معیاری تعلیم کے مسائل

گردشِ ایام کا شکار پرویز مشرف جن دنوں پاکستان میں طاقت کا واحد مرکز و منبع ہوا کرتے تھے، اور۔۔۔

khanabadosh81@gmail.com

SEOUL:
گردشِ ایام کا شکار پرویز مشرف جن دنوں پاکستان میں طاقت کا واحد مرکز و منبع ہوا کرتے تھے، اور انھوں نے بلوچستان کے ایک بزرگ اور پیرسن رہنما پہ پہاڑ گرا دیا تو گویا یہ پہاڑ پورے بلوچستان پہ کچھ ایسا گرا کہ جس سے پھر بلوچستان اب تک جانبر نہ ہو سکا۔ طاقت کو تمام مسائل کا حل گرداننے والے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کا خیال تھا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہے، اس پہ اب چند نوکریاں اور مراعات کا پانی ڈال کر ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت بے روزگاروں کو خصوصی الاؤنس دینے اور بلوچستان کے طلبا کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اعلان کیا گیا۔

اسی فارمولے کے تحت آیندہ آنے والی پیپلز پارٹی نے آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا۔ اُن دنوں تو اس فارمولے کی خاصی پذیرائی ہوئی، لیکن پھر رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والامعاملہ ثابت ہوا۔ اس تجربے کی ناکامی بلوچستان کے بنیادی معاملات سے آگاہی نہ ہونے کا واضح مظہر ہے۔بلوچستان کے سیاسی معاملات تو خیر جس ڈگر پہ رواں تھے، اسی پہ چلتے رہے، لیکن اس کے نام پہ بلوچستان کے لیے بالخصوص جو تعلیمی وظائف اور پالیسیاں وضع کی گئیں، سیاسی مسائل کے حل میں معاون نہ بننے کے باعث شاید انھیں بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور متعلقہ اداروں نے گویا ایک طرح سے ان سے لاپرواہی سی اختیار کر لی۔ جس سے ان سے فیض یاب ہونے والے طلبا کے لیے مسائل پیدا ہو گئے۔ انھی میں سے ایک معاملہ کوالٹی ایجوکیشن پروگرام کا بھی ہے۔

اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں جو تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے ان میں ایک اہم کام کوالٹی ایجوکیشن کا بھی تھا، جس کے تحت بلوچستان اور فاٹاکے غریب اور لائق طلبا کے لیے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں خصوصی وظائف کا اعلان کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کے تحت مڈل لیول کے طلبا کے لیے وظائف منظور کیے گئے جس میں کہا گیا کہ انٹر لیول تک کے اخراجات پراجیکٹ کے تحت حکومت اداکرے گی۔ اس پراجیکٹ سے بلاشبہ بلوچستان اور فاٹاکے درجنوں غریب اور حقدارطلبہ مستفید ہوئے۔

اسی پروگرام کے تحت 2008ء میں بلوچستان بھر سے ایک ٹیسٹ کے بعد بیس طلبہ مردان کے فضلِ حق کالج کے لیے منتخب کیے گئے۔ پانچ سال بعد اب یہ طلبہ وہاں سے انٹر پاس کر چکے ہیں۔ لیکن اب امتحان پاس کرنے کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ کالج کی جانب سے اس دوران فیسوں میں اضافے کا حصہ ادا کریں، جس کے بعد ہی انھیں ڈگری دی جائے گی۔ کالج کے دو برس کی یہ فیس کوئی ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک بنتی ہے، جو بلوچستان کے ایک عام طالب علم کے لیے خاصی بڑی رقم ہے، جس کی ادائیگی ان کے لیے کارِ سہل نہیں۔ جب کہ یہ طالب علم آیندہ ماہ متوقع بولان میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ میں حصہ لینا چاہتے ہیں، لیکن ڈگری کی عدم موجودگی میں ان کے لیے یہ ناممکن ہو گا ، جس کے باعث ان کا مستقبل داؤ پہ لگا ہوا ہے۔


حالانکہ ان طلبہ کو داخلے کے وقت یہ بتایا گیا تھا کہ کوالٹی ایجوکیشن پراجیکٹ کے تحت ان کی پڑھائی کے تمام اخراجات حکومت اداکرے گی۔ متعلقہ کالج کی جانب سے انھیں داخلے کے لیے بجھوائے گئے خط میں بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دورانِ تعلیم ان کے درج ذیل اخراجات پراجیکٹ کی جانب سے ادا ہوں گے، جن میں؛ داخلہ فیس، ٹیوشن فیس، بورڈنگ اخراجات، کتابوں اور اسٹیشنری کے اخراجات،نائی کا معاوضہ، کپڑوں کی دھلائی کا معاوضہ، کھانے کے اخراجات، کھیلوں اور کلب کی فیس، میڈیکل فیس اور ٹرانسپورٹ فیس شامل ہیں۔

متاثرہ طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حتیٰ کہ ان میں سے بعض معاملات کی مد میں انھیں فیس ادا نہیں کی گئی، جیسے کہ چھٹیوں میں گھر آنے جانے کے اخراجات انھوں نے خود اداکیے۔ صرف پہلی بار ادارے نے انھیں یہ اخراجات ادا کیے، اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ نہ ہی دورانِ تعلیم انھیں یہ بتایا گیا کہ ادارے کی فیس میں کسی قسم کا اضافہ ہوا ہے جو طلبہ کو خود ادا کرنا ہو گا۔ لیکن اب تعلیم کی تکمیل کے بعد جب ڈگری کے حصول کی بات آئی تو یہ معاملہ اٹھایاگیا۔جس سے ایک طرف تو طلبہ شدید ذہنی کوفت اور پریشانی کا شکار ہیں تو دوسری طرف بولان میڈیکل کالج کے جلد متوقع ٹیسٹ کے باعث ان کا مستقبل داؤ پہ لگا ہوا ہے۔

متاثرہ طلبہ کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ نے گزشتہ برس بھی بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے ساتھ یہی مسئلہ کیا تھا۔ غریب طلبہ نے اسلام آباد میں احتجاج کیا۔ جس کے بعداُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ان کے تمام اخراجات ادا کرنے کی ذمے داری اٹھائی۔ تب جا کر انھیں ان کی ڈگری مل سکی۔ اب جو طالبہ اس سے متاثر ہیں وہ اس احتجاج کے بھی متحمل نہیں ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے تئیں اخبارات کو خبریں اورمتعلقہ حکام تک معاملہ پہنچانے کی کوشش کی ہے، لیکن اب تک ان کی کوئی داد رسی نہیں ہو سکی۔ کوالٹی ایجوکیشن کے صوبائی دفتر سے انھیں یہ جواب دیا گیا کہ ان کے پاس اس معاملے میں کوئی فنڈز موجود نہیں، جو فنڈز دیے گئے تھے، وہ اس حوالے سے خرچ کیے جا چکے ہیں۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ تعلیم اب چونکہ کلی طور پر صوبائی معاملہ ہو چکا ہے، اس لیے اب وفاقی حکومت بھی اس ضمن میں معذوری کا اظہار کرتی ہے۔ یہاں صوبے میں یہ عالم ہے کہ اب تک تعلیم سمیت کسی شعبے کا وزیر کا اتا پتہ نہیں۔ سیکریٹری صاحبان کے ہاں عام طالب علم کی رسائی ہی ممکن نہیں۔ عدالتوں میں جانے سے معاملہ طول پکڑ سکتا ہے، جب کہ طلبہ کے لیے ڈگری کا حصول فوری اور ہنگامی نوعیت کا معاملہ ہے۔ ایسے میں طلبہ کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔

بلوچستان اور فاٹا کے اختیار داروں کو اس بظاہر اس معمولی لیکن درحقیقت درجنوں طلبہ کے مستقبل سے جڑے معاملے کی جانب فوری توجہ دینا ہو گی۔ متعلقہ حکام کے لیے یہ محض ایک آدھ دن کی کاغذی کارروائی کا کام ہے، لیکن ان طلبہ کے لیے عمر بھر کا مسئلہ ہے، جو بلوچستان اور فاٹا جیسے دور دراز علاقوں سے ملک کے اعلیٰ اداروں تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ایک ایک طالب علم کو الگ الگ کیس اسٹڈی کے طور پر لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ محض چند طلبہ نہیں بلکہ کئی خاندانوں کے مستقبل کا سوال ہے، جس سے ریاست کی بقا اور مستقبل کا سوال براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے بلوچستان کے سیاسی مسائل تو حل ہونے کے نہیں، یہ چند ایسے تعلیمی اورعوامی مسائل ہی حل کر سکیں تو ان کی نیک نامی کے لیے کافی ہو گا۔
Load Next Story