اردو ذریعہ تعلیم

تعلیم اور ملازمتوں میں میرٹ کے قتل عام کے باعث جو حشر تعلیم اور جو تباہی قومی اداروں کا مقدر۔۔۔


نجمہ عالم October 14, 2013

تعلیم اور ملازمتوں میں میرٹ کے قتل عام کے باعث جو حشر تعلیم اور جو تباہی قومی اداروں کا مقدر بنی وہ تو سب کے علم میں ہے۔ ایک ذہین، محنتی اور درجہ اول میں کامیاب ہونے پر نقل کرکے پاس ہونیوالے اور کوٹے کی بنیاد کے علاوہ سفارش کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے لیے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنیوالے کے باعث موت کے سوداگر ڈاکٹر اور تعمیرات میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے انجینئر ، تعلیمی اداروں میں اپنے مضامین پر پوری دسترس نہ رکھنے والے اساتذہ کے باعث معاشرہ جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر سوائے افسوس کرنے کے اور کچھ کیا بھی تو نہیں جاسکتا۔

اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کی مدت میں مزید بیس سال کا اضافہ، بڑی خاموشی ہوگئی کسی نے بھی کوئی احتجاج نہ کیا۔ بھلا 20سال بعد جب مزید دو تین نسلیں انگریزی میں ماہر اور اردو سے نابلد سامنے آجائیں گی تو کیا اردو کو رائج کرنے کا کوئی جواز رہ جائے گا؟ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ مائیں بڑے فخر سے بھری محفل میں یہ فرماتے ہوئے ذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتیں کہ میرے بچوں کی اردو تو بے حد خراب ہے دو لفظ بھی صحیح طرح بول سکتا ہے نہ لکھ پڑھ سکتا ہے مگر میں نے آج تک کسی والدہ صاحب کو یہ کہتے نہیں سنا کہ میری بیٹی یا بیٹے کی انگریزی بہت خراب ہے۔

اردو نہ جاننے کا ببانگ دہل ذکر کرنا باعث فخر اور انگریزی خراب ہونے کے بارے میں بتانا باعث شرمندگی قرار پایا ہے حالانکہ تعلیم کو واقعی خلوص کے ساتھ عام کیا جائے تو ذریعہ تعلیم اردو یا انگریزی ہونے کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ نتائج ایک بہترین اور مہذب معاشرے کی صورت میں ہی سامنے آئینگے۔طلبہ پر آج ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے دروازے بند کرکے ان کو صرف رٹو طوطے بنانے کے عمل نے ڈگری یافتہ جاہلوں کی ایک کھیپ پروان چڑھائی ہے جس میں اکثریت ان کی ہے جو سوائے اپنے مضامین کے کسی دوسری بات سے ذرا بھی واقف نہیں ہیں۔

تدریس کے خاصے تجربے کے باعث میرے ذہن میں کئی ایسے واقعات ہیں کہ جب بھی ان کا خیال آتا ہے تو سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔اردو میں شاعری پڑھاتے ہوئے خاص کر علامہ اقبال کے کلام میں تاریخ اسلام کے بیشمار حوالے ہوتے ہیں نظم خضر راہ پڑھاتے ہوئے آغاز میں پوری کلاس سے پوچھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں آپ کو کیا معلوم ہے۔ پوری کلاس کو گویا سانپ سونگھ گیا۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی اور کچھ غصہ بھی آیا میں نے کہا آپ سب ماشاء اللہ مسلمان ہیں اور اتنا بھی معلوم نہیں؟ سب خاموش رہے پھر میں نے کہا اچھا چلیے یہ تو ذرا دور کی بات ہوگئی مجھے آپ خلفائے راشدین کے نام ترتیب سے بتا دیجیے پھر حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں ، میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گی فوراً تین چار ہاتھ بلند ہوگئے میں نے ان ہی سے باری باری پوچھا ایک صاحبزادے نے فرمایا حضرت عثمانؓ پہلے، حضرت ابوبکرؓ دوسرے حضرت علیؓ تیسرے میں نے ان کو روک کر دوسرے طالبعلم سے پوچھا جو بڑی بے قراری سے بار بار ہاتھ ہلا رہا تھا تو وہ فرمانے لگے کہ میڈم یہ غلط بتا رہا ہے درست یہ ہے کہ حضرت عمرؓ پہلے۔۔۔۔غرض یہ کہ ان میں سے کسی نے بھی درست ترتیب نہ بتائی میں نے ایک باریش صاحبزادے سے کہا اس پر آپ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟

بس وہ تو سخت برا مان گئے اور تقریباً آستینیں چڑھاتے ہوئے گویا ہوئے میڈم! میرے سبجیکٹ میں اکنامکس، بزنس اسٹڈیز اور سوشیالوجی ہے ذرا بتائیے کہ ان میں سے کس سبجیکٹ میں ہمیں یہ سب بتایا جاتا ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا کہ بیٹا! کیا آپ پیدا ہوتے ہی کالج تشریف لے آئے تھے جب کہ میری معلومات کے مطابق پہلی سے دسویں تک اسلامیات لازمی ہے کیا کسی بھی درجے میں آپ کو خلفاء کے بارے میں نہیں بتایا گیا؟ چیں بہ چیں ہوکر کہنے لگے میں نے میٹرک نہیں کیا اولیول کیا ہے۔ بیٹا! اولیول میں بھی اسلامیات (اسلامک اسٹڈیز) لازمی مضمون ہے۔تو یہ ہے ہمارا نظام تعلیم کہ محض مطلوبہ مضامین میں رٹ کر نقل کر کے پاس ہوجانا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ابتدائی جماعتوں میں اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس ڈویژن میں گریجویشن یا ماسٹر کیا ہے۔

علمی استطاعت کے علاوہ بحیثیت استاد کے کامیاب رہیں گی /گے یا نہیں۔۔۔۔۔اگر ابتدائی جماعتوں میں مضمون پر مکمل دسترس رکھنے والے اور اپنے علم کو دوسروں تک عام فہم انداز میں پہنچانے کی صلاحیت سے مالا مال اساتذہ مقرر کیے جائیں تو کام چور سے کام چور طالبعلم تیسری نہیں تو چوتھی جماعت تک اچھی اردو، انگریزی، اسلامیات اور تاریخ سے کماحقہ ہو واقف ہوسکتا ہے۔ آج اساتذہ کو In Service ٹریننگ، ورک شاپ وغیرہ کی سہولت بھی حاصل ہے جب کہ ہمارے دور طالبعلمی میں اساتذہ اپنے مضامین کے علاوہ بھی معلومات عامہ میں اضافے کرتے تھے۔اس صورتحال کی اصل وجہ طلبہ کو کتابی کیڑا بنانے کا عمل ہے۔

جب تعلیمی اداروں میں معلومات عامہ کے مقابلے مباحثے، مذاکرے، مشاعرے اور بیت بازی وغیرہ نہ ہوں طلبہ کو معاشرے کا ایک اچھا فرد بنانے کی بجائے کتابوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے ہی استعمال کیا جائے اساتذہ نصاب مکمل کرانے کے علاوہ طلبہ کی کوئی تربیت نہ کریں۔۔۔بھاری بھاری فیسیں وصول کرنیوالے ادارے انھیں صرف کاغذ کے پرزے بطور ڈگری یا اسناد عطا کر رہے ہوں۔

اچھا شہری یا اچھا انسان بنانا ان نام نہاد اداروں کی ذمے داری نہیں عالم یہ ہے کہ اگر کچھ اساتذہ طلبہ کو کمرہ جماعت میں تہذیب سے بیٹھنے یا پیش آنے پر زور دیں تو ان کے خلاف طلبہ ادارے کے ذمے داروں کو سالانہ خفیہ رائے شماری میں بہت برا استاد قرار دیتے ہیں اور ان طلبہ کی رائے شماری پر جو عموماً کلاس سے غائب رہتے ہیں اور ان کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کتنا نصاب مکمل ہوگیا ہے اور کتنا باقی ہے نصاب میں کون سا ناول کون سے افسانے اور کتنے شعراء کا کلام شامل ہے انتظامیہ ان اساتذہ کے خلاف کارروائی کرکے یا تو ان کو برطرف کر دیتی ہے یا تنبیہہ کے ساتھ مشاہرے میں سالانہ اضافہ اچھے نتائج سے مشروط کرکے روک لیتی ہے ۔

جہاں اساتذہ کی یہ توقیر ہو وہاں معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ وہ جو کہتے ہیں نا کہ باادب با نصیب بے ادب بے نصیب اس کی عملی تصویر ہمارا معاشرہ پیش کر رہا ہے طلبہ نہ والدین کا ادب ولحاظ کرتے ہیں نہ اساتذہ کا۔اس میں تھوڑا سا (بلکہ کافی زیادہ) قصور خود اساتذہ کا بھی ہے کہ وہ بطور استاد نہ مخلص رہے نہ ایماندار صرف پیسہ کمانے کی مشین بن گئے ہیں زیادہ تر اساتذہ کے اپنے ٹیوشن سینٹرز ہیں یا وہ کسی کے سینٹر بلکہ کئی کئی ٹیوشن سینٹرز میں پڑھاتے ہیں اپنے تعلیمی ادارے میں پورا پیریڈ گنوا کر طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ شام کو ان کے ٹیوشن سینٹر میں آکر سب کچھ سمجھو اگر وہ کلاس میں ہی طلبہ کو مکمل طور پر سمجھا دیں تو ٹیوشن کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے؟ مگر آج کل تو ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ درجوں تک ٹیوشن پڑھنا فیشن نہیں بلکہ فرض بن گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی کا بچہ کسی مضمون میں کمزور ہوتا تھا تو خاندان یا گھر کا کوئی بڑا ہی اس کو وہ مضمون پڑھادیتا تھا اگر کسی گھر میں کوئی اس مضمون کا واقف نہ ہوتا اور مجبوراً کسی اور کی خدمات بطور ٹیوٹر حاصل کی جاتیں تو اعزاء و اقارب سے ایسے چھپایا جاتا جیسے ان کا بچہ کسی گناہ میں ملوث ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں کیا کہا جاسکتا ہے سوائے اس کے کہ:

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں