مولانا فضل الرحمن کے دو حافظ اور ایک مفتی
سوال یہ ہے کہ آیا مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں پر پابندیاں لگا کر ان کے راستے مسدود کیے جا سکتے ہیں؟
حضرت مولانا فضل الرحمن اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور ناراضی عروج پر ہے۔ اچھا گمان یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے چھوٹے بڑے ذمے داران حکمت اور دانش سے کام لیتے تو حضرت مولانا سے معاملہ کرنا دشوار نہیں تھا۔ پہلی حکومتوں کی مانند یہ حکومت بھی مگر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے ؛ چنانچہ اس روئیے نے معاملات کو اُلجھا دیا۔
اس کے جو نتائج نکل سکتے تھے ، ہم سب کے سامنے ہیں ۔ وطنِ عزیز کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (نون لیگ اور پیپلز پارٹی)کے مقابلے میں مولانا صاحب کی جماعت (جے یو آئی ایف) چھوٹی جماعت ہے لیکن یہ مولانا صاحب کی جادوگری اور سحر کاری ہے کہ آج اُنہی کی جماعت کا غلغلہ سارے ملک میں سنائی دے رہا ہے ۔ قبلہ مولانا فضل الرحمن سب اپوزیشن قائدین کی قیادت کر رہے ہیں ۔ چالیس، پنتالیس برس قبل اُن کے والد گرامی، مفتی محمود مرحوم ، بھی اِسی طرح زیڈ اے بھٹو کے مقابل ایک بڑے سیاسی اتحاد کی قیادت کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے وزیروں مشیروں نے مولانا فضل الرحمن کو 'معمولی' خیال کرتے ہُوئے ہمیشہ اُن کا ٹھٹھہ اُڑایا ہے ۔ اُن کا نام با احترام لینے سے دانستہ گریز کیا گیا ۔ جے یو آئی (ایف)کے وابستگان کے دل اور جذبات یقیناً اس اسلوبِ گفتگو پر مجروح ہوتے ہوں گے ۔ اگرچہ مولانا صاحب نے بھی عمران خان صاحب کو کئی بار کئی نامناسب القابات سے یاد فرمایا۔ اس اندازِ گفتگو پر عمران خان کے چاہنے والے بھی طیش میں آتے ہوں گے۔
پی ٹی آئی چونکہ حکومت میں ہے اور حکمرانوں کی ذمے داریاں حکومت سے باہر بیٹھنے والوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کارن پی ٹی آئی کو جے یو آئی (ایف) اور اس کے مرکزی قائد بارے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہُوا ہے تو معاملات بگاڑ کا شکار ہُوئے ہیں۔ نوبت ایں جا رسید کہ اب پی ٹی آئی حکومت مولانا فضل الرحمن اور اُن کے جانثاروں کی یلغار پر سخت مشکلات میں ہے۔
میڈیا دونوں متحارب پارٹیوں کے مکالمہ کاروں سے گرم ہے۔ اس گرمی میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے تین بازوئے شمشیر زَن اپنے حریفوں کے مقابل پورے اعتماد اور ایمان سے کھڑے ہیں : حافظ حسین احمد ، حافظ حمد اللہ اور مفتی کفایت اللہ !!
حافظ حسین احمد صاحب کے مزاج میں ٹھنڈک اور حوصلہ ہے مگر اُن کا لہجہ نہایت کاٹ دار اور طنزیہ ہوتا ہے ۔ اُن کے مقابل بیٹھا شخص بھالے کی طرح تیز دھار طنز سُن کر کسمسا کر رہ جاتا ہے ۔ ہمیشہ سفید عمامہ پہنے مفتی کفایت اللہ صاحب جس دبنگ لہجے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، اس نے خان صاحب کی حکومت اور دیگر کئی اداروں کو ناراض بھی کیا ہے۔
مفتی کفایت اللہ گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ اگر حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا تو ممکن ہے دیگر جے یو آئی وابستگان مزید بھڑک اُٹھیں ۔ حافظ حمداللہ صاحب نے نجی ٹی ویوں کے مختلف ٹاک شوز اور پروگراموں میں جو ''رونق'' لگا ئی ہے ، حکومت کا اس پر جز بز ہونا فطری ہے ۔
وہ جس اسلوب میں براہِ راست وزیر اعظم سے ''مخاطب'' ہوتے ہیں، ہماری دُنیا کے حکمران یہ اسلوب سُننے کے کبھی عادی نہیں رہے ؛ چنانچہ حافظ حمداللہ پر ایک خاص انداز میں سرکاری نزلہ گرا ہے ۔مولانا فضل الرحمن کے عشاق کا کہنا ہے کہ حافظ صاحب کے خلاف جو سرکاری قدم اُٹھایا گیا ہے ، اس کا معنی و مطلب یہ ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کے بارے اُن کی آواز خاموش کرائی جا سکے ۔ لیکن کیا ایسا ہو بھی سکے گا؟حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کرنا اور انھیں 'غیر ملکی' قرار دینا کہاں کی حکمت اور انصاف ہے؟اور یہ بھی کہ اگر حافظ موصوف حکومت سے یوں متھا نہ لگاتے تو کیا تب بھی اُن کی شناخت بارے ایسا ہی اقدام کیا جاتا ؟
حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ اور شہریت منسوخ کیے جانے پر کئی سوالات بھی اُٹھ آئے ہیں ۔ اگر مولانا حمداللہ پاکستانی نہیں ہیں تو وفاقی ادارے نے انھیں کس بنیاد پر پاکستانی قومی شناختی کارڈ جاری کیا ؟ کیا انھیں شناختی کارڈ جاری کرنے اور اُن کی باقی دستاویزات تصدیق کرنے والوں کا مواخذہ نہیں کیا جانا چاہیے؟
اگر حافظ حمداللہ صاحب پاکستانی نہیں ہیں تو وہ مبینہ طور پر کئی برس تک کیسے ایک سرکاری مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے اور پاکستان کے مرکزی خزانہ سے تنخواہ پاتے رہے ؟ اگر وہ پاکستانی نہیں ہیں تو وہ 6سال تک پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے رکن کیسے رہے ؟ کیونکر پاکستان کے قومی معاملات کے حوالے سے قانون سازی کرتے رہے؟حافظ حمداللہ صاحب پانچ سال تک (2002ء تا2006ء) بلوچستان کے صوبائی وزیر صحت رہے ہیں ۔ کیا کوئی ایسا شخص جو سرے سے پاکستانی ہی نہ ہو ، پاکستان کی کسی صوبائی کابینہ کا رکن بن سکتا ہے ؟ ایسا ہُوا ہے تو اسے بجا طور پر '' کلجگ'' کہا جانا چاہیے ۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کے معتمد اور دیرینہ ساتھی، حافظ حمداللہ صاحب ، کی اِس وقت عمر51 سال ہے ۔ اُن کے والد صاحب مبینہ طور پر ایک سرکاری اسکول سے ٹیچر کی حیثیت میں باقاعدہ ریٹائر ہُوئے اور سرکاری پنشن بھی پائی۔ حافظ حمداللہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے مشہور علاقے ''چمن'' سے ہے ۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔
انھوں نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن پکڑے نہ گئے۔ جب وہ بطورِ سینیٹر سینیٹ کی کمیٹی برائے مذہبی اُمور کے رکن بنے ، تب بھی دھرے نہ جا سکے۔ تو کیا شناخت کرنے والے ہمارے قومی اداروں نے 'جلدی' یہ شناخت نہیں کر لی ؟ اس فیصلے یا اقدام کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ۔اپنی پاکستانیت ثابت کرنا حافظ حمداللہ کی ذمے داری ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس اپنے والد کا 60ء کے عشرے کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے ۔حافظ صاحب کے والد صاحب کا وہ پاکستانی پاسپورٹ بھی سامنے لایا گیا ہے جو24اگست1966 ء کو کوئٹہ سے جاری کیا گیا ۔
کیا یہ پاسپورٹ بھی جعلی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ آیا مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں پر پابندیاں لگا کر مولانا فضل الرحمن کے راستے مسدود کیے جا سکتے ہیں؟ اُن کی پارٹی کی ایک شاخ ( انصار الاسلام) پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے معاونِ خصوصی ، مفتی ابرار احمد خان، کی جانب سے پارٹی کے لیٹر ہیڈ پر ایک فہرست جاری کی گئی ہے۔
اس فہرست میں بارہ افراد کے اسمائے گرامی ہیں۔ ان کے بارے میں میڈیا سے کہا گیا ہے کہ یہی لوگ صرف جماعتی پالیسیوں اور موقف کو واضح کریں گے ، اسلیے میڈیا پر صرف اِنہی کو بلایا جائے ۔ حیرت ہے کہ اس فہرست میں مفتی کفایت اللہ اور حافظ حمداللہ کا نام نہیں ہے ۔
اس کے جو نتائج نکل سکتے تھے ، ہم سب کے سامنے ہیں ۔ وطنِ عزیز کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (نون لیگ اور پیپلز پارٹی)کے مقابلے میں مولانا صاحب کی جماعت (جے یو آئی ایف) چھوٹی جماعت ہے لیکن یہ مولانا صاحب کی جادوگری اور سحر کاری ہے کہ آج اُنہی کی جماعت کا غلغلہ سارے ملک میں سنائی دے رہا ہے ۔ قبلہ مولانا فضل الرحمن سب اپوزیشن قائدین کی قیادت کر رہے ہیں ۔ چالیس، پنتالیس برس قبل اُن کے والد گرامی، مفتی محمود مرحوم ، بھی اِسی طرح زیڈ اے بھٹو کے مقابل ایک بڑے سیاسی اتحاد کی قیادت کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے وزیروں مشیروں نے مولانا فضل الرحمن کو 'معمولی' خیال کرتے ہُوئے ہمیشہ اُن کا ٹھٹھہ اُڑایا ہے ۔ اُن کا نام با احترام لینے سے دانستہ گریز کیا گیا ۔ جے یو آئی (ایف)کے وابستگان کے دل اور جذبات یقیناً اس اسلوبِ گفتگو پر مجروح ہوتے ہوں گے ۔ اگرچہ مولانا صاحب نے بھی عمران خان صاحب کو کئی بار کئی نامناسب القابات سے یاد فرمایا۔ اس اندازِ گفتگو پر عمران خان کے چاہنے والے بھی طیش میں آتے ہوں گے۔
پی ٹی آئی چونکہ حکومت میں ہے اور حکمرانوں کی ذمے داریاں حکومت سے باہر بیٹھنے والوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کارن پی ٹی آئی کو جے یو آئی (ایف) اور اس کے مرکزی قائد بارے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہُوا ہے تو معاملات بگاڑ کا شکار ہُوئے ہیں۔ نوبت ایں جا رسید کہ اب پی ٹی آئی حکومت مولانا فضل الرحمن اور اُن کے جانثاروں کی یلغار پر سخت مشکلات میں ہے۔
میڈیا دونوں متحارب پارٹیوں کے مکالمہ کاروں سے گرم ہے۔ اس گرمی میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے تین بازوئے شمشیر زَن اپنے حریفوں کے مقابل پورے اعتماد اور ایمان سے کھڑے ہیں : حافظ حسین احمد ، حافظ حمد اللہ اور مفتی کفایت اللہ !!
حافظ حسین احمد صاحب کے مزاج میں ٹھنڈک اور حوصلہ ہے مگر اُن کا لہجہ نہایت کاٹ دار اور طنزیہ ہوتا ہے ۔ اُن کے مقابل بیٹھا شخص بھالے کی طرح تیز دھار طنز سُن کر کسمسا کر رہ جاتا ہے ۔ ہمیشہ سفید عمامہ پہنے مفتی کفایت اللہ صاحب جس دبنگ لہجے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، اس نے خان صاحب کی حکومت اور دیگر کئی اداروں کو ناراض بھی کیا ہے۔
مفتی کفایت اللہ گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ اگر حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا تو ممکن ہے دیگر جے یو آئی وابستگان مزید بھڑک اُٹھیں ۔ حافظ حمداللہ صاحب نے نجی ٹی ویوں کے مختلف ٹاک شوز اور پروگراموں میں جو ''رونق'' لگا ئی ہے ، حکومت کا اس پر جز بز ہونا فطری ہے ۔
وہ جس اسلوب میں براہِ راست وزیر اعظم سے ''مخاطب'' ہوتے ہیں، ہماری دُنیا کے حکمران یہ اسلوب سُننے کے کبھی عادی نہیں رہے ؛ چنانچہ حافظ حمداللہ پر ایک خاص انداز میں سرکاری نزلہ گرا ہے ۔مولانا فضل الرحمن کے عشاق کا کہنا ہے کہ حافظ صاحب کے خلاف جو سرکاری قدم اُٹھایا گیا ہے ، اس کا معنی و مطلب یہ ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کے بارے اُن کی آواز خاموش کرائی جا سکے ۔ لیکن کیا ایسا ہو بھی سکے گا؟حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کرنا اور انھیں 'غیر ملکی' قرار دینا کہاں کی حکمت اور انصاف ہے؟اور یہ بھی کہ اگر حافظ موصوف حکومت سے یوں متھا نہ لگاتے تو کیا تب بھی اُن کی شناخت بارے ایسا ہی اقدام کیا جاتا ؟
حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ اور شہریت منسوخ کیے جانے پر کئی سوالات بھی اُٹھ آئے ہیں ۔ اگر مولانا حمداللہ پاکستانی نہیں ہیں تو وفاقی ادارے نے انھیں کس بنیاد پر پاکستانی قومی شناختی کارڈ جاری کیا ؟ کیا انھیں شناختی کارڈ جاری کرنے اور اُن کی باقی دستاویزات تصدیق کرنے والوں کا مواخذہ نہیں کیا جانا چاہیے؟
اگر حافظ حمداللہ صاحب پاکستانی نہیں ہیں تو وہ مبینہ طور پر کئی برس تک کیسے ایک سرکاری مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے اور پاکستان کے مرکزی خزانہ سے تنخواہ پاتے رہے ؟ اگر وہ پاکستانی نہیں ہیں تو وہ 6سال تک پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے رکن کیسے رہے ؟ کیونکر پاکستان کے قومی معاملات کے حوالے سے قانون سازی کرتے رہے؟حافظ حمداللہ صاحب پانچ سال تک (2002ء تا2006ء) بلوچستان کے صوبائی وزیر صحت رہے ہیں ۔ کیا کوئی ایسا شخص جو سرے سے پاکستانی ہی نہ ہو ، پاکستان کی کسی صوبائی کابینہ کا رکن بن سکتا ہے ؟ ایسا ہُوا ہے تو اسے بجا طور پر '' کلجگ'' کہا جانا چاہیے ۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کے معتمد اور دیرینہ ساتھی، حافظ حمداللہ صاحب ، کی اِس وقت عمر51 سال ہے ۔ اُن کے والد صاحب مبینہ طور پر ایک سرکاری اسکول سے ٹیچر کی حیثیت میں باقاعدہ ریٹائر ہُوئے اور سرکاری پنشن بھی پائی۔ حافظ حمداللہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے مشہور علاقے ''چمن'' سے ہے ۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔
انھوں نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن پکڑے نہ گئے۔ جب وہ بطورِ سینیٹر سینیٹ کی کمیٹی برائے مذہبی اُمور کے رکن بنے ، تب بھی دھرے نہ جا سکے۔ تو کیا شناخت کرنے والے ہمارے قومی اداروں نے 'جلدی' یہ شناخت نہیں کر لی ؟ اس فیصلے یا اقدام کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ۔اپنی پاکستانیت ثابت کرنا حافظ حمداللہ کی ذمے داری ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس اپنے والد کا 60ء کے عشرے کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے ۔حافظ صاحب کے والد صاحب کا وہ پاکستانی پاسپورٹ بھی سامنے لایا گیا ہے جو24اگست1966 ء کو کوئٹہ سے جاری کیا گیا ۔
کیا یہ پاسپورٹ بھی جعلی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ آیا مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں پر پابندیاں لگا کر مولانا فضل الرحمن کے راستے مسدود کیے جا سکتے ہیں؟ اُن کی پارٹی کی ایک شاخ ( انصار الاسلام) پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے معاونِ خصوصی ، مفتی ابرار احمد خان، کی جانب سے پارٹی کے لیٹر ہیڈ پر ایک فہرست جاری کی گئی ہے۔
اس فہرست میں بارہ افراد کے اسمائے گرامی ہیں۔ ان کے بارے میں میڈیا سے کہا گیا ہے کہ یہی لوگ صرف جماعتی پالیسیوں اور موقف کو واضح کریں گے ، اسلیے میڈیا پر صرف اِنہی کو بلایا جائے ۔ حیرت ہے کہ اس فہرست میں مفتی کفایت اللہ اور حافظ حمداللہ کا نام نہیں ہے ۔