اُردو کو دفتری زبان بنائیںایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت عالمی اردو کانفرنس کی قراردادیں

صدر، وزیر اعظم سے اردو کو ذریعہ اظہار بنا نے ، حکومتی سطح پر دارالترجمہ قائم کرنے کا مطالبہ

کانفرنس سے لڈمیلا واسیلیوا، سلیم اختر، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید، شمیم حنفی و دیگر کا مختلف سیشنز میں قومی زبان کے حوالے سے اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

اردو ایک زبان نہیں بلکہ تہذیب ہے، اردو کو مکمل طور پر دفتری زبان بنایا جائے، صدر اور وزیراعظم اردو کو ذریعہ اظہار بنائیں، جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ بند کر کے وسائل عوامی بہبود کیلیے وقف کئے جائیں۔

ان خیالات کا اظہار ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام یہاں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز (اتوار کو) منظور ہونیوالی متفقہ قراردادوں اور ممتاز ادیبوں، شاعروں اور محققین نے مختلف سیشنز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ ادارہ فروغ قومی زبان، اردو لغت بورڈ، انجمن ترقی اردو اور دیگر اداروں کی سفارشات کو فوری طور پر نافذ کیاجائے، بھارت سے شائع ہونے والی اردو کتب کے تبادلے کے لیے خصوصی طورپر اقدام کیا جائے، ویزوں کے اجراء میں ادیبوں کیساتھ نرمی برتی جائے۔ اردو رسم الخط کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کیلیے حکومتی سطح پراقدام اورسرپرستی کی جائے، جدید علوم و ادب کی اردو میں منتقلی کے لیے حکومتی سطح پر ایک فعال ''دارالترجمہ'' قائم کیاجائے۔



اردو میں ادبی اور علمی کتب پر زرتلافی دی جائے، تنگ دستی میں مبتلا ادیبوں اور شعراء کی کفالت کیلیے مالی اعانت دی جائے، نوجوانوں کی قومی زبان اور ثقافتی سرگرمیوں میں دل چسپی بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں، مختلف ملکوں کے اہل قلم کی انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، جنوبی ایشیا کے اہل قلم کی مشترکہ تنظیموں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی انگریزی میڈیم رائج ہے جو کہ اردو کشی کے مترادف ہے اور ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، اردو کو پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر نافذ کیا جائے۔ کانفرنس کے پہلے سیشن کا موضوع اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات'' تھا جس کی صدارت ڈاکٹر لڈمیلا واسیلیوا نے کی ، انھوں نے کہا کہ اردو زبان روس میں بھی پڑھی جاتی ہے اردو زبان میں جتنے تراجم ہوئے ہیں ان میں بہت بڑا حصہ روسی ادب کا بھی ہے۔



اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے دوسری زبانوں کے اثرات اپنانے اور ان کے الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی صلاحیت اردو زبان میں اس قدر پختہ ہے کہ اس امر کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ اردو زبان آگے بڑھتی رہے گی۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ اردو پر دوسری زبانوں کے بلاشبہ اثرات ہیں، پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی کو علاقائی زبانیں کہنے کا مطلب ان سے لاتعلقی ظاہر کرنا ہے۔ ڈاکٹر سید نعمان الحق نے کہا کہ دوسری زبانوں سے آئے الفاظ کے استعمال میں بعض خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں اور غلط الفاظ آگئے ہیں۔ معیار نہیں رہتا تو زبان ختم ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر فخرالحق نوری نے کہاکہ جو قومیں اپنا لسانی تشخص نہیں رکھ پاتیں عالمی سطح پر گونگی ہو جاتی ہیں۔ ایس ایم ایس اور ای میلز کے ذریعے اردو کا حلیہ بگاڑا جا رہا ہے۔



جامعہ کراچی شعبہ اردو کے استاد شاداب احسانی نے کہا کہ اردو برصغیرکی تہذیب و تمدنی ورثہ کی محافظ ہے، انگریز نے لسانی بنیادوں پر ہندوستان کو تقسیم کرکے اس پر حکومت کی اور اردو کو دوسرے درجے کی زبان بنادیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اردو دوسرے کی بجائے تیسرے درجے کی زبان بنتی جا رہی ہے، اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو اردو کے ختم ہونے سے سارا خطہ گونگا بن جائے گا۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ فلسفہ کی سربراہ عطیہ سید نے کہا کہ اردو کی کیمیائی ساکھ یہ ہے کہ یہ بہت سی زبانوں عربی، فارسی، ترکی اور بہت سی مقامی زبانوں کا مرکب ہے۔ کوئی بھی زبان جہاں جاتی ہے وہاں کے مقامی اثرات لیتی ہے اس عمل میں توازن کی ضرورت ہے۔ دوسرے سیشن کا عنوان ''پاکستانی معاشرے کا خلفشار اور ادیب کا کردار'' تھا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر نے کی۔




انھوں نے کہا لفظ خلفشار ہلکا لفظ ہے اسکی جگہ انارکی وخانہ جنگی کے الفاظ استعمال ہونے چاہئیں۔ ہمارے اعمال نہ اسلامی، نہ سوشل اورنہ ہی انسانیت کے اعلیٰ معیار کے مطابق ہیں۔ ادیب جب کوئی سخت بات کہتا ہے تو اسے صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، ملائیت، بنیاد پرستی اور مذہبی جنون آج کا مسئلہ ہے ہمارے قلمکاروں کو اس کے مطابق اپنا مزاج بدلنا ہوگا۔ مسعودمفتی نے کہا کہ ہمارے خفلشار زدہ معاشرے میں ادیبوں کے احتجاج کی آوازیں کم کم ہیں لیکن احتجاج کے طرز عمل سے اٹھنے والی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔ یہاں ادیبوں کو بولنے نہیں دیا جاتا، وہ صرف سرگوشی کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ ہمارے معاشرے کے خلفشار کو بہت سے ادیب سپورٹ کرتے ہیں، اب حکومت کی طرف سے تو پابندیاں نہیں اب معاشرے کی طرف سے پابندیوں کا مسئلہ ہے۔ اب معاشرے نے آمریت کا کردار سنبھال لیا ہے۔



اسد محمد خان نے کہا کہ معاشرے کے خلفشار کو ختم کرنے میں ادیبوں نے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ معاشرے میں خلفشار کم نہیں ہوا بلکہ بڑھ رہا ہے۔ سلیم راز نے کہا کہ ادیب کو سچ لکھنا چاہیے، اختلاف رائے کو کفر کہہ کر سوچ اور اظہار پر پہرے بٹھائے جائیں وہاں تخلیقی عمل کیسے جاری رہ سکے گا۔ زاہدہ حنا نے کہا ادب کے معاملات سرحدوں کے پابند نہیں ہوا کرتے مگر آج ادیب کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ چند کو چھوڑ کر سب ادیب ناکام رہے ہیں۔ مسعود اشعر نے کہا کہ ادیب صرف رو سکتا ہے اور کیا کر سکتا ہے۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمیں 7ویں یا 8ویں صدی میں جینا ہے یا 21 ویں صدی میں،ہم دونوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ''بھارت میں اردو'' کے موضوع پر تیسرے سیشن کی صدارت معروف افسانہ نگار انتظار حسین نے کی۔



زبیر رضوی نے کہا کہ پاک، بھارت مذاکرات صرف سیاست دان کرتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ان مذاکرات میں فنکار، ادیب، صحافی اور دیگر کا بھی حصہ ڈالا جائے۔ ہندوستان میں ہندی کو رابطے کی زبان بنانے کیلیے سب طرح کے طریقے استعمال کرنے کے باوجود اسے رابطے کی زبان نہیں بنایا جاسکا۔ پنڈت نہرو کی مادری زبان بھی اردو تھی۔ ہم جب تک اپنی زبان کا تعلق فائن آرٹس سے نہیں جوڑیں گے یہ مکمل نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا کہ اردو زبان فرقہ پرست طاقتوں کی زد میں ہے، اردو ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے، اردو کا کوئی تصور پاکستان کو ذہن میں لائے بغیر مکمل نہیں ہوتا، بھارت کی 22,23 قومی زبانوں میں اردو ایک ہے جبکہ ایک ریاست (کشمیر) میں اس کو ریاستی/ دفتری زبان ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔



معروف ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید نے کہاکہ اﷲ نہ کرے کہ50 سال بعد اردو زبان موجود نہ رہے لیکن پاکستان میں اردو کی صورتحال خراب ہے۔ ایک بڑے اسکول والوں نے ہمیں کہا کہ اردو کے طلباء کی ایک بڑی تعداد اردو سے رغبت نہیں رکھتی اور وہ اردو سے خائف ہے۔ اردو اب بھی بھارتی فلم کی زبان ہے۔ بھارت کی کئی یونیورسٹیوں میں اردو کا حال اچھا ہے لیکن زیادہ تر میں اچھا نہیں ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا کہ اردوکی بھارت میں صورتحال بڑی پیچیدہ ہے۔ بھارت کثیراللسانی ملک ہے جہاں سرکاری زبانوں کی تعداد 22ہے لیکن وہاں آئین میں دیوناگری ہندی کو دیگر سرکاری زبانوں پر برتری دی گئی۔ بھارت میں اردو مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا ذریعہ ہے اور اسکا فائدہ سیاست دان بھی اٹھاتے ہیں۔ اردو کا حقیقی مستقبل پاکستان ہے ، یہ زبان بلاشبہ ہندوستان سے آئی لیکن اسکا حقیقی گھر اب پاکستان ہے۔ اپنے صدارتی خطاب میں انتظار حسین نے مقررین کی جانب سے دی جانے والی تجاویز اور گفتگوکوسراہا اور امید ظاہر کی کہ ان کی کاوشوں پر ضرور عملی طور پر بھی کام ہوگا۔
Load Next Story