قبرستان ایک درسگاہ
غور کرنا چاہیے کہ اگر تاریخ کے جھروکوں میں چاند کی طرح جگمگانا ہے
QUETTA:
کبھی کبھار قبرستان کا چکر بھی لگا لینا چاہیے، بہت بڑی درس گاہ ہے یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نہ رہے تو شایدکوئی قیامت آ جائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ قبرستان بھرے پڑے ہیں ، ایسے لوگوں سے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نہ رہے تو دنیا تباہ ہو جائے گی لیکن وہ نہ رہے اور دنیا پھر بھی اسی رفتار بے ڈھنگی سے چل رہی ہے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو کسی مذہب دین دھرم کو حتیٰ کہ خدا کو بھی نہیں مانتے اور ان سب کا انکار بڑے وثوق سے کرتے نظر آتے ہیں لیکن ساری دنیا میں ایک بھی ایسا شخص نہیں مل سکے گا جو موت کا انکار کرسکے جو کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور مومن ، کافر ، ملحد ، دہریے، فاسق و پارسا سب اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن اس رنگ و روشنی اور مٹھاس ولذت سے بھری دنیا رنگ و بوکو جلد یا بدیر چھوڑکر جانا سب کے لیے لازم ہے۔
لیکن بہت سے لوگ بلکہ ایک عظیم اکثریت اس حقیقت کو جو روز روشن کی طرح عیاں ہے جانے کے باوجود اس دھوکے میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کی باری ابھی دور ہے اور توبہ کی امید پرگناہ کی لذت کے حصول میں مشغول رہتے ہیں جوکہ بد ترین حماقت ہے کیونکہ اس دنیا میں آنے کی تو ترتیب ہے لیکن جانے کی نہیں اور قبرستان کی قبروں میں لگے ہوئے کتبے اس کے سب سے بڑے گواہ ہیں ، جن میں نو مولود ، شیر خوار ، بچے ، جوان سب کے کتبے نظر آتے ہیں۔
ہم میں سے بہت سے لوگ دوسروں سے زیادہ باصلاحیت ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کرکے اونچے مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور عزت ، دولت ، شہرت نعمتیں سب ان کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہیں۔ لیکن ان خاص لوگوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو یہ سب پا کر بھی اپنے حواس قائم رکھ پائیں اور اپنا ظرف نہ چھلکنے دیں اکثر و بیشتر یہ سب یا ان میں سے کچھ نعمتیں پا کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ انھیں موت ہی نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ اپنی اس حاصل کردہ دنیاوی بہشتوں میں مسرور و مگن رہیں گے لیکن ایک دن اچانک جب ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا اور جب وہ اپنے اپنے مشاغل میں پوری طرح منہمک ہوتے ہیں تو کوچ کا نقارہ بج جاتا ہے اور انھیں چار و ناچار یہاں سے لاچار جانا ہی پڑتا ہے۔ اس دنیا میں چاہے وہ لوگوں کی اور خود اپنی نظر میں کامیاب ہوں یا ناکام، پر جو آیا ہے وہ تو جائے گا ، اس سے کسی کو مفر نہیں لیکن دینی تعلیمات ہمیں اصل کامیابی کا جو معیار بتاتی ہیں وہ ایک روایت کے مفہوم میں کچھ یوں ہے کہ حقیقی کامیاب وہ ہے جو جہنم سے بچ گیا اورجنت میں داخل ہوگیا۔
یہ دنیا تو پکی بے مہرو بے وفا ہے کہ آپ مرتے ہی ابو ، امی ، بھائی ، باجی ، تایا ، چاچا ، ماموں ، شیخ صاحب چوہدری صاحب ، سردار صاحب نہیں رہتے بلکہ آپ کا نام میت ، جنازہ یا ڈیڈ باڈی ہوجاتا ہے اور پھر آپ کے جاتے ہی جلد یا بدیر دنیا کے لوگوں میں آپ فراموش کر دیے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک بھولی بسری داستان بن کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے سب واقعی مر جاتے ہیں جو انسانی بھلائی اور فلاح کے کام کر جاتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے صحرا کو گلزار اور بیابان کو نخلستان بنا کر چلے جاتے ہیں، ایسے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں اور دنیا کے ہر خطے میں اپنی زندگی کو لوگوں کی خدمت کے کاموں میں صرف کرکے ہمیشہ لوگوں کی یادوں اور دعاؤں میں زندہ رہتے ہیں اور مر کر بھی نہیں مرتے بلکہ حیات جاودانی حاصل کرلیتے ہیں۔
ورنہ آپ دیکھیے دنیا میں بڑے بڑے دولت مند پیدا ہوئے، چھوٹے بڑے حکمران ، بہادر ، دلاور فاتحین آئے اور آکر چلے گئے، بڑے ہوشیار ، عقل مند اور فطین لوگ پیدا ہوئے اور وہ بھی چلے گئے اور بھی زندگی کے کتنے ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والی چھوٹی بڑی شخصیات آئیں اور گزرگئیں لیکن معدودے چند کے سوا کوئی یاد گار حیثیت حاصل نہ کر سکیں۔ معلوم تاریخ سے تاحال اگر ان شخصیات کو اربوں انسانوں میں ممتاز کیا جائے جو یادگار حیثیت کی حامل دلوں کے فاتح اور دعاؤں میں زندہ ہیں تو ان کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں مل سکے گی ساری دنیا میں۔ لیکن ان چند لاکھ لافانی حیثیت کی حامل زندہ جاوید شخصیات میں، جو دنیا کی شروع سے اب تک کی معلوم آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد کم وبیش ہیں۔ ان کی اور بہت سی دیگر بے شمار اپنی اپنی منفرد و بے مثال صفات کے ساتھ ایک صفت ضرور مشترک ملے گی کہ ان تمام عظیم افراد نے کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی طور سے کوئی نہ کوئی انسانوں کی بڑی خدمت ضرورکی ہوگی اور انسانیت کی بھلائی کے لیے کوئی نظام ، نظریہ ، ایجاد ، کتاب ، مثال، صدقہ جاریہ یا کام ضرور چھوڑا ہوگا۔ وہ جو ایک پرانا شعر ہے نا کہ
نام منظورہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا
تو اس شعر میں ایک آفاقی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ فیض کے اسباب مہیا کرنے والوں کو ایسا نام ملتا ہے جسے وقت کی گردشیں دھندلا ہی نہیں پاتیں۔
تو جن کے پاس ابھی موقع بھی ہے ، جو خواص کے درجے کے لوگ ہیں ، جن کے پاس وسائل بھی ہیں ، صلاحیتیں بھی ہیں اور صفات کے بھی حامل ہیں ، انھیں ذرا غور کرنا چاہیے کہ اگر تاریخ کے جھروکوں میں چاند کی طرح جگمگانا ہے اور خود کو فاتحین زمانہ کی زمانوں پر محیط مختصر فہرست میں شمار کرانا ہے توکچھ کر کے دکھا جائیں اور ایسا کر کے دکھا جائیں کہ لوگوں کے قلوب ان کی محبت سے معمور ہوکر مسخر ہوجائیں ورنہ جہاں اب تک آپ جیسے لاکھوں کروڑوں اربوں لوگ آئے اور چلے گئے اور اب ایسے گمنام ہیں کہ شاید بہت قریبی اعزا و اقربا کے سوا کوئی بھی انھیں یاد نہیں کرتا ، آپ بھی ایسے ہی زندگی گزارکر چلے جائیں گے اور آپ کی جگہ نئے چہرے ہوں گے اور بہت مختصر عرصے کے بعد لوگ آپ کا نام سن کر ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کوکوشش کیا کریں گے کہ ہاں جی ! اچھا جی ! ہاں وہ فلاں مالدار صاحب ، فلاں وزیر ، مشیر ، سفیر ، حکمران ،کھلاڑی ، فنکار ، سرکار اور ایسے ہی بے شمار جو اپنے وقت میں لاکھوں کے محبوب نظر تھے اور آج بس قصے کہانیاں ہی ہیں توکبھی کبھی قبرستان کا چکر عوام الناس کو عمومی طور پر لیکن خواص کو تو خصوصی طور پر ضرور لگانا چاہیے کہ انھیں بھی کچھ خیال آئے کہ جیسے یہ سب شہر خموشاں کے مکین آنکھیں موندے سو رہے ہیں۔
کل ہماری بھی باری لازمی ہے تو اس حیات مستعارکا کچھ حقیقی فائدہ ایسے اٹھائیں کہ لوگوں کی تکلیفوں میں کمی لانے کا کوئی نظام کوئی ترتیب بنا جائیں کہ اورکوئی فائدہ ہو یا نہ ہوں یہ فائدہ کیا کم ہے کہ آپ لوگوں کی اچھی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور جب کبھی آپ کے جانے کے بعد آپ کا کہیں ذکر آئے گا تو بے اختیار دل بھر آئیں گے اور لوگ آپ کے کیے ہوئے بھلائی کے کاموں کو یاد کرکے بلا رنگ و نسل و مذہب کے امتیازکے آپ کو دعائیں دیا کریں اور آپ مر کر بھی ہمیشہ زندہ رہیں، تو قبرستان کو صرف قبرستان نا سمجھیں بلکہ وہ ایک بہت بڑی درس گاہ اور ایک یونیورسٹی ہے شاید اسی لیے ہمارے دین میں بھی گاہے گاہے برائے حصول عبرت قبرستان جاتے رہنے کی تلقین ملتی ہے۔