ہماری بے زبانی ہماری بربادی

روزنامہ ایکسپریس نے اردو کانفرنس منعقد کر کے بہت کچھ یاد دلا دیا۔ پہلے تو اس ادارے کے کارکنوں کا۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

روزنامہ ایکسپریس نے اردو کانفرنس منعقد کر کے بہت کچھ یاد دلا دیا۔ پہلے تو اس ادارے کے کارکنوں کا شکریہ کہ انھوں نے نہایت سلیقے کے ساتھ یہ عالمی کانفرنس منعقد کی اور پھر ان محترم شرکاء کو خراج تحسین اور شکریہ جنہوں نے اس عالمی موقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا اور بڑی حکمت اور کھلے دل سے اپنے خیالات کو آگے پہنچایا۔

قدرت نے انسان کو قوت گویائی بھی عطا کی لیکن حیرت ہے کہ ہم آزادی کے 66 برسوں میں بھی اپنی قوت گویائی سے محروم اور بے زبان ہی رہے۔ ایک زبان اردو جو ہمیں ورثے میں ملی اور ایسے جیسے وہ ہم پر ٹھونس دی گئی ہمارے حکمرانوں نے اسے مسترد کر دیا اور اس کی جگہ اپنے سابقہ حکمرانوں کی انگریزی کو قبول کر لیا ہے مگر افسوس کہ ہمیں انگریزی بھی نہیں آتی تھی اور اس طرح ہم اس غیر ملکی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی پیدائشی قومی زبان سے بھی دور ہو گئے۔ انتہا یہ ہے کہ پنجاب جیسے اردو نواز صوبے کی حکومت اب پہلی جماعت سے انگریزی رائج کر رہی ہے اس پر سوائے حیرت کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہاں انگریزی کے ان پر ستاروں کو شرم دلانے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔

میں نے اپنی قومی زبان سے محروم قومیں دیکھی ہیں جو اپنی تہذیب اور تمدن سے بھی محروم ہو گئیں۔ صاف الفاظ میں یوں کہیں کہ مر گئیں۔ ان کی جگہ لینے کے لیے نئی قوم پیدا نہ ہو سکی۔ روسیوں نے جب مسلمان وسطی ایشیا پر قبضہ کے بعد یہاں کے فارسی عربی اور مادری زبان بولنے لکھنے پڑھنے والوں پر ان زبانوں کے استعمال کی پابندی لگا دی، ان کی کتابوں کے ذخیروں کو تلف کر دیا اور ان کی درسگاہوں کو بند کر دیا حتیٰ کہ مسجدوں کو بھی عربی زبان کی حد تک اس سے محروم کر دیا تو اس کے بعد اسکولوں میں روسی زبان رائج کی گئی۔

جب نئی نسل روسی زبان کے ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر باہر نکلی تو ان کی زبان روسی تھی اور نوکریاں اور کاروبار بھی ان کے لیے تھے لیکن وہ کون تھے انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ بخاری تھے، سمرقندی اور تاشقندی تھے اور ازبکستانی تھے، سب کچھ تھے لیکن اپنے اسلامی علمی پس منظر سے لا علم تھے۔ ان کے اس پس منظر کا ہم برصغیر کے مسلمانوں کو ان سے زیادہ علم تھا۔ انھوں نے اسلامی علوم و فنون کے جو حیرت انگیز اور منفرد ذخیرے جمع کر دیے تھے وہ ہمارے پاس تو موجود تھے لیکن ان کے اصل خالق ان سے محروم تھے۔


حدیث رسول پاک کے ارشادات کا مستند ترین ذخیرہ جسے صیح بخاری کے نام سے جانا جاتا ہے اور حنفی فقہ کی مستند ترین کتاب ہدایہ ، یہ سب وسطی ایشیا کے علما کے زندہ کارنامے تھے جو دنیا بھر کے مسلمان ملکوں اور مسلمان لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کے سر چشمہ تھے۔ میں نے بخارا کے بازاروں میں ان کتابوں کو بہت تلاش کیا مگر ناکام رہا۔ تاشقند اور سمرقند کے بازار بھی ان ذخیروں سے خالی تھے۔ میں نے وسط ایشیا کے بعض دوسرے دارالحکومتوں میں بھی سیاحت کے دوران ان کتابوں کی تلاش جاری رکھی مگر ناکام اور مایوس رہا، اس پر میں نے سوچا کہ مسلمانوں کا مرکز وسطی ایشیا مر گیا ہے اور اس کا ذکر کرنے والا اب کوئی نہیں رہا، سب روسی ہیں جو اپنی پسند کے مطابق ان رجعت پسند ملکوں اور ان میں آباد مسلمان قوم کا ذکر کرتے ہیں۔

اذان سے محروم مسجدیں دیکھیں طلبہ اور اساتذہ سے محروم مدرسے دیکھے۔ میں نے سمرقند میں ایک ایسا منظر دیکھا کہ رو دیا۔ ایک بزرگ خاتون نوزائیدہ بچے کو گود میں لے کر ایک مسجد کے قریب پہنچی، بچے کو اوپر کا ایک کپڑا ہٹا کر اس کے ننگے بدن کو مسجد کی دیوار کے ساتھ لگایا ،کچھ پڑھا اور پھر بچے کو پیار کر کے دم کرکے واپس چلی گئی۔ معلوم ہوا کہ مسجدیں اب اس لیے رہ گئی ہیں کہ بچوں کے بدن کو ان کی دیوار کے ساتھ لگا کر خیر و برکت حاصل کی جائے۔ ان کے گھروں میں شاید ہی قرآن پاک موجود ہو اگر کسی گھر میں کوئی ایک ورق موجود ہے تو اسے ایک نعمت سمجھ کر محفوظ رکھا جاتا ہے اور اسے ہاتھ سے چھو کر برکت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے مرکزوں کا حال تھا جہاں اسلامی دور کی عمارتیں باقی ہیں تو مگر روح سے خالی۔

اب آگے چلیے۔ ترکی کا حال ملاحظہ کیجیے جہاں اسلامی نشانیوں اور اسلامی اعمال کو قانوناً بند کر دیا گیا تھا۔ مسجدیں اذان سے محروم ہو گئیں اور کتب خانے اسلامی کتابوں سے خالی۔ اسلامی کتابوں کی طباعت کے لیے استنبول کا شہر بہت بڑا مرکز تھا۔ ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ ''قرآن مکہ میں نازل ہوا استنبول میں چھاپا گیا اور مصر میں پڑھا گیا''۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس میں ایک اضافہ کیا کہ 'ہندوستان میں سمجھا گیا'۔ بہر حال اس پرانی کہاوت میں استنبول کو اسلامی کتب کی طباعت کا ایک مرکز سمجھا گیا۔ میں آج کی بات تو نہیں کر سکتا لیکن پانچ دس سال پہلے میں نے استنبول میں پرانی اسلامی عربی و فارسی کتابوں کو بہت تلاش کیا مگر اس شہر کا بھی وہی حال تھا جو میں وسطی ایشیا کے شہروں میں دیکھ چکا تھا۔

یہ اس دور تک حقیقت کی عملی مثالیں تھیں کہ جب کسی قوم کو اس کی زبان سے محروم کردیا جاتا ہے تو اسے گویا اس کی زندگی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ میں نے جب یہ پڑھا کہ پنجاب حکومت اسکولوں میں انگریزی زبان کو پہلی جماعت سے رائج کر رہی ہے تو سچ جانئے سمرقند و بخارا اور استنبول میری نظر میں گھوم گئے اور میں یہ تصور نہ کر سکا کہ لاہور کے کتب خانے اور تعلیمی ادارے اردو زبان سے محروم ہوں گے۔ آزادی کو 66برس گزر گئے ہمارے حکمرانوں کی دنیا سے رابطے کی زبان انگریزی ہے جو وہ اچھی طرح بول بھی نہیں سکتے اور اپنی قومی زبان میں بات کرنے والوں کے جواب میں ہمارے حکمران انگریزوں کی زبان بولتے ہیں۔ اردو کانفرنس کے ایک مقرر نے بتایا کہ جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد جب جنگ بندی کی بات ہوئی تو جاپانیوں نے شرط رکھی کہ ان کے قومی اتحاد کی علامت بادشاہت کو برقرار رکھا جائے اور ان کی زبان کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔ جاپانی اپنی اسی زبان اور بادشاہت کے ساتھ آج کی دنیا میں ایک کامیاب قوم ہیں مگر ہمارے حکمران خدا جانے کہاں سے آئے ہیں، کیا یہ پرانے زمانے کے ''اینگلو انڈین'' ہیں یا نئے زمانے کے انگریزیت کی پیداوار۔

پہلے کراچی اور پھر لاہور میں اردو کانفرنس نے قوم کو ایک نئی دنیا دکھائی ہے، ایک نئی زندگی کا پتہ دیا ہے اور اردو کی توانائی کے لیے کئی نسخے بیان کیے ہیں۔ تعمیر ملت کے لیے کسی اخبار کا یہ ایک منفرد اور غیر معمولی کارنامہ ہے جو اس قوم کو بہت کچھ دے کر بظاہر ختم ہوا ہے لیکن اس کے اثرات باقی اور زندہ رہیں گے۔ ہمارا اخبار اس کانفرنس کے اثرات کو زندہ رکھے گا۔ انشاء اللہ۔
Load Next Story