ہمارے بڑے بچے خود سَر کیوں ہوتے ہیں۔۔۔

اکثر مائیں جانتے بوجھتے ہوئے بھی غفلت کا ارتکاب کر جاتی ہیں

اکثر مائیں جانتے بوجھتے ہوئے بھی غفلت کا ارتکاب کر جاتی ہیں

وہ چار سال کی بچی تھی اور دورانِ سفر جتنی انہماک سے 'اسمارٹ موبائل' کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی، وہ حیران کن تو نہ تھا مگر تشویش ناک ضرور تھا، میری نظریں بار بار اس پر جا کر ٹھیر جاتیں، جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی آنکھوں کو مسلنے لگتی تھی، اس کی آنکھیں تھک چکی تھیں مگر دل نہیں بھرا تھا۔۔۔

میں نے اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون کو توجہ دلائی تو پتا چلا کہ وہ اس بچی کی نانی ہیں، کہنے لگی ''بھئی کیا کروں موبائل دیتی ہی نہیں، ہر وقت ہی اپنے موبائل کے ساتھ چپکی رہتی ہے۔''

''جب سے اس کا چھوٹا بھائی پیدا ہوا ہے، تب سے یہ موبائل شاید سوتے وقت ہی ہاتھ سے رکھتی ہے، اگر گھر میں بھی کوئی ہاتھ سے لے لے تو پھر اس کی شامت آ جاتی ہے، سارے گھر میں چیخ پکار الگ مچاتی ہے!'' خاتون نے بات پوری کی، ان کے فخریہ انداز میں شکایت یا کھسیانے پن کا اظہار بھی تھا، مگر مجھے اس بچی اور اس عمر سے تعلق رکھنے والے بچوں سے خوف محسوس ہونے لگا کہ یہ اتنی سی عمر میں جس دیوانگی میں گرفتار ہو گئے ہیں، وہ نہ جانے کیا دن دکھائے؟

دورانِ گفتگو بھی خاتون نے نواسی سے موبائل لینے کی کوشش کی، تو اس کی بدتمیزی اور غصے میں زبان درازی میں نے بھی دیکھی۔ اگرچہ جارحانہ مزاج اس عمر میں جنم لے چکا تھا، تو یہ لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے، گویا کسی زمانے میں اتنا سا بچہ جو ماں کے نہ ہونے پریشان ہوتا تھا، افسردگی میں رہتا تھا، یہ دیر تک روتا رہتا تھا یا بیمار پڑ جاتا تھا، اب وہ ماں سے زیادہ اہمیت موبائل کو دیتا ہے، یوں ایک مادّی چیز ماں اور بچے جیسے ناگزیر تعلق کے درمیان آگئی، جو ان کے رشتے کو روز بروز کم زور اور بودا بنا رہا ہے۔

اس سے زیادہ بدبختی یہ ہے کہ اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا اور ڈنکے کی چوٹ پر دوسرے بچوں کی پیدائش کے بعد بڑے بچوں کی اہمیت گھٹا دی جاتی ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو اب بڑے ہوگئے، اس لیے انہیں زیادہ توجہ نہ بھی دی جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ امر ان پر نفسیاتی اور جذباتی طور پر بہت مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔


بحیثیت ماں یہ بات جتنی جلدی سمجھ میں آجائے یہ آپ اور آپ کے پہلے بچے کے لیے اتنی ہی سود مند ہوگی، کیوں کہ آپ کا اچانک اس کی جگہ پر دوسرے بچے کو توجہ اور وقت دینا اس کی تربیت میں خلا اور زبردست احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر بہت سے ردعمل پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

حتیٰ کہ اس کی اچھی خاصی شخصیت کو تہہ وبالا بھی کر سکتا ہے، کیوں کہ اتنی عمر کے بچے کو احساسِ تحفظ، اطمینان،خوشی صرف اور صرف ماں کی قربت میں ہی میسر آتی ہے، لیکن آپ لاشعوری طور پر بچے کو مصروف رکھنے اور اس کو وقت دینے کے بہ جائے موبائل جیسا 'نشہ' اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، اس کا مداوا پھر آگے چل کر آپ کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا۔

یاد رکھیے کہ یہ فاصلے صرف آپ اور آپ کے بڑے بچے کے درمیان ہی نہیں ہوں گے، بلکہ یہ فاصلے اس کا سبب بننے والے نوزائیدہ بہن یا بھائی سے بھی ہوچ سکتے ہیں، وہ شاید عمر بھر اس سے محبت اور انسیت کا وہ جذبہ پیدا نہ کر پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ بچے اپنے چھوٹے بھائی یا بہن سے ہمہ وقت چڑتے رہتے ہیں، بلکہ لڑتے جھگڑتے بھی ہیں، مگر اسی عمر کے دوسرے بچوں کے ساتھ ہر وقت مل جل کر رہتے ہیں، ساتھ کھاتے پیتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں یہ سمجھ ہی نہیں پا رہیں کہ ایک ڈھائی تین یا چار سالہ بچہ بھی آپ کی توجہ اور محبت کا متلاشی ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس محبت کا حق دار سمجھتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ آپ کتنی تھکی ہوئی ہیں یا مصروف ہیں اور نہ ہی وہ اپنے درمیان اس آنے والے بچے کو برداشت کرتا ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے ہی خود کو نظرانداز کرنے پر احتجاج بھی کرتا ہے، جس کا اظہار وہ حکم عدولی اور ضدوں کے ذریعے کرتا ہے اور یہ کہنا چاہتا ہے کہ اسے اب بھی آپ کے قرب میں تحفظ کا احساس چاہیے۔ یہ اس کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ اس مصلحت یا مجبوری کو سمجھ ہی نہیں چاہتا۔

آپ کو بچے کے جذبات پر پڑنے والی افتاد کا حل اور اس کے ہیجانی کیفیت میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو نہ صرف سمجھنا ہو گا بلکہ اسے اپنی توجہ اور محبت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کوئی بھی کھلونا یا موبائل آپ کے دیے ہوئے وقت کا متبادل نہیں ہے، نہ ہی آپ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور شخصیت آپ کا نعم البدل ہوسکتی ہے۔ اس کی عادات واطوار کا بگاڑ اور شخصیت میں اعتماد اور بھروسے کی کمی اسی غفلت کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ آپ اگر غافل ہیں، تو آپ کی فوری اور بھرپور توجہ اس کمی کا ازالہ کر سکتی ہے۔ اس کی یہی صورت ہے کہ آپ اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں دل چسپیوں لیں، اسے غور سے سنیں، جواب دیں اور اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ بھی آپ کے لیے اہم ہے۔
Load Next Story