جب عدل نہ ہو پائے
ہم نے قانون اور آئین کو کہیں کسی شو کیس میں سجا کر رکھ دیا ہے۔ قانون کے ترازو کو بھی۔
کبھی کبھی سیاست جیسے کوئی منظرنامہ ہو اور منظر نامہ جیسے کوئی نبض ہو۔ آپ نے ہاتھ رکھا نہیں کہ بیمار کو کیا مرض لاحق ہے، وہ آپ کے سامنے آ جائے۔ عجیب سا منظر ہے کچھ ! گھوٹکی میں ایک لڑکے نے فیس بک پر براہ راست کنپٹی پر پستول رکھ کر اپنی ہتھیا کر لی۔
وجہ یہ تھی کہ وہ ایک لڑکے سے پیار کرتا تھا اور اسے باہر فون پے بلایا تھا پر وہ باہر نہ آیا۔ ان دونوں لڑکوں کی عمرکا فرق کم ازکم آٹھ یا نو برس کا ہو گا۔ دوسرے دن لاڑکانہ میں قصہ کچھ الٹا ہوا۔ عاشق نے معشوق کو ہی مار دیا۔ اب معشوق کو یہ پتہ ہی نہیں کہ کون اس کا عاشق ہے۔ اسی طرح کے سیکڑوں قصے اورکہانیاں ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایک منظر بن کرگزرتے ہیں۔
تھر میں نچلی ذات ہندوئوں میں خود کشی کرنا روزکا معمول ہے۔ کتنے خواب ہیں، ان نوجوانوں کے، یہ نوجوان خواب ہی دیکھتے ہیں۔ خوابوں کی رچنا میں رہتے ہیں اور جب حقیقت مایوسی سے بھری ہوئی ہو تو ان کو یہ خواب ٹوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کسی کو پتہ نہ چلا کہ سانحہ ساہیوال کے فیصلے نے پورے ملک کو ہلا دیا۔ اتنی ساری آنکھیں، نہتے بچے اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھتے ہیں اورعدالت کا کہنا یہ ہے کہ چشم دیدگواہ اس واقعے میں ملزمان کی پہچان نہ کر سکے۔ یہ کونسی چشم تھی اورکونسی دید؟
یہ کونسی حقیقت تھی جو پس پردہ تھی جس کا عکس یہ فیصلہ ہے۔ موٹر وے کراچی پر ایک محافظ نے طیش میں آ کر دو نہتے ڈرائیوروں پرگولی چلا دی اورکوئی خبر نہ ہوئی ۔ بہ ظاہر سب معمول پر ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سب ٹھیک ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں مگر سب کچھ، کچھ ٹھیک نہیں۔ ہر غریب کے گھر میں چولہا بجھا ہوا ہے۔ معشیت کے پہیوں کو جیسے زنگ لگ چکا ہے۔ ہر طرف بے روزگاری ہے۔ مایوسی ہے، یہ سارا منظر نامہ فیضؔ کی سطروں میں کچھ اس طرح سے بنتا ہے۔
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی حیلۂ تسکین نہیں اورآس بہت ہے
امید یار ، نظرکا مزاج ، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھوکہ دل اداس بہت ہے
یہ وہ نبض ہے جس کو دیکھ کرکوئی اگر یہ کہے کہ بیمارکا حال اچھا ہے تو ایسے معصوم کے لیے کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ جو ناگہانی ہے یہ سب اداروں کی پسپائی ہے۔ سندھ میں ایک ریوینو ایکٹ ہے ، بطور وکیل میں نے اس ایکٹ کو پڑھا ہے اور پریکٹس بھی کی۔ یہ نظام میرے بہت ہی نزدیک سے گزرا ہے کہ کس طرح غریب دہقانوں کی زمینیں اگرکوئی چاہے تو ہتھیا سکتا ہے۔ پٹواری اور وڈیرے کس طرح اس نظام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتنے بوسیدہ اور پرانے رجسٹر ہیں جو ہاتھ لگانے سے ہی پھٹ جاتے ہیں اور ان پر ان غریبوں کے کھاتے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ہی بوسیدہ نظام ، کالونیل نظام جو انگریزوں نے ہمیں دیا ابھی تک وہ اسی شکل میں رائج ہے۔کہاں گئی وہ عدلیہ کی آزادی اورآئین کی بالادستی۔ آئین کہاں ہے جس پر چلنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
ہم نے قانون اور آئین کو کہیں کسی شو کیس میں سجا کر رکھ دیا ہے۔ قانون کے ترازو کو بھی۔ یہ ملک کفر سے تو چل سکتا ہے مگر ظلم سے نہیں۔ اچھے اقدام تھے، معشیت کو ڈاکومنٹ کرو ۔ سب کو ٹیکس کے زمرے میں لائو۔ برآمدات بھی کم ہوئیں مگر تجاوزات کے نام پرکسی غریب کے رکشے کو توڑ دینا، کسی غریب کی سبزی کی دکان کو اکھاڑ دینا۔ ہم کتنے سادہ ہیں کہ دہائیوں کی برائیوں کو دنوں میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نیب کے چیئرمین کہتے ہیں کہ ان کو سعودی عرب کی طرح اختیارات ملنے چاہیئیں کہ ایک ہی قدم میں سب کچھ ٹھیک کر دیں تو پھر انصاف بھی ایسے ہی ملے گا جیسے جمال خشوگی کو دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق قصاص اور دیت کا قانون لے کر آئے۔ عدالتوں نے اس قانون پرکھل کر فیصلے صادر کیے۔ جب جتوئی کی باری آئی تو ''انصاف'' جاگ اٹھا۔ ساہیوال کی انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے پیچھے چھپی ہوئی قصاص اور دیت ہے جو نظر بھی نہیں آتی اور موجود بھی ہے۔
کوئی زرداری صاحب سے یہ تو پوچھے کہ آج جس طرح وہ نیب سے انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں، کیا انھوں نے کبھی غریب دہقانوں کو انصاف دیا ، جب وڈیرے اور پٹواری ان کی زمینیں ہتھیا لے جاتے ہیں، آپ کے پٹواری نظام کے تحت۔ ادارے اگر مضبوط ہوتے ، آج حالات ٹھیک ہوتے اور مالیاتی اداروں کی سربراہی پر دوست اور سفارشی نہ ہوتے تو ہم نے بھی خوب اسحق ڈارکی کھنچائی کی ہوتی کہ صاحب برآمدات کے بل آہستہ آہستہ بڑھائو۔ بیرونی قرضوں کی مد میں اتنے بڑے پروجیکٹس نہ لو کہ ملک اتنا مقروض ہو جائے کہ پھر دہائیاں گزر جائیں، ان قرضوںکو اتارنے میں مگر ادارے نہ تھے، کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک سول اور ملٹری ریلیشنزکی حقیقتوں کا عکس ہے۔ یہ ریلیشنز کبھی متوازن کروٹ بیٹھتے نہیں ہیں۔کبھی پلڑا ادھر بھاری تو کبھی پلڑا ادھر بھاری۔ آج کل مولانا صاحب اس پلڑے کو توازن میں لانے کے لیے میدان میں نکل پڑے ہیں اور ان کے ساتھ شامل بلاول سے لے کر شہباز شریف اور حاصل بزنجو تک سب مولانا نظر آتے ہیں۔ کل تک یہ کارڈ اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھا اور آج یہ اس کے سامنے ہے۔ یہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھے گا۔ یہ پاکستان کے اس منظر نامے کی پیشانی پر تحریر ہے ۔ بات اگر محترمہ فردوس عاشق اعوان کے بیانوں سے چل پڑتی تو پھر بیمارکا حال اچھا تھا مگر اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اب ہر طرف تیزی سے بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔
اس مملکت خدا داد کو بہت سے چیلینجز درپیش ہیں نہ وہ اٹھانے سے حل ہو سکتے ہیں نہ لگانے سے۔ سر جوڑ کر بیٹھنا ہے، ہمارے وہ تمام اقدام جو کہ ہم اقتدار پر مسلط ہونے کے لیے اٹھاتے ہیں اس کا خمیازہ اس ملک اور اس کی غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا۔ ایک وزیر اعظم لیاقت باغ میں گولیوں سے چھلنی ہوا، ایک وزیر اعظم لیاقت باغ کے باہر اپنی جان گنوا بیٹھی اور ایک وزیر اعظم نے نیب کی ایک ایسی کورٹ سے سزا پائی جس کا فیصلہ اور اس کا جج دونوں متنازعہ ہو چکے اور آج وہ وزیر اعظم اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وجہ یہ تھی کہ وہ ایک لڑکے سے پیار کرتا تھا اور اسے باہر فون پے بلایا تھا پر وہ باہر نہ آیا۔ ان دونوں لڑکوں کی عمرکا فرق کم ازکم آٹھ یا نو برس کا ہو گا۔ دوسرے دن لاڑکانہ میں قصہ کچھ الٹا ہوا۔ عاشق نے معشوق کو ہی مار دیا۔ اب معشوق کو یہ پتہ ہی نہیں کہ کون اس کا عاشق ہے۔ اسی طرح کے سیکڑوں قصے اورکہانیاں ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایک منظر بن کرگزرتے ہیں۔
تھر میں نچلی ذات ہندوئوں میں خود کشی کرنا روزکا معمول ہے۔ کتنے خواب ہیں، ان نوجوانوں کے، یہ نوجوان خواب ہی دیکھتے ہیں۔ خوابوں کی رچنا میں رہتے ہیں اور جب حقیقت مایوسی سے بھری ہوئی ہو تو ان کو یہ خواب ٹوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کسی کو پتہ نہ چلا کہ سانحہ ساہیوال کے فیصلے نے پورے ملک کو ہلا دیا۔ اتنی ساری آنکھیں، نہتے بچے اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھتے ہیں اورعدالت کا کہنا یہ ہے کہ چشم دیدگواہ اس واقعے میں ملزمان کی پہچان نہ کر سکے۔ یہ کونسی چشم تھی اورکونسی دید؟
یہ کونسی حقیقت تھی جو پس پردہ تھی جس کا عکس یہ فیصلہ ہے۔ موٹر وے کراچی پر ایک محافظ نے طیش میں آ کر دو نہتے ڈرائیوروں پرگولی چلا دی اورکوئی خبر نہ ہوئی ۔ بہ ظاہر سب معمول پر ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سب ٹھیک ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں مگر سب کچھ، کچھ ٹھیک نہیں۔ ہر غریب کے گھر میں چولہا بجھا ہوا ہے۔ معشیت کے پہیوں کو جیسے زنگ لگ چکا ہے۔ ہر طرف بے روزگاری ہے۔ مایوسی ہے، یہ سارا منظر نامہ فیضؔ کی سطروں میں کچھ اس طرح سے بنتا ہے۔
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی حیلۂ تسکین نہیں اورآس بہت ہے
امید یار ، نظرکا مزاج ، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھوکہ دل اداس بہت ہے
یہ وہ نبض ہے جس کو دیکھ کرکوئی اگر یہ کہے کہ بیمارکا حال اچھا ہے تو ایسے معصوم کے لیے کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ جو ناگہانی ہے یہ سب اداروں کی پسپائی ہے۔ سندھ میں ایک ریوینو ایکٹ ہے ، بطور وکیل میں نے اس ایکٹ کو پڑھا ہے اور پریکٹس بھی کی۔ یہ نظام میرے بہت ہی نزدیک سے گزرا ہے کہ کس طرح غریب دہقانوں کی زمینیں اگرکوئی چاہے تو ہتھیا سکتا ہے۔ پٹواری اور وڈیرے کس طرح اس نظام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتنے بوسیدہ اور پرانے رجسٹر ہیں جو ہاتھ لگانے سے ہی پھٹ جاتے ہیں اور ان پر ان غریبوں کے کھاتے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ہی بوسیدہ نظام ، کالونیل نظام جو انگریزوں نے ہمیں دیا ابھی تک وہ اسی شکل میں رائج ہے۔کہاں گئی وہ عدلیہ کی آزادی اورآئین کی بالادستی۔ آئین کہاں ہے جس پر چلنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
ہم نے قانون اور آئین کو کہیں کسی شو کیس میں سجا کر رکھ دیا ہے۔ قانون کے ترازو کو بھی۔ یہ ملک کفر سے تو چل سکتا ہے مگر ظلم سے نہیں۔ اچھے اقدام تھے، معشیت کو ڈاکومنٹ کرو ۔ سب کو ٹیکس کے زمرے میں لائو۔ برآمدات بھی کم ہوئیں مگر تجاوزات کے نام پرکسی غریب کے رکشے کو توڑ دینا، کسی غریب کی سبزی کی دکان کو اکھاڑ دینا۔ ہم کتنے سادہ ہیں کہ دہائیوں کی برائیوں کو دنوں میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نیب کے چیئرمین کہتے ہیں کہ ان کو سعودی عرب کی طرح اختیارات ملنے چاہیئیں کہ ایک ہی قدم میں سب کچھ ٹھیک کر دیں تو پھر انصاف بھی ایسے ہی ملے گا جیسے جمال خشوگی کو دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق قصاص اور دیت کا قانون لے کر آئے۔ عدالتوں نے اس قانون پرکھل کر فیصلے صادر کیے۔ جب جتوئی کی باری آئی تو ''انصاف'' جاگ اٹھا۔ ساہیوال کی انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے پیچھے چھپی ہوئی قصاص اور دیت ہے جو نظر بھی نہیں آتی اور موجود بھی ہے۔
کوئی زرداری صاحب سے یہ تو پوچھے کہ آج جس طرح وہ نیب سے انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں، کیا انھوں نے کبھی غریب دہقانوں کو انصاف دیا ، جب وڈیرے اور پٹواری ان کی زمینیں ہتھیا لے جاتے ہیں، آپ کے پٹواری نظام کے تحت۔ ادارے اگر مضبوط ہوتے ، آج حالات ٹھیک ہوتے اور مالیاتی اداروں کی سربراہی پر دوست اور سفارشی نہ ہوتے تو ہم نے بھی خوب اسحق ڈارکی کھنچائی کی ہوتی کہ صاحب برآمدات کے بل آہستہ آہستہ بڑھائو۔ بیرونی قرضوں کی مد میں اتنے بڑے پروجیکٹس نہ لو کہ ملک اتنا مقروض ہو جائے کہ پھر دہائیاں گزر جائیں، ان قرضوںکو اتارنے میں مگر ادارے نہ تھے، کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک سول اور ملٹری ریلیشنزکی حقیقتوں کا عکس ہے۔ یہ ریلیشنز کبھی متوازن کروٹ بیٹھتے نہیں ہیں۔کبھی پلڑا ادھر بھاری تو کبھی پلڑا ادھر بھاری۔ آج کل مولانا صاحب اس پلڑے کو توازن میں لانے کے لیے میدان میں نکل پڑے ہیں اور ان کے ساتھ شامل بلاول سے لے کر شہباز شریف اور حاصل بزنجو تک سب مولانا نظر آتے ہیں۔ کل تک یہ کارڈ اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھا اور آج یہ اس کے سامنے ہے۔ یہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھے گا۔ یہ پاکستان کے اس منظر نامے کی پیشانی پر تحریر ہے ۔ بات اگر محترمہ فردوس عاشق اعوان کے بیانوں سے چل پڑتی تو پھر بیمارکا حال اچھا تھا مگر اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اب ہر طرف تیزی سے بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔
اس مملکت خدا داد کو بہت سے چیلینجز درپیش ہیں نہ وہ اٹھانے سے حل ہو سکتے ہیں نہ لگانے سے۔ سر جوڑ کر بیٹھنا ہے، ہمارے وہ تمام اقدام جو کہ ہم اقتدار پر مسلط ہونے کے لیے اٹھاتے ہیں اس کا خمیازہ اس ملک اور اس کی غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا۔ ایک وزیر اعظم لیاقت باغ میں گولیوں سے چھلنی ہوا، ایک وزیر اعظم لیاقت باغ کے باہر اپنی جان گنوا بیٹھی اور ایک وزیر اعظم نے نیب کی ایک ایسی کورٹ سے سزا پائی جس کا فیصلہ اور اس کا جج دونوں متنازعہ ہو چکے اور آج وہ وزیر اعظم اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔