لاڑکانہ سے کراچی تک
لگتا ہے جی ڈی اے نے اب پیپلز پارٹی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک لاڑکانہ شہر پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ وہاں کے عوام دونوں ہی رہنماؤں کے گرویدہ تھے اور ان کی محبت کے سحر میں جکڑے ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کو سرخرو کراتے رہے ہیں لیکن اب کیا ہوا کہ وہی پیپلز پارٹی وہیں کے ایک صوبائی حلقے سے شکست سے دوچار ہوگئی ہے، یہ شکست پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس کی قیادت اپنی کارکردگی پر غورکرے ورنہ ایسا نہ ہوکہ آیندہ الیکشن تک سندھ کے حالات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں اور پھر انھیں پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ لگتا ہے جی ڈی اے نے اب پیپلز پارٹی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے مگر لگتا ہے پیپلز پارٹی اپنے اقتدارکے زعم میں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر غور تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی لاڑکانہ میں شکست پر حزب اختلاف کی پارٹیاں اب تک جشن منا رہی ہیں ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر کھل کر تنقید کے تیر چلا رہی ہیں مگر پیپلز پارٹی ان کے بیانات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ان پر پلٹ کر وار کر رہی ہے ساتھ ہی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ایک رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ لاڑکانہ میں بھٹوکے چاہنے والوں نے ثابت کردیا ہے کہ سندھ میں لوٹ کھسوٹ کا نظام اب مزید نہیں چل سکتا۔ جس طرح کراچی کے عوام نے خوف اور دہشت کے بت کو پاش پاش کرکے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو مایوس کیا اسی طرح اب لاڑکانہ کے عوام نے موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف جی ڈی اے کو ووٹ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ کسی صورت موروثی سیاست پر مبنی کرپٹ نظام کو برداشت نہیں کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ کارکردگی ابتر ہے اور وہ دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ صرف لاڑکانہ ہی کیا پورے سندھ کا یہی حال ہے۔ تاہم لاڑکانہ جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر کا مسائل سے دوچار ہونا بھٹو کے چاہنے والوں کے لیے نہایت تکلیف دہ امر ہے۔
کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی لاڑکانہ کی ابتر حالت پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا، اس کے علاوہ وہاں کے عوامی نمایندے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی اس کھنڈر زدہ شہرکی حالت زار کو سدھارنے کے لیے توجہ مرکوزکراتے رہے ہیں مگر افسوس کہ کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جب لاڑکانہ جیسے پیپلز پارٹی کے گڑھ کا یہ حال ہے تو پھرکراچی کس گنتی میں ہے۔کراچی کی بدترین صورتحال کا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں چرچا ہے۔ کراچی میں کچرے کی صفائی سے لے کر سیوریج، پانی اور سڑکوں کا حال ایسا بگڑا ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ اب اسے سدھارنا حکومت سندھ کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے بلدیاتی نظام میں پیپلز پارٹی نے حصے دار بن کر خود ہی اپنی بدنامی کا سامان پیدا کرلیا ہے۔ کاش کہ اس نے میئرکراچی کے اختیارات میں کمی نہ کی ہوتی اور کچھ اہم بلدیاتی محکموں کو اپنے کنٹرول میں نہ لیا ہوتا توشایدکراچی کے مسائل کے حوالے سے اس پرکسی بھی قسم کی کسی کو تنقید کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ وہ میئرکراچی کو اپنا کام کرنے دیتی اور اپنے صوبائی محکموں کو خود سنبھالتی تو اس طرح اس کا بوجھ بھی ہلکا رہتا اور آج اس پرکرپشن کے جو الزامات عائد کیے جا رہے ہیں وہ ان سے بھی محفوظ رہتی۔
اس وقت کراچی کے عوام قلت آب کے مسئلے سے سخت پریشان ہیں۔ آئے دن پانی بند رہنے کی روش سے عوام ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں۔ کبھی پائپوں کے پھٹ جانے کی خبر آتی ہے تو کبھی پائپوں کی صفائی تو کبھی بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پانی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب بہانے ہیں اصل میں واٹر بورڈ کے حکام اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے یہ کام ہو رہا ہے۔ شہریوں کا پانی بند کرکے بیچا جا رہا ہے اور اس ناجائز کمائی کو نیچے سے اوپر تک پہنچایا جا رہا ہے۔
کراچی والوں کے لیے ایک بری خبر یہ ہے کہ شہر میں قلت آب پر قابو پانے کے لیے دس برس سے چل رہے K-4 منصوبے کو اب ناقابل عمل قرار دے دیا گیا ہے ایک طرف کراچی میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر ان کے حل کے لیے مالی وسائل کی کمی کا رونا رویا جا تا ہے تو دوسری طرف شہر میں نہر خیام بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔
ادھر میئرکراچی بھی جو وسائل اور اپنے اختیارات میں کمی کی شکایت کرتے کرتے اب ضعیف لگنے لگے ہیں۔ ہل پارک پر مصنوعی جنگل لگانے کے منصوبے کو شروع کرنے کی بات بڑے فخر سے کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف مالی مشکلات کا ذکر اس حد تک کہ کچرا اٹھانے والے ٹرکوں کے لیے ڈیزل تک خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو دوسری طرف شہر میں جنگل لگانے پر رقم کا اصراف؟
اسے ضرور اصراف ہی کہا جائے گا اس لیے کہ شہریوں کو کچرے سے نجات دلانے کے بجائے جنگل کی سیر کرانا شہریوں کے ساتھ بھونڈے مذاق کے مترادف ہے۔ ایک عرصے سے شہر میں کچرے سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن میں ڈینگی، کانگو وائرس اور پولیو سرفہرست ہیں۔ پھر ایک نئی مصیبت نے بھی جنم لے لیا ہے۔ شہر میں کتوں کی تعداد بڑھنے سے سگ گزیدگی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے شہر میں اب تک کئی اموات ہوچکی ہیں۔
کتوں کو مارنا شہری حکومت کی ذمے داری ہے مگر اس نے اس جانب کئی سالوں سے توجہ مرکوز نہیں کی ہے۔ پھر کتے کے کاٹنے کے علاج کے لیے مطلوبہ انجکشن سندھ کے کسی بھی اسپتال میں دستیاب نہیں ہیں۔ سندھ حکومت کی یہ غفلت ناقابل معافی ہے۔ جب اسپتالوں کو وہ نہیں چلا سکتی تو اسے انھیں وفاقی حکومت کے حوالے کردینا چاہیے۔ چند ماہ قبل وفاقی حکومت نے سندھ کے کچھ اسپتالوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی تھی مگر سندھ حکومت نے اسے اپنے معاملات میں وفاقی حکومت کی مداخلت قرار دے کر ناکام بنادیا تھا۔
ایم کیو ایم کی بھی عوامی مسائل سے عدم توجہی کی وجہ سے ہی کراچی کے عوام نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ انتخابات میں اس کی اہم نشستیں بھی تحریک انصاف نے جیت لی ہیں۔ ابھی بھی موقع ہے کہ وہ اپنی توجہ عوامی مسائل کی جانب مبذول کرے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے اپنے میئرکو تنبیہ کرے ورنہ اس کی بچی کچھی سندھ اور قومی اسمبلیوں کی نشستیں بھی اس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور انھیں مایوس کرنے والوں کو وہ بھی پھر مایوسی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی جو عام انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی کئی نشستیں حیرت انگیز طور پر جیت چکی ہے اسے بھی عوامی خواہشات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس نے بھی کراچی کے عوام سے ان کے مسائل کو حل کرنے کے وعدے پر ووٹ حاصل کیے ہیں اگر اس نے بھی عوام کو مایوس کیا تو عوام اسے بھی مایوسی سے دوچارکرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
عمران خان نے کئی ماہ قبل کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک سو باسٹھ ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا وہ وعدہ آخرکب وفا ہوگا؟ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ اب کراچی کے عوام پی ٹی آئی اور پی پی کی عوام بے زار پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں چنانچہ اب نظام میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔
بے شمار مسائل میں گھرے اب کراچی کے عوام بھی پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ مصطفیٰ کمال اور نعمت اللہ خان کے زمانے میں کراچی میں جو بلدیاتی نظام نافذ تھا اسے پھر سے نافذ کیا جائے اس لیے کہ وہی کراچی کے مسائل کا واحد حل ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب چاہیے کہ وہ عوامی خواہشات کا احترام کرے اور اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ عوام ہمیشہ ہی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی محبت میں اس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس کی قیادت اپنی کارکردگی پر غورکرے ورنہ ایسا نہ ہوکہ آیندہ الیکشن تک سندھ کے حالات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں اور پھر انھیں پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ لگتا ہے جی ڈی اے نے اب پیپلز پارٹی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے مگر لگتا ہے پیپلز پارٹی اپنے اقتدارکے زعم میں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر غور تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی لاڑکانہ میں شکست پر حزب اختلاف کی پارٹیاں اب تک جشن منا رہی ہیں ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر کھل کر تنقید کے تیر چلا رہی ہیں مگر پیپلز پارٹی ان کے بیانات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ان پر پلٹ کر وار کر رہی ہے ساتھ ہی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ایک رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ لاڑکانہ میں بھٹوکے چاہنے والوں نے ثابت کردیا ہے کہ سندھ میں لوٹ کھسوٹ کا نظام اب مزید نہیں چل سکتا۔ جس طرح کراچی کے عوام نے خوف اور دہشت کے بت کو پاش پاش کرکے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو مایوس کیا اسی طرح اب لاڑکانہ کے عوام نے موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف جی ڈی اے کو ووٹ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ کسی صورت موروثی سیاست پر مبنی کرپٹ نظام کو برداشت نہیں کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ کارکردگی ابتر ہے اور وہ دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ صرف لاڑکانہ ہی کیا پورے سندھ کا یہی حال ہے۔ تاہم لاڑکانہ جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر کا مسائل سے دوچار ہونا بھٹو کے چاہنے والوں کے لیے نہایت تکلیف دہ امر ہے۔
کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی لاڑکانہ کی ابتر حالت پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا، اس کے علاوہ وہاں کے عوامی نمایندے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی اس کھنڈر زدہ شہرکی حالت زار کو سدھارنے کے لیے توجہ مرکوزکراتے رہے ہیں مگر افسوس کہ کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جب لاڑکانہ جیسے پیپلز پارٹی کے گڑھ کا یہ حال ہے تو پھرکراچی کس گنتی میں ہے۔کراچی کی بدترین صورتحال کا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں چرچا ہے۔ کراچی میں کچرے کی صفائی سے لے کر سیوریج، پانی اور سڑکوں کا حال ایسا بگڑا ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ اب اسے سدھارنا حکومت سندھ کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے بلدیاتی نظام میں پیپلز پارٹی نے حصے دار بن کر خود ہی اپنی بدنامی کا سامان پیدا کرلیا ہے۔ کاش کہ اس نے میئرکراچی کے اختیارات میں کمی نہ کی ہوتی اور کچھ اہم بلدیاتی محکموں کو اپنے کنٹرول میں نہ لیا ہوتا توشایدکراچی کے مسائل کے حوالے سے اس پرکسی بھی قسم کی کسی کو تنقید کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ وہ میئرکراچی کو اپنا کام کرنے دیتی اور اپنے صوبائی محکموں کو خود سنبھالتی تو اس طرح اس کا بوجھ بھی ہلکا رہتا اور آج اس پرکرپشن کے جو الزامات عائد کیے جا رہے ہیں وہ ان سے بھی محفوظ رہتی۔
اس وقت کراچی کے عوام قلت آب کے مسئلے سے سخت پریشان ہیں۔ آئے دن پانی بند رہنے کی روش سے عوام ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں۔ کبھی پائپوں کے پھٹ جانے کی خبر آتی ہے تو کبھی پائپوں کی صفائی تو کبھی بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پانی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب بہانے ہیں اصل میں واٹر بورڈ کے حکام اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے یہ کام ہو رہا ہے۔ شہریوں کا پانی بند کرکے بیچا جا رہا ہے اور اس ناجائز کمائی کو نیچے سے اوپر تک پہنچایا جا رہا ہے۔
کراچی والوں کے لیے ایک بری خبر یہ ہے کہ شہر میں قلت آب پر قابو پانے کے لیے دس برس سے چل رہے K-4 منصوبے کو اب ناقابل عمل قرار دے دیا گیا ہے ایک طرف کراچی میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر ان کے حل کے لیے مالی وسائل کی کمی کا رونا رویا جا تا ہے تو دوسری طرف شہر میں نہر خیام بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔
ادھر میئرکراچی بھی جو وسائل اور اپنے اختیارات میں کمی کی شکایت کرتے کرتے اب ضعیف لگنے لگے ہیں۔ ہل پارک پر مصنوعی جنگل لگانے کے منصوبے کو شروع کرنے کی بات بڑے فخر سے کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف مالی مشکلات کا ذکر اس حد تک کہ کچرا اٹھانے والے ٹرکوں کے لیے ڈیزل تک خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو دوسری طرف شہر میں جنگل لگانے پر رقم کا اصراف؟
اسے ضرور اصراف ہی کہا جائے گا اس لیے کہ شہریوں کو کچرے سے نجات دلانے کے بجائے جنگل کی سیر کرانا شہریوں کے ساتھ بھونڈے مذاق کے مترادف ہے۔ ایک عرصے سے شہر میں کچرے سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن میں ڈینگی، کانگو وائرس اور پولیو سرفہرست ہیں۔ پھر ایک نئی مصیبت نے بھی جنم لے لیا ہے۔ شہر میں کتوں کی تعداد بڑھنے سے سگ گزیدگی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے شہر میں اب تک کئی اموات ہوچکی ہیں۔
کتوں کو مارنا شہری حکومت کی ذمے داری ہے مگر اس نے اس جانب کئی سالوں سے توجہ مرکوز نہیں کی ہے۔ پھر کتے کے کاٹنے کے علاج کے لیے مطلوبہ انجکشن سندھ کے کسی بھی اسپتال میں دستیاب نہیں ہیں۔ سندھ حکومت کی یہ غفلت ناقابل معافی ہے۔ جب اسپتالوں کو وہ نہیں چلا سکتی تو اسے انھیں وفاقی حکومت کے حوالے کردینا چاہیے۔ چند ماہ قبل وفاقی حکومت نے سندھ کے کچھ اسپتالوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی تھی مگر سندھ حکومت نے اسے اپنے معاملات میں وفاقی حکومت کی مداخلت قرار دے کر ناکام بنادیا تھا۔
ایم کیو ایم کی بھی عوامی مسائل سے عدم توجہی کی وجہ سے ہی کراچی کے عوام نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ انتخابات میں اس کی اہم نشستیں بھی تحریک انصاف نے جیت لی ہیں۔ ابھی بھی موقع ہے کہ وہ اپنی توجہ عوامی مسائل کی جانب مبذول کرے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے اپنے میئرکو تنبیہ کرے ورنہ اس کی بچی کچھی سندھ اور قومی اسمبلیوں کی نشستیں بھی اس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور انھیں مایوس کرنے والوں کو وہ بھی پھر مایوسی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی جو عام انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی کئی نشستیں حیرت انگیز طور پر جیت چکی ہے اسے بھی عوامی خواہشات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس نے بھی کراچی کے عوام سے ان کے مسائل کو حل کرنے کے وعدے پر ووٹ حاصل کیے ہیں اگر اس نے بھی عوام کو مایوس کیا تو عوام اسے بھی مایوسی سے دوچارکرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
عمران خان نے کئی ماہ قبل کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک سو باسٹھ ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا وہ وعدہ آخرکب وفا ہوگا؟ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ اب کراچی کے عوام پی ٹی آئی اور پی پی کی عوام بے زار پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں چنانچہ اب نظام میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔
بے شمار مسائل میں گھرے اب کراچی کے عوام بھی پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ مصطفیٰ کمال اور نعمت اللہ خان کے زمانے میں کراچی میں جو بلدیاتی نظام نافذ تھا اسے پھر سے نافذ کیا جائے اس لیے کہ وہی کراچی کے مسائل کا واحد حل ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب چاہیے کہ وہ عوامی خواہشات کا احترام کرے اور اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ عوام ہمیشہ ہی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی محبت میں اس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔