آزادی مارچ اور دھرنے سے کیا حاصل
خبر تو یہ بھی ہے کہ خورشید شاہ کو بھی سکھر میں اسپتال میں چیک اپ اور طبی معائنہ کے لیے منتقل کیا گیا ہے
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا آغاز کراچی سے ہورہا ہے۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے سہراب گوٹھ سے مارچ کے قافلے کراچی شہر سے گزرتے ہوئے حیدرآباد اور رات کو قافلوں کا قیام سکھر میں ہوگا جہاں سے گزشتہ روز قافلے پنجاب کی جانب روانہ ہوں گے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ یہ قافلہ پنجاب اور سندھ کے سرحدی شہر ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد تک بآسانی پہنچ جائے گا۔ بلوچستان سے آنے والے قافلے بھی کشمور کے راستے پنجاب کی سرحد تک بلاروک آنے کا امکان ہے۔
صادق آباد سے رحیم یار خان، بہاولپور، ملتان، ساہیوال، اوکاڑہ، لاہور گوجرانوالہ، فیصل آباد، جہلم، اور راولپنڈی تک جی ٹی روڈ اور دوسری رابطہ شاہراہوں پر پنجاب حکومت اور آزادی مارچ کے قافلوں کو کس صورت حال کا سامنا ہو گا، اس بارے میں ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ہی عوام کو بتا سکیں گے ۔خیبر پختونخوا کے اضلاع سے آنے والے آزادی مارچ کا ''یدھ'' یعنی مقابلہ اٹک کے پل اور اس کے نواحی علاقے میں ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن اس وقت حکومت ایک مسلسل آزمائش کا شکار ہے۔اس آزادی مارچ کی وجہ سے عوام کی روزمرہ زندگی اور امور مملکت مشکلات کا شکار رہیں گے۔ غریب آدمی اور دہاڑی دار کو روزگار کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوگا، طالب علم اسکول کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے جب کہ مریضوں کو اسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ مجموعی طور پر پاکستان جیسے ملک میں جو پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے، اس قسم کے دھرنے اور مارچ مزید دھچکے کا باعث بنتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام ان ہچکولوں کو برداشت کیوں نہیں کر سکتا؟.
ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی سیاسی نظام کی بنیاد اور خاص طور پر جمہوری نظام کی بنیاد جمہوری اصولوں پرنہ رکھی جائے وہ اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے سیاسی نظام میں کئی تجربات کیے لیکن کوئی ''بیل منڈھے نہ چڑھ سکی''۔اگر حقیقت حال کو سامنے رکھیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ
خشت اول چوں نہج معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
کے مصداق جس عمارت کی بنیاد سیدھی نہ رکھی جائے اسے اگر آسمان کی بلندی یعنی ثریا تک بھی انچا لے جائیں تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستان میں اس وقت تک سیاسی نظام مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک جمہوری اصولوں کے بنیادی فلسفے کے تحت عوام کی اکثریتی رائے کو مقدم نہ سمجھا جائے گا۔ ہمارے ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے انتخابات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ اقتدار تو منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن اختیار نہیں دیا جاتا۔
ہمارے انتخابات اور حکمرانی کو اس انداز میں انجینئرڈ کیا جاتا ہے کہ عوام کی اصل رائے کی فوقیت ختم ہوجاتی ہے۔ بظاہر منتخب حکومتیں حکمران نظر آتی ہیں لیکن ان کی نگرانی اور فیصلہ سازی کہیں اور ہوتی ہے۔آزادی مارچ اور دھرنے کو روکنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی رھبر کمیٹی کے مذاکرات بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اپوزیشن نے تحریری طور پر چار مطالبات حکومتی ٹیم کے حوالے کیے ہیں جن میں وزیر اعظم کے استعفیٰ، نئے انتخابات کے انعقاد ، آئین میں دی گئی اسلامی دفعات کا تحفظ اور سویلین اداروں کی بالادستی شامل ہے۔ ان چار نکات کا اگر سیاسی تجزیہ کیا جائے تو سب سے اہم سول اداروں کی بالادستی کا معاملہ ہے اگر یہ نکتہ حل کرلیا جائے تو باقی آپ خود بخود حل ہوجائیں گے ۔
سول اداروں کی بالادستی کا نعرہ جس وزیراعظم نے بھی لگایا وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ ماضی قریب کی تاریخ میں محمد خاں جونیجو ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف اس کی مثال ہیں۔ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات اپنی جگہ یقینا اہم ہیں لیکن وہ جو سزا کاٹ رہے ہیں اس کی اصل وجہ ''ووٹ کو عزت دو کا نعرہ'' ہے۔ اب عملی طور پر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کئی سیاسی جماعتوں نے نواز شریف کے اس نعرے کو آزادی مارچ کے نام سے آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ مارچ اپنا ہدف حاصل کر سکے گا یا مولانا فضل الرحمن کا ''پاس ورڈ'' اور ''سافٹ ویئر'' بھی مولانا خادم حسین رضوی کی طرح تبدیل کر دیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان کی اس مہم جوئی یا آزادی مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس پر ہر طرف تبصرے ہورہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال پیچیدہ اورگھمبیر ہوتی جارہی ہے۔دھرنا اور لانگ مارچ کی سیاسی اصطلاح کا اطلاق اگرچہ کبھی کبھار مغربی ممالک میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس کا مرکز و منبع ایشیائی ممالک ہی ہیں۔بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں سابق صدر جنرل ارشاد کے آمرانہ حکومت ختم کرنے کے لیے لانگ مارچ کی طرز پر لوگ جمع ہوئے، انھوں نے چار دن تک مسلسل مظاہرے اور دھرنے کی سیاست کر کے صدر جنرل ارشاد کو مجبور کر دیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر چوک میں عرب دنیاکی نئی تاریخ لکھی گئی۔پاکستان میں بھی کئی بار لانگ مارچ کی گئی۔ جماعت اسلامی اور بینظیر بھٹو نے بھی لانگ مارچ کی کال دی۔ان لانگ مارچوں کے نتائج اب تاریخ کا حصہ ہیں۔چھ سال پہلے وکلاء نے عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی کے لیے تحریک شروع کی۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس تحریک کا مثالی ساتھ دیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے ججزبحال ہوئے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں لانگ مارچ اور ریلیوں کی طرز کے عظیم اجتماعات ہماری قومی سیاست کی نئی جہتیں ہیں۔
وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ہمارے قائدین دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کر لیں ورنہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں گے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ یہ قافلہ پنجاب اور سندھ کے سرحدی شہر ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد تک بآسانی پہنچ جائے گا۔ بلوچستان سے آنے والے قافلے بھی کشمور کے راستے پنجاب کی سرحد تک بلاروک آنے کا امکان ہے۔
صادق آباد سے رحیم یار خان، بہاولپور، ملتان، ساہیوال، اوکاڑہ، لاہور گوجرانوالہ، فیصل آباد، جہلم، اور راولپنڈی تک جی ٹی روڈ اور دوسری رابطہ شاہراہوں پر پنجاب حکومت اور آزادی مارچ کے قافلوں کو کس صورت حال کا سامنا ہو گا، اس بارے میں ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ہی عوام کو بتا سکیں گے ۔خیبر پختونخوا کے اضلاع سے آنے والے آزادی مارچ کا ''یدھ'' یعنی مقابلہ اٹک کے پل اور اس کے نواحی علاقے میں ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن اس وقت حکومت ایک مسلسل آزمائش کا شکار ہے۔اس آزادی مارچ کی وجہ سے عوام کی روزمرہ زندگی اور امور مملکت مشکلات کا شکار رہیں گے۔ غریب آدمی اور دہاڑی دار کو روزگار کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوگا، طالب علم اسکول کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے جب کہ مریضوں کو اسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ مجموعی طور پر پاکستان جیسے ملک میں جو پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے، اس قسم کے دھرنے اور مارچ مزید دھچکے کا باعث بنتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام ان ہچکولوں کو برداشت کیوں نہیں کر سکتا؟.
ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی سیاسی نظام کی بنیاد اور خاص طور پر جمہوری نظام کی بنیاد جمہوری اصولوں پرنہ رکھی جائے وہ اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے سیاسی نظام میں کئی تجربات کیے لیکن کوئی ''بیل منڈھے نہ چڑھ سکی''۔اگر حقیقت حال کو سامنے رکھیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ
خشت اول چوں نہج معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
کے مصداق جس عمارت کی بنیاد سیدھی نہ رکھی جائے اسے اگر آسمان کی بلندی یعنی ثریا تک بھی انچا لے جائیں تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستان میں اس وقت تک سیاسی نظام مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک جمہوری اصولوں کے بنیادی فلسفے کے تحت عوام کی اکثریتی رائے کو مقدم نہ سمجھا جائے گا۔ ہمارے ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے انتخابات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ اقتدار تو منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن اختیار نہیں دیا جاتا۔
ہمارے انتخابات اور حکمرانی کو اس انداز میں انجینئرڈ کیا جاتا ہے کہ عوام کی اصل رائے کی فوقیت ختم ہوجاتی ہے۔ بظاہر منتخب حکومتیں حکمران نظر آتی ہیں لیکن ان کی نگرانی اور فیصلہ سازی کہیں اور ہوتی ہے۔آزادی مارچ اور دھرنے کو روکنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی رھبر کمیٹی کے مذاکرات بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اپوزیشن نے تحریری طور پر چار مطالبات حکومتی ٹیم کے حوالے کیے ہیں جن میں وزیر اعظم کے استعفیٰ، نئے انتخابات کے انعقاد ، آئین میں دی گئی اسلامی دفعات کا تحفظ اور سویلین اداروں کی بالادستی شامل ہے۔ ان چار نکات کا اگر سیاسی تجزیہ کیا جائے تو سب سے اہم سول اداروں کی بالادستی کا معاملہ ہے اگر یہ نکتہ حل کرلیا جائے تو باقی آپ خود بخود حل ہوجائیں گے ۔
سول اداروں کی بالادستی کا نعرہ جس وزیراعظم نے بھی لگایا وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ ماضی قریب کی تاریخ میں محمد خاں جونیجو ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف اس کی مثال ہیں۔ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات اپنی جگہ یقینا اہم ہیں لیکن وہ جو سزا کاٹ رہے ہیں اس کی اصل وجہ ''ووٹ کو عزت دو کا نعرہ'' ہے۔ اب عملی طور پر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کئی سیاسی جماعتوں نے نواز شریف کے اس نعرے کو آزادی مارچ کے نام سے آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ مارچ اپنا ہدف حاصل کر سکے گا یا مولانا فضل الرحمن کا ''پاس ورڈ'' اور ''سافٹ ویئر'' بھی مولانا خادم حسین رضوی کی طرح تبدیل کر دیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان کی اس مہم جوئی یا آزادی مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس پر ہر طرف تبصرے ہورہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال پیچیدہ اورگھمبیر ہوتی جارہی ہے۔دھرنا اور لانگ مارچ کی سیاسی اصطلاح کا اطلاق اگرچہ کبھی کبھار مغربی ممالک میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس کا مرکز و منبع ایشیائی ممالک ہی ہیں۔بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں سابق صدر جنرل ارشاد کے آمرانہ حکومت ختم کرنے کے لیے لانگ مارچ کی طرز پر لوگ جمع ہوئے، انھوں نے چار دن تک مسلسل مظاہرے اور دھرنے کی سیاست کر کے صدر جنرل ارشاد کو مجبور کر دیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر چوک میں عرب دنیاکی نئی تاریخ لکھی گئی۔پاکستان میں بھی کئی بار لانگ مارچ کی گئی۔ جماعت اسلامی اور بینظیر بھٹو نے بھی لانگ مارچ کی کال دی۔ان لانگ مارچوں کے نتائج اب تاریخ کا حصہ ہیں۔چھ سال پہلے وکلاء نے عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی کے لیے تحریک شروع کی۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس تحریک کا مثالی ساتھ دیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے ججزبحال ہوئے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں لانگ مارچ اور ریلیوں کی طرز کے عظیم اجتماعات ہماری قومی سیاست کی نئی جہتیں ہیں۔
وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ہمارے قائدین دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کر لیں ورنہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں گے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا