قربانی کا جانور آسمان تک کیسے پہنچا

شکر ہے اللہ تعالی نے پردہ رکھ لیا اور خلیل اﷲ کے لیے ذبیح اﷲ کے بدلے باغِ ارم میں چرنے والا ایک مینڈھا اتار دیا۔۔۔

شکر ہے اللہ تعالی نے پردہ رکھ لیا اور خلیل اﷲ کے لیے ذبیح اﷲ کے بدلے باغِ ارم میں چرنے والا ایک مینڈھا اتار دیا۔ شکر ہے خلیل اﷲ کو مینڈھے کی قربانی کرتے ہوئے اندازہ نہ ہوا کہ ان کے بعد ان کے پیروکار ان کی قربانی کو کس طرح ایک کاروبار میں بدل دیں گے۔ اس مقدس کام پر سٹہ کھیلیں گے، بھتہ لیں گے اور جانور کے ساتھ جانور کے مالک کی کھال اتار کے بھی دھوپ میں سکھا دیں گے۔

بچپن میں قربانی سے تین دن پہلے میں ابا کا ہاتھ پکڑ کے عیدگاہ کی دیوار کے سائے میں لگی چھوٹی سی بکرا پیڑھی تک جاتا تھا۔ ابا کوئی درمیانے حجم کا بکرا پسند کرتے اور اس کا منہ کھول کے دانت دیکھتے۔ بات ہزار روپے سے شروع ہوتی اور سات ساڑھے سات سو روپے میں مالک بکرے کی رسی ابا کو تھما دیتا اور ابا یہ رسی مجھے پکڑا دیتے، پھر میں اور بکرا اچھلتے کودتے سینہ پھلائے گھر لوٹتے۔ ہم بچے بکرے کے پیٹ اور کمر پہ مہندی لگاتے۔ پانی کی بھری بالٹی ہر وقت سامنے رکھتے اور ہرا چارہ ہاتھ سے کھلاتے۔ بکرے کے لیے روزانہ آٹھ آنے کا چارہ میں اور میرا چھوٹا بھائی اور بہن خرید کے لاتے۔

یہ واحد شاپنگ تھی جو ہم بچے سال میں ایک دفعہ والدین کی نگاہوں سے دور آزادانہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ضد کی کہ میں بھی شیخ صاحب کے بکرے کی طرح اپنے بکرے کے سینگوں پر لائٹیں لگاؤں گا اور اس کی کمر سے لال ریشمی کڑھا ہوا کپڑا باندھوں گا اور پیروں میں گھنگرو بھی۔ اور پھر ہم اسے بازاروں میں لے کر گھومیں گے۔ لیکن ابا نے یہ کہہ کے دل توڑ دیا کہ بیٹے یہ ریا کاری ہوتی ہے۔ آپ بکرے کو جتنا آرام پہنچا سکیں پہنچائیں تاکہ وہ سکون سے آپ کا کفارہ ادا کر سکے۔ اس پر بوجھ لادو گے اور تھکاؤ گے تو وہ آپ کے لیے دعا نہیں کرے گا۔ اگرچہ ریا کاری اور کفارے کی اصطلاحات تو اس وقت میری سمجھ میں نہیں آئیں مگر ابا کی بات ضرور سمجھ میں آ گئی۔

پھر ایک برس ابا نے کہا کہ بیٹے اس سال ہم بکرا نہیں لے سکتے، گائے میں حصہ ڈالیں گے۔ تب تک میں اتنا بڑا ہوچکا تھا کہ ابا کی ان کہی بات میری سمجھ میں آ گئی اور پھر اس گھر میں جہاں بچپن میں بڑا گوشت صرف بیمار کو یخنی بنا کر دینے یا کباب بنانے کے لیے لایا جاتا تھا۔ وہاں اسے خاموشی سے قبول کر لیا گیا۔

آج میں اچھا بھلا کما لیتا ہوں۔ عید سے پہلے میرے اندر بکرا خریدنے کی بچپنی خواہش جاگتی ضرور ہے لیکن پھر گھر کے روزمرہ اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کا سوچ کر گائے کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔شکر ہے گائے میں سات حصے ہوتے ہیں ورنہ تو۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اور جگہوں کا تو نہیں معلوم لیکن کراچی میں ملک کی سب سے بڑی جانور منڈی لگتی ہے۔ وسطی پنجاب، اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے ہر سال پانچ لاکھ سے زائد چھوٹے بڑے جانور یہاں لائے جاتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے زیادہ جانور آ رہے ہیں ویسے ویسے ان کی قیمت بھی زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کریدنے پر معلوم ہوا کہ اس کا سبب معاش سے زیادہ لالچ ہے۔ بیوپاری کی نہیں بیوپاری پر سواری گانٹھنے والوں کی لالچ۔

کراچی کی بیشتر آبادی غریب یا لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہے لہٰذا یہاں بیس پچیس ہزار روپے کے بکرے کی کھپت کم ہے۔ اوسط درجے کا بڑا جانور پچاس سے ستر ہزار روپے کے درمیان میں پڑتا ہے اور یوں آٹھ سے دس ہزار روپے فی کس میں سات حصے ہو جاتے ہیں۔

جب ایک گائے یا بیل ابھی اپنے گاؤں یا فارم پر چررہے ہوتے ہیں تو ان کی قیمت بیس سے پچیس ہزار روپے ہوتی ہے۔ جب انھیں بڑے ٹرک پر چڑھایا جاتا ہے تو فی جانور کرایہ آٹھ سو سے ہزار روپے اور چھوٹے ٹرک پر پندرہ سو روپے تک ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ ٹرک کراچی کی طرف چلنا شروع کرتا ہے، اس پر گدھ منڈلانے شروع کر دیتے ہیں۔ ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن جس کا اس کاروبار سے دور کا بھی لینا دینا نہیں ان کا کارکن راستے میں کہیں بھی جانور گن کے پرچی کاٹ دیتا ہے۔ حالانکہ اس وقت کسی صوبے میں بلدیاتی ادارے کام نہیں کر رہے لیکن اکثر بڑے قصبوں سے ٹرک گذرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ضلع کونسل یا میونسپلٹی کا ٹیکس دیں۔ سفید اور کالی وردی والے ضلع بدلتے ہی جانوروں کی قربانی سے پہلے پہلے ان کی بوٹیاں اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ کراچی میں داخلے کی حدود سے ذرا پہلے محکمہ صحت والے بیٹھے ہیں جن کا کام جانوروں کی صحت دیکھنا، بیمار جانوروں کے لیے مشورے اور دوا دارو دینا اور ٹیکے وغیرہ لگانا ہے۔ اس کام کے لیے وہ باقاعدہ فیس کے علاوہ فی جانور عیدی بھی وصول کرتے ہیں۔ مگر عیدی ملتے ہی طبی معائنہ بھی مکمل ہو جاتا ہے۔


جب ٹرک سہراب گوٹھ کی بکرا پیڑھی پہنچتا ہے تو فی ٹرک سو روپے انٹری فیس اور فی بڑا جانور آٹھ سو سے ہزار روپے کے ڈویلپمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں جس میں بظاہر پانی، جگہ اور بجلی کے چارجز شامل ہیں۔ لیکن عملاً سب بکتا ہے۔ سامنے کی جگہوں کا کرایہ سب سے زیادہ ہے اور یہ عید سے بہت پہلے ہی بڑے انویسٹرز لے لیتے ہیں۔ پانی کی قیمت نوے پیسے فی لیٹر مقرر ہے لیکن عملاً یہ ڈیڑھ روپے فی لیٹر بکتا ہے۔ چارہ باہر سے خرید کر اندر نہیں لایا جا سکتا۔ اسے وہیں پر مقررہ کنٹریکٹر سے پچاس فیصد زائد قیمت پر خریدنا پڑتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر ایک بڑا جانور دس روز بھی اس بکرا پیڑھی میں رہے تو اس کے کھانے پینے پر تین سے پانچ ہزار روپے اخراجات آتے ہیں۔

یہ منڈی چھاؤنی کی زمین پر قائم ہے۔ اور چھاؤنی والے اس کا ٹھیکہ ایک شخص کو دیتے ہیں اور پھر یہ ٹھیکے دار چارے، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی، ٹینٹوں، پارکنگ لاٹ اور عارضی ریستورانوں کی مد میں چھوٹے چھوٹے ٹھیکے بانٹتا ہے۔ اس منڈی میں تین طرح کے لوگ کام کرتے ہیں۔ بڑے مقامی انویسٹرز جو ہزاروں کی تعداد میں تھوک جانور بیوپاری سے خرید کر انھیں آہستہ آہستہ بیچتے ہیں۔ (اصل انویسٹر کوئی سیاستداں، صنعت کار یا فوج کا تعلق دار ہوتا ہے اور سامنے کوئی اور نام ہوتا ہے)۔ ڈیڑھ دو سو جانور لانے والے متوسط بیوپاری اور دو چار جانور لے کر ٹہلنے والے۔ زیادہ تر جانور اندرونِ ملک سے ادھار پر لائے جاتے ہیں اور یہ جانور بڑی تعداد میں لانے والے بھی چند لوگ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام ساہیوال کے اللہ رکھا کا بتایا جاتا ہے جو عید سے پہلے پچاس سے ساٹھ ہزار جانور کراچی پہنچاتے ہیں اور بڑے انویسٹرز کو فروخت کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ فرض کریں، اللہ رکھا نے ایک جانور ساٹھ روپے کا بیچا تو انویسٹر یہ جانور اصل اور آخری گاہک کو کم ازکم سو روپے کا بیچے گا۔

بکرا پیڑی میں خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کیٹل واک، خوبصورت اور بھاری بھرکم جانوروں کا ہار سنگھار اور میڈیا کے ذریعے پبلسٹی کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ اگر ایک شاندار بیل کی قیمت سات سے دس لاکھ روپے تک بتائی جا رہی ہے تو یقیناً میڈیا کے لیے یہ پرکشش خبر یا فیچر ہے۔ لیکن اس کے اندر گیم یہ ہے کہ جب کچھ وی آئی پی انویسٹرز میں فائیو اسٹار جانور زیادہ سے زیادہ قیمت پر بیچنے کی دوڑ لگتی ہے تو سب ہی اپنے اپنے جانوروں کی قیمت مصنوعی طور پہ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔

لیکن اندرونِ خانہ سات لاکھ روپے کا جانور گاہک سے یہ وعدہ لے کر چار ساڑھے چار لاکھ میں فروخت کر دیا جاتا ہے کہ باہر نکل کے وہ اس کی قیمتِ خرید ساڑھے چھ لاکھ سے کم ہرگز نہیں بتائے گا۔ چنانچہ اصل ببل میکر اپنے جانور کم قیمت پر فروخت کرتا رہتا ہے اور باقی اس کی بظاہر اونچی قیمت کی نقالی میں اپنے جانور کی قیمت نیچے نہیں لاتے۔ چنانچہ جب اصل ببل میکر اپنے جانور بیچ چکا ہوتا ہے تو پھر ببل پھٹ جاتا ہے اور وی آئی پی جانوروں کی قیمت دھڑام سے نیچے آتی ہے۔ اس چکر میں گذشتہ برس دو بیوپاری ہارٹ اٹیک سے مر چکے ہیں۔

جب جانور بک جاتا ہے تو پھر گدھ آخری گاہک پر منڈلانے لگتے ہیں۔ جانور سوزوکی پر چڑھانے کے لیے دھکے کی فیس سو روپیہ ہے۔ بکرا پیڑی چھوڑنے کی فیس تین سو روپے فی جانور ہے اور منڈی سے گھر تک راستہ جتنا لمبا ہو گا اتنے ہی پولیس والوں سے ملاقات کا خدشہ الگ۔۔۔ یوں گھر پہنچتے پہنچتے یہ تمیز مشکل ہو جاتی ہے کہ ان میں سے بیل کون ہے اور بیل خریدنے والا کون۔

کراچی میں قانونی جانور منڈیاں تین چار ہیں اور شہر کے مضافات میں ہیں۔ شہر کے اندر دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت جانوروں کی خرید و فروخت جرم ہے۔ لیکن شہر کے طول و عرض میں لگ بھگ ساڑھے تین سو مقامات پر جانوروں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام فی سبیل اللہ تو نہیں ہو رہا ہو گا۔

کل سے قصائیوں کا کام شروع ہو گا۔ کمیلے ٓمیں ایک گائے پانچ سو روپے میں کٹتی ہے لیکن قربانی کی فی گائے قصائی فیس تین سے پانچ ہزار روپے۔ پھر کھالوں کی باری آئے گی۔ اس کا فیصلہ کہ کھال کسے دینی ہے اور کسے نہیں قربانی دینے والا نہیں بلکہ دوسرے کریں گے اور اسے ان دوسروں کی بات سننی پڑے گی اگر اپنی کھال عزیز ہے تو۔

مختصر یہ کہ عام دنوں میں جس بکرے کا گوشت چھ سو روپے فی کلو ملتا ہے۔ عید کے دنوں میں وہی بکرا زندہ حالت میں بارہ سو روپے فی کلو پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح گائے کا گوشت جس کی سرکاری قیمت دو سو چالیس روپے کلو ہے وہی گوشت قربانی کی شکل میں زندہ گائے کی صورت پانچ سو سے چھ سو روپے کلو پڑ جاتا ہے۔ کراچی میں قربانی پانچ سے چھ ارب روپے سالانہ کا گیم ہے۔ اس میں سے اگر گدھ اپنا حصہ نہ لیں تو اگلی عید پر پچیس ہزار کا بکرا بارہ ہزار میں اور ساٹھ ہزار کی گائے پینتیس سے چالیس ہزار روپے میں بارگاہِ رب العزت تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر وہ جو انگریزی کا محاورہ ہے کہ اگر خواہشوں کے پر ہوتے تو سور بھی محوِ پرواز ہوتے۔۔۔۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story