العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر مشروط ضمانت منظور کرلی ہے۔
العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ میں خود بھی ایک وکیل ہوں، جیل کے قیدیوں کے مسائل موجود ہیں، میں نے ایک سال میں 8 جیلوں کے دورے کیے تاہم جیل میں قیدیوں کے حوالے سے اقدامات بہتر بنانے کی ضرورت ہے جب کہ پیرول ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی ہورہی ہے۔
عدالت نے سروسز اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سلیم چیمہ کو روسٹرم پر طلب کیا، ڈاکٹر سلیم چیمہ نے نواز شریف کی نئی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روزمیڈیکل بورڈ کاساتواں اجلاس تھا، نواز شریف کی طبی حالت اب بھی تشویش ناک ہے۔
سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی عمر 70 سال ہے اور دل کی بیماری بھی ہے، نوازشریف کے ساتھ 20 سال سے ہوں اور آج تک اتنی تشویش ناک حالت میں نہیں دیکھا، پلیٹلیٹس کی کم تعداد کی تاحال وجوہات کا علم نہیں ہو سکا، مسلسل علاج کے باوجود نواز شریف کے پلیٹلیٹس نہیں بڑھے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔
جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا پلیٹلٹس بڑھانے سے دل کی بیماری شروع ہوجاتی ہے، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جی نوازشریف کو بہت سی بیماریاں ہیں، ایک کے علاج سے دوسری متاثر ہوتی ہے، جب دل کی بیماری ہوتو اس کا اثر پلیٹلٹس پر بھی ہوتا ہے لہذا نواز شریف کو اجازت دی جائے کہ وہ جس ڈاکٹر سے چاہیں علاج کرائیں۔
جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس میں کہا کہ کس نے فیصلہ کرنا ہے کہ جب نواز شریف ٹھیک ہوگئے تو سزا پوری کریں گے، اگر وہ کبھی بھی دوبارہ سزا کاٹنے کے قابل نہیں ہوتے تو کیا ہو گا، کیا سزا کو پھر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا، اگر ضمانت ہوجائے اور چند ماہ میں نواز شریف صحتمند ہو جائیں تو طریقہ کیا ہوگا۔
نیب نے دلائل کے آغاز میں نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کی مخالفت کی تاہم بعد میں نوازشریف کو مشروط اور محدود ضمانت دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی بنیاد پر نواز شریف کی میڈیکل حالت تشویشناک ہے، عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزامعطل کر دے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کو مخصوص مدت کے لیے ضمانت دی جاسکتی ہے، علاج کے لیے مخصوص مدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار سپریم کورٹ نے بنایا ہے جب کہ نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت یہ ہے کہ درخواست ضمانت کو التواء میں رکھا جائے اور اس دوران نواز شریف کی فریش میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ایگزیکٹو اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے کندھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کے 3 آپشنز ہمارے سامنے ہیں، پہلا آپشن یہ ہے کہ نوازشریف کو ضمانت دے دی جائے، دوسرا آپشن ہے کہ نیب کی تجویز کے مطابق مشروط ضمانت دے دی جائے جب کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت کواختیار دے دیا جائے۔
جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت ضمانت کا فیصلہ کرے تو شاید وہ ڈیل نہ کہلائے، ڈیل کی باتوں نے رائے عامہ کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نوازشریف کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا، عدالت نے فیصلے میں سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر 8 ہفتے کے لیے مشروط ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف 8 ہفتے میں علاج کروالیں، عدالت نے انہیں 20، 20 لاکھ کے 2 مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔