پاکستان کے اندر ایسے بہت سارے سرکاری دفاتراورادارے موجودہیں جہاں آئے دن کسی نہ کسی وجہ سے عوام کا ان اداروں سے رابطہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے شناختی کارڈ بنوانا ہے یا پاسپورٹ بنوانا ہے تونادرا کے دفاتر میں جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی طرح ڈرائیونگ لائسنس کے دفتر میں جانا پڑتا ہے۔ کچھ سال پہلے ڈرائیونگ لائسنس کمپیوٹرائزڈ کر دیے گئے ۔نئے کمپیوٹر رائزڈ ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ضروری قرار دیا گیا۔

اب صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ عمر رسیدہ لوگ بھی نئے ڈرائیونگ لائسنس بنوانا چاہتے ہیںتو انھیں پہلے ایک لرنر لائسنس بنوانے کا کہا جاتا ہے جس کے بعد پھرایک یا دو ماہ کے بعد ٹیسٹ ہوتا ہے اور اس کے بعد انکو لائسنس ملتا ہے ۔یہ بہت مشکل مرحلہ ہے کہ ایک تجربہ کار ڈرائیورجو کہ صرف اپنالائسنس بنواناچاہتا ہے وہ ڈائریکٹ ٹیسٹ دے کر لائسنس نہیں بنوا سکتا۔

یہ ایک بہت نا مناسب سی بات ہے جس سے بہت وقت ضایع ہوتا ہے اور بار بار ڈرائیونگ لائسنس کے دفاتر میں چکر لگانے پڑتے ہیں ۔پھر اس قسم کے اور مسائل بھی موجود ہیں۔ اگر آپ کے شناختی کارڈ پر آپ کا پتہ کسی ایک شہر کا ہے تو آپ کسی دوسرے شہر سے جا کر ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوا سکتے اور اگر بنوانا چاہیں تو پھر اپنے شناختی کارڈ کے اندر نیا پتہ بھی درج کرانا پڑتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس قسم کی بندشیں صرف وقت کا ضیاع ہیں۔مثلاً یہ کہ ایک شخص کراچی سے تعلق رکھتا ہے اور اسلام آباد روز ی روٹی کمانے کے لیے آیا ہوا ہے اور اگر وہ اسلام آباد میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانا چاہتا ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنے شناختی کارڈ کے اندر نئے یا عارضی پتے کا اندراج کرائے جو کہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے ۔ یا پھر دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ کراچی جا کر ہی وہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوائے۔

اور اگر خدا نخواستہ اس نے کراچی کے اندر ایک دفعہ لائسنس اپلائی کر دیا ہے او ر پھر اس نے کسی وجوہات کی وجہ سے وہ لائسنس حاصل نہیں کر سکا ۔تو اگر وہ اسلام آباد آ بھی چکا ہے تو اسے پہلے کراچی جا کر اپنی لائسنس درخواست منسوخ کرانا پڑے گی تو تب ہی اس کا اسلام آباد میں لائسنس بن سکتا ہے۔ اس قسم کے معاملات پہلے سے ہی مسائل میں گھرے عوام کے لیے مزید ذہنی اضطراب کا سبب بنتے ہیں۔

مزید یہ کہ آپ جب اسی ڈرائیونگ لائسنس کے دفتر میں جائیں تو وہاں پر کم ازکم دو سے ڈھائی گھنٹے تک انتظار کر نا پڑتا ہے ۔ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے بھی فیس لی جاتی ہے۔ اس سارے معاملے کی ایک اور مثال ہے کہ ایک شخص کسی ریڑھی والے سے پھل لینے گیا۔ اس نے پھل فروش سے کہا کہ سارے پھل مجھے بیچ دو تو اس ریڑھی والے نے پھل بیچنے سے انکار کر دیا کہ اگر میں یہ سارا سامان تمہیں بیچ دوں تو میں سارا دن کیا کروں گا؟

اس مثال کی طرح اگر آپ سر کاری اداروں کے اندر نفری بڑھا دیں تو وہ زیادہ کام کم وقت میں طے ہو سکتا ہے اور بقیہ وقت کے اندر وہی سرکاری افسران کوئی اور کام بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے عوام کا قیمتی وقت بچ سکتا ہے۔ جس سے وہ معیشت کے اندر اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور ساتھ میں ذہنی اضطراب سے بھی بچ سکتے ہیں ۔اور ایک طرف اگر آپ اس طرح نادرا کے ایگزیکٹو دفتر بھی بنائے گئے ہیں اسی طرح باقی پبلک ڈیلنگ والے سرکاری اداروں کے اندر خاص ایسے دفاتر بنا دیے جائیں جہاں پر صاحب حیثیت لوگ کچھ زیادہ فیس ادا کر کے جلدی اپنا وقت بچا سکیں تو یہ ملک اور عوام دونوں کے لیے خدمت ہوگی۔

ایک طرف تو مالدار شخص اور کاروباری حضرات رقم خرچ کر کے اپنا قیمتی وقت بچا سکیں گے اور دوسری طر ف پیسہ گورنمنٹ کے پاس جمع ہو جائے گا جسے وہ غریب عوام کی ترقی کے منصوبوں پر لگا سکتی ہے ۔یا یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ تیزرفتار سروس کے لیے ایک علیحدہ کائونٹر بنایا جائے جہاں پر بالکل بھی انتظار نہ کرنا پڑے تو مالدار حضرات وہاں پر جو فیس ادا کریں وہی زیادہ جمع شدہ رقم ملنے کی صورت میں ان حضرات کی فیس معاف بھی کی جا سکتی ہے جو شاید اپنے لائسنسز وغیرہ کے لیے فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

اسی طرح سر کاری دفاتر سے نکل کر آپ سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف رخ کر لیں وہاں پر بھی کچھ ایسی صورتحال ہے کسی بھی سرکاری اچھے نامی گرامی ادارے میں جائیں تو وہاں پر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے بہت سارے لوگ داخلہ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں