ایف آئی اے نے مکمل تحقیق کے بغیر فرض کرلیا جائیداد جسٹس فائز کی ہے سپریم کورٹ
جسٹس فائز کے داماد گھر خریدنا چاہتے تھے، پیسوں کی کمی پر جسٹس فائز نے رقم ادا کی، وکیل منیر اے ملک
سپریم کورٹ کے فاضل جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے مکمل تحقیق کے بغیر فرض کرلیا کہ جائیداد جسٹس فائز کی ہے۔
جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائزعیسیٰ اوردیگر کی درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس فائزعیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے 2017 تک اپنی اہلیہ اور بچوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا، 2017 میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی جس کی رقم اپنی بیٹی اور داماد کو دی، جسٹس فائز عیسیٰ کے داماد لاہور میں گھر خریدنا چاہتے تھے جس کے لیے پیسوں کی کمی تھی جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے رقم ادا کی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ 10 مئی 2019 کو کمشنر ان لینڈ ریونیو کو اسسٹنٹ کمشنر نے خط لکھا اور جسٹس فائز عیسیٰ اور اہلخانہ کی ٹیکس تفصیلات فراہم کی گئیں، خط میں کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور اثاثے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے گیے، 10 مئی کو ہی شہزاد اکبر نے وزیر قانون کو خط لکھا۔
منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ جسٹس فائز کے خلاف درخواست گزار وحید ڈوگر نے چیئرمین اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو ایک فلیٹ کی دستاویز دیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے رضوان نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا ریکارڈ نادرا سے چیک کرایا، کچھ علم نہیں، حکومت کو لندن جائیدادوں کے ایڈریس کیسے ملے، لندن کی کوئی جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کے نام نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست کے مطابق دھرنا کیس کے فیصلے کے دوران نگرانی کی جاتی رہی۔ منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس میں جائیداد کے بے نامی دار ہونے کا الزام نہیں لگایا بلکہ الزام یہ ہے کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں جو ظاہر نہیں کی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے مکمل تحقیق نہیں کی بلکہ فرض کر لیا کہ جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کی ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ایف بی آر نے ریٹرن فائل نہ کرنے پر اہلیہ کو نوٹس کیا تھا، 30 مئی کوفردوس عاشق نے پریس کانفرنس میں عدلیہ پراحتساب کے شکنجے کی بات کی، مخصوص بیانیہ بنانے کے لیے منظم میڈیا مہم شروع کی گئی، یہ سارا کچھ انتظامیہ کی طرف سے ہوا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائزعیسیٰ اوردیگر کی درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس فائزعیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے 2017 تک اپنی اہلیہ اور بچوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا، 2017 میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی جس کی رقم اپنی بیٹی اور داماد کو دی، جسٹس فائز عیسیٰ کے داماد لاہور میں گھر خریدنا چاہتے تھے جس کے لیے پیسوں کی کمی تھی جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے رقم ادا کی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ 10 مئی 2019 کو کمشنر ان لینڈ ریونیو کو اسسٹنٹ کمشنر نے خط لکھا اور جسٹس فائز عیسیٰ اور اہلخانہ کی ٹیکس تفصیلات فراہم کی گئیں، خط میں کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور اثاثے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے گیے، 10 مئی کو ہی شہزاد اکبر نے وزیر قانون کو خط لکھا۔
منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ جسٹس فائز کے خلاف درخواست گزار وحید ڈوگر نے چیئرمین اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو ایک فلیٹ کی دستاویز دیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے رضوان نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا ریکارڈ نادرا سے چیک کرایا، کچھ علم نہیں، حکومت کو لندن جائیدادوں کے ایڈریس کیسے ملے، لندن کی کوئی جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کے نام نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست کے مطابق دھرنا کیس کے فیصلے کے دوران نگرانی کی جاتی رہی۔ منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس میں جائیداد کے بے نامی دار ہونے کا الزام نہیں لگایا بلکہ الزام یہ ہے کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں جو ظاہر نہیں کی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے مکمل تحقیق نہیں کی بلکہ فرض کر لیا کہ جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کی ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ایف بی آر نے ریٹرن فائل نہ کرنے پر اہلیہ کو نوٹس کیا تھا، 30 مئی کوفردوس عاشق نے پریس کانفرنس میں عدلیہ پراحتساب کے شکنجے کی بات کی، مخصوص بیانیہ بنانے کے لیے منظم میڈیا مہم شروع کی گئی، یہ سارا کچھ انتظامیہ کی طرف سے ہوا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔