سیاست کا اتار چڑھاؤ

سابق حکمرانوں نے اپنے ساتھیوں کو اتنا کھلایا اور پلایا ہوا ہے کہ انھیں ہضم ہی نہیں ہو سکتا۔

h.sethi@hotmail.com

کسی بھی ملک کی سیاسی پارٹی کا وجود نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں ملکی فلاح ، استحکام اور عوامی ضروریات اور ترقی کو پیش ِ نظر رکھ کر ہم خیال لوگ اکٹھے ہوتے اور تقسیم کار کے بعد متعین منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔

موجودہ سیاسی پارٹی یعنی PTI سے قبل دو سیاسی پارٹیوں PPP اور PML(N) نے زیادہ عرصہ نظام ِ حکومت چلایا۔ ان ہر دو پر کرپشن کے بے شمار الزام لگے جن کے بارے میں کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ سزائیں بھی ہوئیں اور قید و بند بھی سب کے مشاہدے میں ہیں لیکن کچھ حیرت کا پہلو یہ ہے کہ بہت سے تجربہ کار معتبر، با اثر، فالونگ رکھنے والے، قابل اور وسیع سیاسی بنیادوں والے طویل قامت لوگ تمام حالات اور ان کے انجام کا ادراک رکھتے ہوئے بھی مذکورہ دو سیاسی پارٹیوں کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں اور نہ ہی بظاہر خوفزدہ ہیں بلکہ برسر ِ اقتدار پارٹی اور NAB کو دھمکاتے بھی پائے جاتے ہیں۔

ان کا طویل و طاقتور پس ِ منظر اپنی جگہ، لیکن ایسے حالات میں زیر دام آئی پارٹیوں کے لوگ اور الیکشن میں شکست خوردہ بھی بڑھکیں مارتے پائے جا رہے ہیں۔ ایک جہاندیدہ سیاسی گرُو کا تجزیہ ہے کہ یہ پرانے پاپی اب بھی کسی ان دیکھی امید پر قائم ہیں یا مہنگائی کے جن اور حضرت مولانا کے سیاسی جال کے پیچھے چھپے Lockdown کی صورت حال پیدا کرنے کے منتظر ہیں۔

جب بھی کسی بڑے شہر کی تعمیر و ترقی پیش ِ نظر ہو تو وہاں ایک Development Authority قائم کی جاتی ہے جیسے کراچی، فیصل آباد، لاہور اور اسلام آباد میں LDA, FDA, KDA اور CDA وجود میں آئیں۔ ان کے ذمے ہائوسنگ ، کمرشل، سڑکوں وغیرہ کے علاوہ دیگر انفرا اسٹرکچر کی پلاننگ اور تعمیر ہوتی ہے۔ مکانوں کی تعمیر کے لیے مخصوص اراضی نیلام یا سابق مالکان کو مقبوضہ اراضی کے بدلے ڈویلپمنٹ چارجز لے کر پالیسی کے تحت پلاٹ دیا جاتا ہے۔ حکمران یعنی چیف منسٹر بعض مقربین کو ریزرو (Reserve) قیمت پر پلاٹ دینے کے علاوہ مستحق افراد کو بھی رہائش کی تعمیر کے لیے اپنے مقررہ کوٹہ میں سے پلاٹ دے سکتے ہیں۔

دوسرے شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے ریزرو ( Reserve) کوٹہ کے علاوہ LDA لاہور کے کوٹہ میں سے بھی وزرائے اعلیٰ نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کر کے مستحقین اور تعلق داروں اور پارٹی سپورٹروں کو سیکڑوں پلاٹ Reserve price پر الاٹ کیے۔ بتایا جاتا ہے کہ کلرک بادشاہوں نے ان الاٹڈ پلاٹوں کو چھّٹے کے پلاٹوں کا نام دے رکھا تھا۔ کسی کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ چونکہ بعض کسان کھیت میں بیج مُٹھی میں بھر کر چھٹا مار کر بوتے ہیں اس لیے فراخ دلی سے تقسیم کیے گئے پلاٹوں کو کلرکوں نے چھٹّے کے پلاٹوں کا نام دے رکھا ہے۔

لوگ تجسس سے پوچھتے ہیں کہ عموماً قانون کی گرفت میں آئے سابق حکمرانوں کا ساتھ ان کے قریبی دوست اور ان سے فیضیاب ہونے والے بھی خطرہ دیکھ کر چھوڑ جاتے ہیں لیکن اب تو زیر ِ حراست اور سزا یافتہ بھی ہر وقت ہجوم ِ دوستاں میں گھرے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اس غیر معمولی صورت ِ حال کی کوئی غیر معمولی وجہ تو ہو گی۔


اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ ان ساتھیوں کو اب بھی یقین ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ نہ صرف بچ نکلتے ہیں بلکہ دوبارہ اقتدار پر بھی قابض ہو جاتے ہیں لہٰذا ان ہجوم در ہجوم ساتھ دینے والوں کو صرف اُمید نہیں یقین ہے کہ وہ عوامی اور قانونی عدالتوں سے رہائی پائیں گے اور پھولوں کے ہار پہنے سڑکوں پر جلوسوں کے ساتھ نعروں کی گونج میںدیکھے جائیں گے۔ ان سابق حکمرانوں نے اپنے ساتھیوں کو اتنا کھلایا اور پلایا ہوا ہے کہ انھیں ہضم ہی نہیں ہو سکتا۔ اور یہی بد ہضمی ہے جس میں ملک کی دو نمبر اشرافیہ مبتلا ہے۔

بد قسمتی دیکھیے کہ

ہے اب تو سارے مراسم کا انحصار یہی

کسی کی ذات سے ہم کو مفاد کتنا ہے

اگرچہ کرپشن کے خلاف تسلسل کے ساتھ ایک سال سے زبانی نبرد آزما وزیر ِ اعظم عمران خان کے جوش اور جذبے میں کمی کے بجائے شدت ہی آئی ہے، لیکن نتائج اور عملی لحاظ سے لوگوں کو سستی اور مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے جس کی وجہ تفتیشیی مشکلات اور عدالتی تاخیر کسی حد تک قابل فہم ہیں۔ لیکن اب لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے ہیں اور لوگ Justice delayed is justice denied کو اپنے اپنے انداز میں Interpret کرنے لگے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہنے والے مولانا صاحب عمران خان کی سُست روی کے پیش ِ نظر دھرنے اور آزادی مارچ کے نعروں کے ساتھ اس کے وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے سے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حضرت اپنے مطالبے کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ وہ اپنی تہی دامنی کے باوجود پُر اُمید ہیں۔ یہ وقت عمران خان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ سیکڑوں ملزم ابھی تک سزائوں (Convictions) کے دائروں سے باہر ہیں اور تطہیر کے دعوے تکمیل کے منتظر ہیں۔

زندگی اور موت پر تو خدا کو مکمل اختیار ہے لیکن صحت قائم رکھنے اور بیماری پر قابو پانے کا علم خالق ِ کُل کی طرف سے انسان کو دیا گیا ہے۔ گزشتہ کافی عرصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے سابق دو حکمرانوں کی صحت خراب ہے اور ملکی مسائل میں مسئلہ نمبر ون کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ خدا ہم کو صحت مند اور اپنی امان میں رکھے ۔
Load Next Story