کُل پاکستان موسیقی کانفرنس آخری رات محفل اگلے روز چھ بجے تک جاری رہی

آل پاکستان میوزک کانفرنس کی بنیاد حیات احمد خان نے کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لئے 1959ء سے میں رکھی۔

آل پاکستان موسیقی کانفرنس‘ کے شرکا کا کہنا تھا کہ اس جیسی شاندارمحفلیں ہرماہ ہونی چاہیئیں۔ فوٹو : پی پی آئی

آل پاکستان میوزک کانفرنس 1959ء سے کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے اس کے بانی حیات احمد خان تھے جنہوں نے اس کی بنیاد رکھی، جس کے تحت ہر سال ''کل پاکستان موسیقی کانفرنس'' کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

کانفرنس میں جہاں ملک کے معروف فوک ،کلاسیکل گویوں اور ساز بجانے والوں کو مدعو کیا جاتا ہے وہیں نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے درمیان گائیکی کا مقابلہ کروایا جاتاہے، جن میں بہترین پرفارم کرنے والوں کو ایوارڈ اور تعریفی اسناد دی جاتی ہیں۔ سال رواں بھی 8اکتوبر کو الحمراء ہال نمبر2 میں ''کل پاکستان موسیقی کانفرنس'' شروع ہوئی جو پانچ روز تک جاری رہی۔



موسیقی کانفرنس حسب روایت اپنے مقررہ وقت پر 6بجے شروع ہوتی رہی۔ پہلے روز طلبا وطالبات میں غضنفر ٹرافی ، میڈل ، روشن آراء بیگم ، سید واجد علی ٹرافی ، جمیل مظہر اور مزاری میڈل کے لئے جبکہ شوقیہ فنکاروں میں حیات احمد خان ٹرافی ، انصاری ، عبدالعزیز ، پرویز مراد اور احمد معراج ایوارڈز کے لئے مقابلہ ہوا۔ فوک، کافی ، گیت میں روبا رائے نے دوسری پوزیشن ، غزل گائیکی میں محمد حسن ، کلاسیکل میں انا ماریہ ، سحر یونس اور نیم کلاسیکل میں علی نور چودھری نے بالترتیب دوسری پوزیشن حاصل کی۔ کالج اور یونیورسٹی کیٹگری میں کافی ، گیت ، فوک میں اقلیمہ ندیم ، غزل گائیکی میں محمد قاسم رضا ، انسٹرومنٹ میں امانت علی جعفر ، نیم کلاسیکل میں سحر یار عابد اور کلاسیکل میں منال جعفری اعزاز کے حق دار ٹھہرے۔ بہترین کلاسیکل پرفارمنس پر روشن آراء بیگم شیلڈ عاکفہ عباس کے حصے میں آئی۔

میوزک اکیڈمی کیٹگری میں فوک ، کافی ، گیت میں محمد اکرم ، غزل گائیکی میں راحت حسن ، انسٹرومنٹ میں سجیل جان، نیم کلاسیکل میں زونیب زاہد اور کلاسیکل گائیکی میں شرجیل پرویز نے انعامات حاصل کیے۔ دوسرے روز گھرانوں کی میراث کے حوالے سے پروگرام ہوا جس میں ثروت علی خان ، سنی آصف مہدی، کشان آصف، سمیر عباس شاہ ، عقیل طاہر، اسد علی ، قاسم علی ، محمد ، اعجاز علی خان ، فرحان حسن ، ہارون سموئیل، شیر یار علی خان ، محمد مسلم شگن ، ظفر اللہ لوک، ممتاز سجاد طافو، امانت مبارک علی، شفقت حسین، اسرار نبی بخش، ساجد علی خان فریدی، ریاض احمد ، اکبر علی خان ، باقر عباس ، حسن بادشاہ، شجاعت علی خان ، وارث علی بلو، نایاب علی خان اور انعام علی خان نے فوک ، غزل ، خیال، کافی ، طبلہ ، سارنگی ، بانسری کی پرفارمنس پیش کیں ۔




کانفرنس کے تیسرے روز لوک موسیقی ، گیت ، غزل ، کافی اور ٹھمری کا پروگرام تھا جس میں لیاقت عنایت نے آغاز میں حمد اور ہیر پیش کی اس کے بعد ابوبکر باری ، ممتاز اقبال ، محمد اسلم لوہار،ارشد محمود خان، ریحانہ اختر، شینو لعل، جاوید نیازی اور بابر نیازی نے فوک گائیکی کی پرفارمنس دی۔ ان کے علاوہ شاہد احمد جاوید ، نثار ڈینیل،لطافت علی خان ، محمد حنیف بخشی، نعیم عباس مہدی ، علی رضا، قادر علی شگن نے غزل ، وحدت رمیز، جارج اقبال نے کافی اور آصف علی نے گیت پیش کئے ۔ چوتھے روز کلاسیکی موسیقی کا پروگرام تھا جس میں لیاقت علی نے جلترنگ ، علی ظفر نے سارنگی جبکہ غلام عباس ، ندیم ریاض خان ، یونس اقبال، امانت علی خان ، چاند خان ، سورج خان، ڈاکٹر امجد پرویز ، نذیر احمد خان آفریدی ، عبدالروف ، محمد جواد، استاد محفوٖظ کھوکھر، ریاض علی خان اور استاد غلام حیدر خان نے خیال گائیکی پیش کی ۔

موسیقی کانفرنس کے آخری روز پٹیالہ گھرانہ کے استاد فتح علی خاں، استاد حامد علی خاں، رستم فتح علی خاں، شام چوراسی گھرانہ کے استاد شفقت سلامت علی خاں، گوالیارگھرانہ کے استاد فتح علی خاں حیدرآبادی، معروف طبلہ نواز استاد طافو خاں، فریحہ پرویز، اکبر خمیسو خاں، اعجاز سرحدی، غفور سومرو، غلام محمد چاند، ممتازعلی سبزل، صائمہ ممتاز، تاجی بلیدی، استاد ناصرالدین سمی، عالیہ رشید، نورزہرہ کاظم، اکمل قادری، فہیم مظہر، استاد جاویدحسین خان، استاد غلام خسرو خان، جعفر حسین سمیت دیگرنے اپنے فن کامظاہرہ کیا۔ اس رات شروع ہونے والا پروگرام اگلی صبح چھ بجے تک جاری رہا۔



اس موقع پر کلاسیکی موسیقی کے متوالے رات بھرسچے سروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایک طرف استاد فتح علی خاں کی راگ داری نے حاضرین کو 'واہ واہ ' کہنے پرمجبورکیا تودوسری جانب لوگ استاد طافوخاں کے طبلے پر جھومتے رہے۔ اسی طرح استاد شفقت سلامت علیخاں کی گائیکی اورفریحہ پرویز کی عمدہ پرفارمنس نے حاضرین سے خوب داد حاصل کی۔

موسیقی کانفرنس کی آخری رات شرکاء میں جہاں زندہ دلان لاہور موجود تھے، وہیں دوسرے شہروں سے بھی موسیقی کے دلدادہ الحمراء کی سیڑھیوں میں بیٹھ کرموسیقی سے محظوظ ہوتے رہے۔ اس موقع پر گائیکی کے ساتھ ساتھ مختلف سازوں میں خیال، دھرپد سنا کرمعروف سازندوں نے سماں باندہ دیا۔ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے استاد فتح علی خاں، حامد علی خاںِ شفقت سلامت علیخاں، رستم فتح علی خاں اورطافو خاں نے کہا کہ ''کل پاکستان موسیقی کانفرنس'' جیسی شاندارمحفلیں ہرماہ ہونی چاہئیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج بھی کلاسیکی موسیقی کو سننے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔



جوصرف اورصرف کلاسیکی موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ رات بھرموسیقی سے لطف اندوز ہونے والوں نے جس طرح سے فنکاروں کے فن کو سراہا ہے یہ کسی ایوارڈ سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فن موسیقی اورخاص طورپرکلاسیکی موسیقی کونوجوان نسل تک پہنچانے کیلئے فن وثقافت کے فروغ کیلئے بنائے گئے اداروں کو اسی طرح کی محفلیں لاہورسمیت ملک کے کونے کونے میں سجانی ہوں گی جس کی وجہ سے ایک طرف معروف فنکاروں کو اپنا فن پیش کرنے کاموقع ملے گا جبکہ بہت سا ٹیلنٹ بھی سامنے آئے گا جومستقبل میں موسیقی کے ذریعے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرے گا۔
Load Next Story