وطن عزیز کی سیاست کا حال
خلاصہ کلام یہ کہ اس نظام حکومت کی بنیاد صرف اور صرف کثرت رائے ہی ہے
ایک جانب وطن عزیز کو بیرونی اور اندرونی محاذوں پر نت نئے اور سنگین چیلنج درپیش ہیں تو دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی مسائل گرفتگی کا عالم یہ ہے کہ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اگرچہ افغانستان کی بدلتی صورتحال بھی مسلسل درد سرکے عذاب سے کم نہیں کہ جو مینڈکوں کو تولنے کے اعصاب شکن اور انتہائی صبر آزما عمل کے مترادف ہے، لیکن اصل اور سب سے بڑا خطرہ اس وقت وطن عزیز کو بھارت کی طرف سے لاحق ہے جس کی موجودہ انتہا پسند قیادت ''ہندو توا ''کے ایجنڈے اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے کی تکمیل کی خاطرکسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
اس کی اولین چال یہ تھی کہ پاکستان کو اقوام عالم میں بد نام کرکے یکہ وتنہا کر دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد سے بھارتی پردھان منتری مودی نے مختلف ممالک کے دورے کیے اور انھیں پاکستان کے خلاف اکسانے اور بھارت کا ہمنوا بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
اور تو اور مودی نے سعودی اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنے سفلی عمل کے ذریعے رام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ لیکن ''ہمت مرداں مدد خدا''کے مصداق وزیر اعظم عمران خان نے بروقت سفارت کاری سے پردھان منتری مودی کی جھوٹی سفارت کاری کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی۔
یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف افغانستان کے دیرینہ مسئلے کے حل کی تلاش میں پاکستان کی اہمیت کو محسوس کیا جا رہا ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے دو بڑے برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کے لیے بھی وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی جانب سے سہولت کار کا اہم ترین کردار ادا کرنے کے اہل قرار پائے ہیں جوکہ ان کے اور وطن عزیز پاکستان کے لیے بھی بڑی خوشی اور اعزاز کی بات ہے۔ خدا کرے کہ یہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ مبارک دن بھی دیکھنا نصیب ہو جب ہم فرط مسرت سے یہ کہہ سکیں کہ:
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
خارجی محاذ پر وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی ان کی اہلیت اور ان کی شخصیت کی سحر انگیزی اور جاذبیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے انکار سراسر زیادتی اور نا انصافی ہوگی۔ بلاشبہ عالمی سطح پر ایک سالہ مختصر دور اقتدار میں عمران خان نے عالمی سطح پر جو مشکل اہداف حاصل کرلیے ہیں وہ لائق ستائش ہیں لیکن ہمارا اصرار ہے کہ وہ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ:
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مقبوضہ کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور یہ آتش فشاں پھٹ کر کوئی بھی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ دشمن کی کمینگی کی کوئی حد مقرر نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر روزمرہ کی بلااشتعال جارحیت کے بعد اب ہمارا سفاک دشمن آبی جارحیت کی دھمکیوں تک پر اتر آیا ہے۔ خدا کے فضل وکرم سے وطن عزیز ایٹمی قوت کی صورت میں ناقابل شکست ہے ورنہ تو ہمارا جانی دشمن اسے نوالہ تر سمجھ کر نہ جانے کب کا نگل چکا ہوتا۔
وزیر اعظم عمران خان کو درپیش داخلی چیلنجز بھی کچھ کم اعصاب شکن نہیں۔ ملک کی معاشی حالت ابھی تک درستی کی جانب گامزن نہیں ہوسکی۔ معیشت کی باگ ڈور منتخب نمایندوں کے بجائے بیرون ملک سے درآمد کیے گئے کرائے کے ماہرین کے حوالے کردی گئی ہے جنھیں عوام کے مفاد اور مسائل سے نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ کوئی سروکار۔ تاجر برادری جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان غیر ملکی معاشی ناخداؤں کی پالیسیوں اور اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتی جس کے نتیجے میں ملکی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ سچی اورکڑوی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام بھی پی ٹی آئی کی حکومت سے بدظن اور اس کی کارکردگی سے مایوس نظر آرہے ہیں کیونکہ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ان کی زندگی میں ''تبدیلی'' لانے کے جو خوش کن اور بلند و بانگ دعوے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا اور یہ تمام وعدے ادھورے اور جھوٹے ثابت ہوئے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بے چارے عوام کے حالات زندگی ''تبدیلی'' کے نتیجے میں بہتر ہونے کے بجائے روزبروز ابتر سے ابتر ہو رہے ہیں۔ ایک جانب روزگارکے مواقع تیزی کے ساتھ کم سے کم ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ہوش ربا مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے جس کی وجہ سے عام شریف آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ عوام کے صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو حکومت مخالف قوتوں کے اکسانے پر کسی بھی وقت چھلک سکتا ہے۔ لہٰذا خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
خان صاحب سے ہماری عاجزانہ اور مخلصانہ گزارش ہے کہ ہمارے کہے کو Wake Up Call سمجھ کر خواب غفلت سے بیدار ہوجائیے اور اپنے اردگرد جمع چاپلوسوں کے ''سب اچھا ہے'' کے فریب سے نکل کر عوام کی بہتری کے لیے فوری قدم اٹھائیے۔
یہ نہ بھولیے کہ پاکستان کے عوام نے گزشتہ عام انتخابات میں ہر طرح کے اختلافات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے ووٹ آپ کی جھولی میں آپ پر مکمل اعتماد اور بھروسا کرتے ہوئے ڈال دیے تھے۔ انھیں آپ کے وعدوں پر یقین تھا اور یہ توقع تھی کہ آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ''تبدیلی'' ضرور آئے گی جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا۔ لیکن سوا سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عوام کو تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے بلکہ حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کی جانب جا رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور دواؤں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوئے چلا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر پیٹرول کی قیمت میں پے درپے اضافے نے پوری کردی ہے۔ سستی بجلی کے منصوبوں کے باوجود بجلی روز بروز مہنگی ہو رہی ہے اور لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ صحت عامہ کی صورتحال بھی مایوس کن ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈینگی سے مرنے والوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ حکومت کے معاشی مسیحاؤں کی اب تک کی تمام کاوشیں آئی ایم ایف کے امدادی پروگرام تک ہی محدود رہی ہیں اور عوام ابھی تک کسی ریلیف کے لیے ترس رہے ہیں۔ انھیں اب مزید تاویلات سے بہلایا جاسکتا ہے اور نہ وعدوں پر ٹرخایا جا سکتا ہے کیونکہ اب مزید انتظار کی سکت باقی نہیں رہی۔ بقول شاعر:
وقت پر کافی ہے قطرہ ابر خوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھرکس کام کا
عمران خان اور ان کی بے ساکھیوں پر کھڑی ہوئی حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ انھیں داخلی سطح پر بھی اعصاب شکن چیلنج درپیش ہیں جن کے مقابلے کے لیے عوامی حمایت اور تحمل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے اور کشیدگی پر قابو پانے کے لیے اشتعال انگیز بیان بازی سے گریز اور افہام و تفہیم کا رویہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ ملکی سلامتی اور بقا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ذاتی اور گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی یک جہتی و اتحاد کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور تمام مفادات پر مقدم رکھا جائے کیونکہ دشمن ہر آن ہماری تاک میں ہے۔
اگرچہ اس بات کا اعتراف ہمارے تمام سیاست دانوں کو ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ اعتراف محض زبانی کلامی ہے اور اس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قول و فعل کا تضاد ہی خرابی کی سب سے بڑی وجہ اور فساد کی جڑ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہی اختلاف رائے کا رواج فروغ نہیں پاسکا پھر سیاست کے میدان میں اختلاف رائے کا کلچر کیونکر پروان چڑھتا؟ بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست میں مخالفت برائے مخالفت کی روایت سیاسی بدعت کی صورت میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ بھگت کبیر نے کیا خوب کہا ہے:
بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے کھائے
جس معاشرے میں اختلاف رائے کی فصل ہی کاشت نہ کی گئی ہو اس کی سیاست میں اختلافات کو برداشت کرنے کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے منصب بشمول نائب قاصد اور سیکریٹری کے لیے حسب عہدہ کوئی نہ کوئی کوالی فکیشنز درکار ہوتی ہیں مگر ہمارے جمہوری نظام میں کوئی بھی وزیر با تدبیر کسی بھی محکمے کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے خواہ وہ اس محکمے کی ''الف، ب'' سے بھی نابلد ہو۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس نظام حکومت کی بنیاد صرف اور صرف کثرت رائے ہی ہے، خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو یعنی Majority is Authority ۔ ضروری نہیں کہ کثرت رائے سے کیا جانے والا ہر فیصلہ درست ہو۔
حد تو یہ ہے کہ خود ایک مغربی مفکر کے بقول "politics is the game of scoundrels" افسوس کہ وطن عزیز کی سیاست اس حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے۔ اس عاشقی میں عزت سادات بھی چلی جاتی ہے۔ بعض علما اور شریفوں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔