حکمراں مالا مال‘ عوام کنگال
وطن عزیز میں عرصہ دراز سے لوٹ مارکا بازار گرم ہے۔ اس اعتبار سے اگر اسے لٹیروں کی جنت کہا جائے۔۔۔
وطن عزیز میں عرصہ دراز سے لوٹ مارکا بازار گرم ہے۔ اس اعتبار سے اگر اسے لٹیروں کی جنت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف چور ڈاکو ہیں جو سر عام بے جھجھک دن دہاڑے راہ چلتے ہوئے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمراں ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو لوٹ کر کنگال کر رکھا ہے اور اربوں کھربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک بینکوں میں جمع کرائی ہوئی ہے اور چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد کے مصداق نہ صرف کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ مسند اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔
ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق صرف سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کے 152.9 ارب ڈالر جمع ہیں۔ سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ لوٹ مار کی یہ رقم سوئس بینکوں میں بھارتیوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم سے بھی زیادہ ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ بھارت نے جب سے ڈی ٹی اے پر دستخط کیے ہیں اس کے بعد سے بھارتیوں کی جانب سے سوئس بینکوں میں جمع کرائی جانے والی رقوم میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان بھی اگر اس معاہدے میں شامل ہوجائے تو اسے بھی سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے کھولے ہوئے کھاتوں تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز کے خزانے کو کس کس نے بے دریغ لوٹا ہے۔ اس میں نہ صرف کرپٹ حکمراں بلکہ ہماری بیوروکریسی کے بڑے بڑے مگرمچھ بھی شامل ہیں۔
بھارت کے علاوہ سوئس حکومت کے ساتھ ڈی ٹی اے پر دستخط کرنے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک کے علاوہ قطر بھی شامل ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت ممکن ہوا جب مغربی ممالک نے تنگ آکر سوئس بینکوں میں مسروقہ رقومات کا سراغ لگانے کے لیے سوئس حکومت پر شدید دباؤ ڈالا جس کے تحت سوئٹزرلینڈ کی پارلیمان 2010 میں ایک قانون کی منظوری دینے پر مجبور ہوگئی جس کے تحت سوئس بینکوں کی انتظامیہ کو مطلوبہ معلومات کی فراہمی کا پابند ہونا پڑا۔
پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہورہا ہے کہ ایک جانب ملک سے لوٹی ہوئی دولت کے بیرون ملک انبار لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب قومی خزانہ خالی پڑا ہے اور مظلوم عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سیاسی نورا کشتی کے ذریعے ہمارے روایتی حکمراں یکے بعد دیگرے اقتدار کی باریاں لے رہے ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں موروثی حکمرانی کا کھیل دھڑلے کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کام نہایت ڈرامائی انداز میں کیا جارہا ہے ۔
پاور سیکٹر پر میاں شہباز شریف کی بالادستی کا عقدہ اس وقت کھلا جب بجلی کے حالیہ ٹیرف میں اضافے سے قبل میاں صاحب کے زیر صدارت اس سلسلے کے اجلاسوں کی خبریں عام ہوئیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بجلی و پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی میاں صاحبان کے قریبی عزیز ہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ پالیسی ایشوز سے متعلق کئی اجلاس خواجہ آصف کے بجائے عابد شیر علی کی ہدایت پر طلب کیے گئے۔ یہ حکم بھی عابد شیر علی کے کہنے پر ہی جاری کیا گیا کہ کے ای ایس سی کو 650 میگاواٹ سے زائد ایک میگاواٹ بجلی بھی فراہم نہ کی جائے۔ اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
بعض اطلاعات کے مطابق ایک سمری مدت دراز سے کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے جس کا مقصد پاکستان کو بھی اسی معاہدے میں شامل کرانا ہے جس کے تحت بھارت اور دیگر کئی مغربی ممالک کو سوئس بینکوں میں ان کے شہریوں کی جانب سے کھولے گئے کھاتوں تک رسائی حاصل ہے۔ یہ سمری سابقہ حکومت کے دور میں پیش کی گئی تھی جو انجام کار سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ پھر اسے دوبارہ پیش کیا گیا مگر اس بار بھی اس کا وہی حشر ہوا۔ دوسری مرتبہ یہ سمری اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو پیش کی گئی تھی۔ ابھی نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سمری اس مرتبہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پیش کی گئی ہے۔ لیکن وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ اس سمری کو اپ ڈیٹ کرنے اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بڑے زوردار الفاظ میں سابقہ حکومت کی شاہ خرچیوں اور کرپشن کے بار بار تذکرے کیے جاتے تھے اور یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ برسرا قتدار آنے کے بعد یہ جماعت سب سے پہلا کام شاید یہی کرے گی کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک سے بلاتاخیر ملک کے اندر لایا جائے۔ مگر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی بھولی ہوئی داستان یا گزرا ہوا خیال ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ یا تو حکومت وقت اس معاملے میں دیگر معاملات کی طرح گو مگوں کا شکار ہے یا پھر سابقہ حکومت کے ساتھ احسان کے بدلے احسان کے حوالے سے وہی سلوک دہرانا چاہتی ہے جسے عرف عام میں فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا ہے۔ گستاخی معاف مسلم لیگ (ن) نے تو اقتدار میں آنے سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ وہ کشکول توڑ دے گی لیکن ابھی اسے اقتدار سنبھالے زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اس نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرکے مہنگائی کا وہ طوفان برپا کیا ہے کہ کشکول توڑنے کے بجائے اس نے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے بڑے تاریخ ساز فیصلے کیے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرونی ممالک سے پاکستان واپس لانے کے سلسلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ ابھی بھی امید ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنے عہدے سے سبکدوشی سے قبل ایسے فیصلے کریں گے جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں جس میں کرپشن کی مرتکب بڑی بڑی مچھلیاں بھی شامل ہیں۔ قوم اس بات کی منتظر ہے کہ سوئس بینکوں میں جمع ملک کی لوٹی ہوئی دولت بھی کسی طور مزید تاخیر کے بغیر وطن میں واپس آجائے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اربوں ڈالر پر مشتمل یہ بھارتی رقوم ملک میں واپس آجائیں تو پاکستانی معیشت کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی طوفانی لہروں سے نکل کر استحکام کے ساحل تک پہنچ سکتی ہے۔ سوئس بینکوں میں جمع اربوں روپے کی یہ دولت پاکستانی قوم کی خون پسینے کی کمائی ہے اور یہ وطن عزیز کے عوام کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اگر موجودہ حکومت سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر اس دولت کو ملک میں واپس لے آئے تو ملک کے کنگال عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے حکمراں مالا مال اور عوام کنگال ہیں۔ بہرحال صدارتی استثنیٰ ختم ہوجانے کے بعد احتساب عدالتوں کی جانب سے آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنسوں کے کھلنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ فی الحال اس بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ